منو بھائی کو ہم سے بچھڑے پورا سال بیت چکا ہے... کل (بروز ہفتہ) منو بھائی کی برسی کے حوالے سے فلیٹیز ہوٹل میں برادرِ محترم حسن نثار کی زیر صدارت ایک تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
قارئین! بمشکل قدم نے ساتھ دینا شروع کیا ہے... طبیعت اُداس‘ بہت کچھ لکھنے پر آمادہ ہے... کچھ لکھ نہیں پا رہا... ذہن اور قلم کا آپس میں ربط نہیں بن پا رہا... ایسا تو نہیں ہوتا... آج ایسا کیوں ہو رہا ہے...؟ کچھ لکھنا شروع کرتا ہوں تو چند سطور کے بعد خود اپنی ہی تحریر سے غیر مطمئن ہو کر دوبارہ لکھنا شروع کر دیتا ہوں... یہ عمل متعدد بار دوہرایا جا چکا ہے... اس کیفیت کی یقینا صرف ایک ہی وجہ ہے... اور وہ ہے آج کے کالم کا موضوع... منو بھائی کی شخصیت پر اظہارِ خیال کے لیے الفاظ کے چناؤ سے لے کر استعاروں کے استعمال تک کوئی لفظ مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اُتر پا رہا جو ان کی شخصیت اور سماجی خدمات کا احاطہ کر سکے... ''چھوٹا منہ بڑی بات‘‘... ''سورج کو چراغ دکھانا‘‘... جیسی ضرب الامثال بھی بے اثر اور غیر متعلقہ محسوس ہو رہی ہیں۔
اسی کشمکش میں تھا کہ منو بھائی کے ایک ''سیوک‘‘ اور سندس فاؤنڈیشن کے صدر یاسین خان کا فون آ گیا‘ اور منتشر خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ یاسین خان بولے ''آصف بھائی! سارے دعوت نامے تقسیم ہو چکے ہیں اور تمام احباب کو اطلاع ہو چکی ہے‘ آپ بتائیے حسن نثار صاحب کو پِک اینڈ ڈراپ کے لیے کسی کی ڈیوٹی لگا دیں‘‘؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں بھی اپنے ذمے تمام دعوت نامے تقسیم کروا چکا ہوں اور اکثر احباب سے فون اور واٹس ایپ پر رابطے میں ہوں اور رہی بات برادر محترم حسن نثار کو ''پِک اینڈ ڈراپ‘‘ کروانے کی تو اس کی ضرورت نہیں... یہ اُن کے مسائل نہیں... جہاں انہوں نے جانا ہوتا ہے وہاں کھنچے چلے جاتے ہیں... جانے یا نہ جانے کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ بلانے والا کون ہے؟ اور اس سے تعلق کیا ہے؟ یہاں تو بلاوا منو بھائی کا ہے۔ بلاوا ہو منو بھائی کا تو حسن نثار کیسے رُک سکتے ہیں؟ وہ تو صدرِ محفل ہیں۔ اِن کی صدارت میں تو ہم نے منو بھائی کی یاد کی شمعیں روشن کرنا ہیں۔ آپ فکر نہ کریں وہ بروقت پہنچ جائیں گے۔ یاسین خان سے فون پر بات ختم کرکے دوبارہ اسی کیفیت میں مبتلا ہو گیا تو یکایک خیال آیا کہ حسن نثار تو پچیس برس قبل اچھے بھلے اور اس وقت کے ''پاپولر‘‘ ترین اخبار کو خیرباد کہہ کر محض اس لیے منو بھائی اور شاہ جی کے ''جوائنٹ وینچر‘‘ کا حصہ بن گئے تھے کہ اُن کے ''کریڈٹ‘‘ پر یہ ضرور ہو کہ ان دونوں بڑی شخصیات کے ساتھ کام کیا ہے حالانکہ وہ اس اخباری پروجیکٹ کا انجام ''جوائن‘‘ کرنے سے پہلے ہی بخوبی جانتے تھے۔
