انتہائی گھسا پٹا اور سیاستدانوں کا ''ڈھونگ‘‘ فقرہ ہر دور میں کثرت سے سننے کو ملتا آیا ہے کہ ''ملک مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے‘‘۔ بد قسمتی سے وطن عزیز کا روز اول سے شروع ہونے والا یہ مشکل دور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف مشکل اور نازک ہوتا چلا گیا بلکہ اب تو اس میں سنگینی کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ حکمران سیاسی ہو یا ''غیر سیاسی‘‘ یہ فقرہ اس کی زبان سے ایسے ادا ہوتا ہے گویا وہ کوئی مفاد عامہ کی اہم ترین معلومات شیئر کر رہا ہو یا اپنی ناکامی اور نااہلی کا عذر گھڑ کر عوام کے سامنے بری الذمہ ہونا چاہتا ہو۔ یہ تو رہے حکمران اور سیاستدانوں کے ڈھکوسلے اور حیلے بہانے۔
یقین جانیے‘ بخدا ہمارا ملک اب واقعی اور ''سچی مچی‘‘ مشکل ترین... نازک ترین... اور سنگین ترین صورتحال سے دوچار ہو چکا ہے۔ اسے ماضی کا روایتی اور گھسا پٹا ڈائیلاگ سمجھ کر صرف نظر سے کام لینا کسی طور مناسب نہ ہو گا۔ بلکہ اس صورتحال کی سنگینی کا احساس کرنا اور ہوش کے ناخن لینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو خود نہ صرف مشکل ترین صورتحال کا سامنا ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ گمبھیر اور کٹھن صورتحال سے وہ عوام کو دوچار کر چکی ہے۔ حکومت کی مشکلات کی بڑی وجہ ''اناڑی پن‘‘ ہے۔ اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ زبانیں رکتی ہی نہیں... وزراء اپنی زبان کے ہاتھوں اتنے مجبور ہیں کہ کبھی صحافیوں سے معافیاں مانگنا پڑتی ہیں تو کبھی شوبز سے تعلق رکھنے والی فنکاراؤں سے معذرت خواہ ہونا پڑتا ہے۔
اور اب یہ عالم ہے کہ حالیہ عام انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کے قائدین جس علمی قابلیت اور انتظامی مہارت کا ڈنکا بجایا کرتے تھے‘ وہ محض ڈھونگ ثابت ہوا۔ کہاں رہ گئے وہ بلند بانگ دعوے اور وعدے ؟ جس کے نتیجے میں عوام ان کے جھانسے میں آ گئے اور ان کو حکمران بنا کر اپنے سروں پر لا بٹھایا۔ آخر ان سب کا اطلاق کیوں نہ ہو سکا، جن کا دعویٰ اور وعدہ تھا؟ وہ نتائج کیوں برآمد نہ ہو سکے جن کی نوید عوام کو تواتر کے ساتھ سنائی گئی تھی۔ کیا وہ سب کچھ دکھاوا تھا، یا تماشا؟ اور اب یہ عالم ہے کہ عوام اپنا سر پیٹنے پر مجبور نظر آ رہے ہیں۔ پہلے سے ہی مشکلات کا شکار زندگی میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد‘ منی بجٹ کے ساتھ ڈالر کی اونچی اڑان اور روپے کی بے قدری کے جھٹکے اور صدمے آئندہ چند روز میں عوام کو مزید بد حال کرنے جا رہے ہیں۔ تبدیلی کا خمار اب بخار بن کر عوام کو جھلسا رہا ہے۔ اس پر ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ کوئی وزیر ہو یا مشیر... کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ حالات کیا ہیں اور بولنا کیا ہے۔ سوال کیا ہے اور جواب کیا دینا ہے۔ ہر مسئلے اور عوامی مشکلات سے بے نیاز ارباب اقتدار اپنی نااہلی اور نالائقی پر نازاں پھرے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ ایسی بند گلی کے مسافر بن چکے ہیں جہاں سے پلٹنا تو درکنار پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ملتی۔
وزیراعظم صاحب کی خواہش کے نتیجہ میں پنجاب کے عوام اب عثمان بزدار جیسے وزیر اعلیٰ کے رحم و کرم پر ہیں۔ سٹاک کے انباروں کے ساتھ سجی سجائی دکانیں گاہکوں کا رستہ تکنے پر مجبور ہیں۔ گویا گاہک روٹھ ہی گئے ہوں۔ بازاروں میں ویرانیاں دیکھ کر لگتا ہے جیسے کوئی جن پھر گیا ہو۔ قوت خرید سے باہر اشیائے ضروریہ عوام کو بے بس اور لاچار کیے ہوئے ہیں۔ تجربہ اور ثبوت کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ کسی سڑک یا بازار میں چند منٹ کھڑے ہو کر کسی دکاندار یا راہگیر سے احوال تو دریافت کریں۔ وہ پھٹ نہ پڑے تو پھر کہنا۔ امن و امان کا تو اللہ ہی حافظ ہے‘ جبکہ شہری سہولیات بلدیاتی اداروں سے عناد کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
2018 کو وطن عزیز کی تاریخ میں کئی حوالوں سے یادگار اور اہم ترین سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس سال کو احتساب اور عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں کئی اہم سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن کے زوال اور پسائی کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ لیکن اسی سال میں رونما ہونے والے اہم ترین اور سبق آموز واقعات سے تحریک انصاف سبق حاصل کرنے کے موڈ میں نہیں... اور اگر یہی صورتحال رہی تو کہیں سال رواں تحریک انصاف کے حوالے سے یادگار اور سبق آموز نہ بن جائے‘ کیونکہ حکومت کے پاس آپشنز اس طرح ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ جیسے مٹھی سے ریت سرکتی ہے۔ عوام بدحالی کے ساتھ ساتھ ناامیدی اور غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں۔ امید کے آخری چراغ جل بجھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی صورت میں ان کی آخری آس بھی دم توڑنے کو ہے۔ زبان زدعام ہے کہ اگر یہ تبدیلی ہے تو خدا را ہمیں یہ تبدیلی نہیں چاہیے... ہم باز آئے اس تبدیلی سے۔
شریکِ ذوقِ نظر ہو چلی ہے مایوسی
بہار آئے نہ آئے، خزاں بدل جائے
انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی پارٹی کا نام تجویز کرنے سے لے کر سیاسی جدوجہد تک... دھرنوں سے لے کر انتخابات اور ایوان اقتدار تک تمام مراحل میں تحریک انصاف کے ایجنڈے اور منشور کو شب و روز پروموٹ کرنے والے برادر محترم حسن نثار بھی ششدر ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اپنے ٹاک شوز اور کالموں میں وہ برملا اظہار کر چکے ہیں کہ مجھے تحریک انصاف کے قائدین کی علمیت، مہارت اور قابلیت کے بارے میں تاثر کا جو بت دکھایا گیا تھا‘ وہ ان کی گورننس اور طرز حکمرانی کے بعد زمین بوس ہوتا نظرآرہا ہے۔ لوگ انہیں راستہ روک کر پوچھتے ہیں: کیا یہی ہے وہ تبدیلی جس کی نوید آپ اپنے کالموں اور ٹاک شوز میں عوام کو دیتے رہے؟ انہوں نے پی ٹی آئی والوں کو سابقہ حکمرانوں کا پیٹی بھائی قرار دے کر عوام کے حالت زار اور جذبات کی نہ صرف ترجمانی کی‘ بلکہ مستقبل کا منظرنامہ بھی عوام کے سامنے پیش کردیا ہے۔ خدا خیر کرے‘ تبدیلی زدہ عوام کی۔
رہی بات کارکردگی اور نیتوں کی‘ اس کا بھرم تو گزشتہ چھ ماہ کی گورننس اور حکمت عملی نے کھول ہی دیا ہے۔ دوسری طرف شیخ رشید کی ''اصولی سیاست‘‘ کا بخار ہائی ڈگری کو چھو رہا ہے۔ وہ کافی دنوں سے حکومتی پالیسیوں پر شدید اختلاف اور تحفظات کا اظہار کرتے نظر آ رہے اور شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کے فیصلے پر خاصے برہم و نالاں دکھائی دیتے ہیں‘ اور اس پر عدالت سے رجوع کرنے کا بھی عندیہ دے چکے ہیں۔ شیخ رشید سیاسی موسمیات کے ماہر، منجھے ہوئے‘ باخبر سیاستدان ہیں اور انتہائی سوچ سمجھ کر بیانیے اور راہیں بدلتے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی اور گورننس پر عوامی مزاحمت اور ردعمل شیخ رشید کو کسی ''نئے ایڈونچر‘‘ کا جواز فراہم کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ شیخ رشید کے گلے شکوے اور تحفظات کب سیاسی اختلافات کا روپ دھارتے ہیں؟
دوسری جانب سپریم کورٹ سے معصومیت اور والدہ کے مشن پر گامزن رہنے کا سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد بلاول بھٹو کے زبان اور بیان میں مزاحمت اور برہمی کا عنصر غالب آ چکا ہے‘ اور وہ دفاعی پوزیشن سے نکل کر اب کھلے عام حکمرانوں کو للکار رہے ہیں۔ گورننس اور اہداف کے حصول میں ناکامی سے دوچار حکومت کو بیک وقت کئی محاذوں کا سامنا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ٹیم اناڑی اور سیکھنے کی حس سے عاری ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے ملاح کو ہوائی جہاز کے کاک پٹ میں بٹھا دیا گیا ہو۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اسمبلیوں میں بیٹھے عوامی نمائندے بھی ملک و قوم پر بھاری محسوس ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے والا ان کا نمائندہ گھر سے لے کر اسمبلی تک قوم کے خرچے پر جاتا ہے اور دوران قیام کھانے سے لے کر نہانے تک کا خرچہ بھی قومی خزانے سے ہی جاتا ہے۔ گویا گھر سے نکلے اور میٹر ڈاؤن... اور نتیجہ صفر۔ اسمبلیوں میں بیٹھ کر قوم کا غم کھائے ارکان کون سا تیر مار رہے ہیں‘ اور عوام کی فلاح و بہبود سے مشروط کون سی قانون سازی ہے جو ان کے کریڈٹ پر ہے... اور ان اسمبلیوں پر اٹھنے والے اخراجات اور ارکان کے الاؤنسز کے عوض قوم کو کیا مل رہا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو سال رواں میں مزید اہمیت اور تقویت کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس پر آئندہ تفصیل سے بات ہوگی۔