ایک سال قبل منو بھائی کے انتقال کی اطلاع میں نے برادرم حسن نثار کو دانستہ چند گھنٹے تاخیر سے دی۔ انہیں نیند سے جگا کر یہ افسوسناک خبر دینا مجھے مناسب نہیں لگا کیونکہ میں دونوں کے درمیان تعلق اور ''رومانس‘‘ کی نوعیت بخوبی جانتا تھا‘ اور ایسے میں اچانک یہ خبر ان کے ذہن و قلب کے لیے کیا اثرات مرتب کر سکتی ہے یہ اَمر بھی میرے لیے فکرمندی کا باعث تھا۔ فون پر اطلاع دینے کے بعد اُن پر جو گزری ہو گی مجھے اس کا پورا احساس اور اندازہ ہے۔ خیر تھوڑی دیر بعد حسن بھائی کا فون آ گیا۔ بولے ''یار! جنازے میں شرکت کے لیے جانا ہے۔ مگر اپنے گھر سے منو بھائی کے گھر تک کا سفر مجھ سے اکیلے طے نہ ہو گا، سہارا درکار ہے، اگر تم آ جاؤ تو ساتھ ہو جائے گا‘‘۔ اور پھر ہم راستہ بھر ملول دل کے ساتھ ان کی باتیں اور یادیں ''شیئر‘‘ کرتے ان کے گھر پہنچ گئے‘ جہاں ان کا سفر آخرت تیار تھا۔
منو بھائی نے بیس سال تھیلیسیما سے متاثرہ بچوں کی صحت اور بحالی کی فکرمندی میں گزار دئیے۔ زندگی کے آخری چند سال تو انہوں نے سندس فاؤنڈیشن کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ بیماری ہو یا کمزوری... سردی ہو یا گرمی... آندھی ہو یا بارش... کوئی رُکاوٹ ان کے حوصلے اور جذبے کے آگے نہ ٹھہر سکی۔ تھیلیسیما سے متاثرہ بچوں کے لیے ''فنڈ ریزنگ‘‘ کے سلسلے میں وہ کئی کئی دِن سفر میں رہتے۔ اُن کی کوشش ہوتی کہ ان بچوں کے لیے بہترین سہولیات اور علاج معالجہ کا بندوبست کیا جا سکے تاکہ ان کی تکالیف میں کمی اور اُن کی زندگی آسان ہو اور وہ معمول کی زندگی گزار سکیں۔ اکثر بین الاضلاعی دوروں میں طبیعت ناساز ہونے پر انہیں چند روز کے لیے ہسپتال بھی زیر علاج رہنا پڑتا۔ حالت ذرا سنبھلتے ہی کار خیر کا یہ سلسلہ دوبارہ وہیں سے جوڑ لیتے جہاں سے خرابیٔ صحت نے توڑا ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ میں ان کے پاس بیٹھا تھا اور گپ شپ چل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بے چین اور دماغی طور پر کہیں کھوئے ہوئے ہیں۔ پوچھا: طبیعت تو ٹھیک ہے۔ بولے ''یار کوئی بچہ رو رہا ہے‘‘ میں نے کان لگائے تو کسی بچے کے رونے آواز نہ سنائی دی‘ لیکن ان کا اصرار تھا کہ کوئی بچہ رو رہا ہے۔ پھر بے اختیار کھڑے ہو گئے اور مجھے کہا: باہر چلو۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے آیا اور وہ اپنی کان سنی آواز کی سمت میں خود ہی چل پڑے اور ٹھیک اُس بیڈ پر جا کر رُکے جہاں ایک پانچ سالہ معصوم بچہ رو رہا تھا۔ پاس بیٹھی اس کی ماں اسے بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ بچے کی ماں سے پوچھا کہ کیوں رو رہا ہے۔ اس نے بتایا: جب بھی اِسے انتقالِ خون کیلئے لاتی ہوں ''انفیوژن سیٹ‘‘ کی سوئی کی تکلیف سے تڑپ اٹھتا ہے۔ منو بھائی بچے کے سرہانے بیٹھ گئے۔ اس کے لیے جوس منگوایا اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک بچہ چپ نہیں ہو گیا۔ جب واپس اپنے کمرے میں لوٹے تو میں نے ان کے چہرے پر جو اطمینان اور سکون دیکھا باوجود کوشش کے احاطۂ تحریر میں لانے سے قاصر ہوں۔
میرے لیے یہ اَمر بھی باعث تفاخر اور باعث اعزاز ہے کہ وہ مجھے اپنا ''یار‘‘ کہتے اور یاری کے تمام تر تقاضوں کے عین مطابق مجھے زبان و بیان کے حوالے سے کھلی آزادی بھی دے رکھی تھی‘ جس کا میں نے ہمیشہ ''ایڈوانٹیج‘‘ لیا۔ یہ ان کی محبت اور شفقت تھی کہ انہوں کبھی عمروں کے فرق اور منصب کو تعلق کے درمیان حائل نہیں ہونے دیا۔ چند دن غیر حاضری کیا ہوتی فون آ جاتا اور اپنے مخصوص انداز میں کہتے ''کتھے رہ گیا ایں یار، آیا نئیں‘‘ جواب میں ہمیشہ یہی کہتا ''بابا جی! کوتاہی ہو گئی، جلد حاضر ہوتا ہوں‘‘ اور پھر وہ دئیے گئے وقت پر میرا انتظار کرتے، تاخیر ہونے پر فون کرکے پوچھتے کہ ابھی تک کیوں نہیں پہنچا۔
مجھ جیسے خاکسار سمیت سہیل وڑائچ، خالد عباس ڈار، سہیل احمد (عزیزی)، عامر مرزا، زاہد چوہدری‘ ہمایوں سلیم اور خواجہ سلمان رفیق جیسے کئی دیگر احباب کو منو بھائی اپنی زندگی میں ہی پابند کر گئے تھے کہ سندس فاؤنڈیشن میں زیر علاج تھیلیسیما کے بچوں کو کبھی مایوس نہ کرنا۔ ان کی صحت یابی کے لیے جب بھی آواز دی جائے تو ''لبیک‘‘ کہنا۔ سندس فاؤنڈیشن جہاں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو تھیلیسیمیا سے آگاہی اور بچاؤ کی تعلیم دیتا ہے‘ وہاں کوالیفائیڈ سٹاف کی نگرانی میں ''تھیلیسیمیا‘‘ سے متاثرہ بچوں کو خون کے سرخ خلیے اور ''ہیموفیلیا‘‘ سے متاثرہ بچوں کو خون کے سفید خلیے خوشگوار اور آرام دہ ماحول میں مفت فراہم کرتا ہے۔ رجسٹرڈ بچوں کو خون کے خلیوں کی فراہمی کے ساتھ ''تھیلیسیمیا‘‘ اور ''ہیموفیلیا‘‘ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور جملہ امراض سے بچاؤ کیلئے بھی تمام بہترین سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
سندس فاؤنڈیشن کی بے مثال خدمات کا منہ بولتا ثبوت یہ بھی ہے کہ بہت جلد ''منو بھائی ہسپتال‘‘ کے منصوبے پر کام شروع ہونے جا رہا ہے‘ جس میں ایک چھت تلے کینسر سمیت، خون سے متعلق تمام موذی اور جان لیوا بیماریوں کا علاج جدید ترین ٹیکنالوجی سے کیا جائے گا اور ''منو بھائی زندہ رہیں گے‘‘۔ آخر میں یاسین خان اور علی رؤف کا ذکر نہ کرنا کم ظرفی ہو گی جنہوں نے منو بھائی کی خاطرداری اور تیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اُن کی اس خدمت گزاری کا قرض ہم پر واجب ہے۔