وزیر ریلوے شیخ رشید کا لب و لہجہ اور بیانیہ بتدریج بدل رہا ہے۔ ان کے تحفظات خدشات میں بدلے اور اب خدشات شکووں سے ہو کر اختلافات کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب تو وہ بے اختیار کہہ اٹھے ہیں کہ شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے والے بھگتیں گے۔ شیخ رشید کافی دنوں سے شہباز شریف کو لے کر واویلا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ قارئین! متعدد حالیہ کالموں میں کئی مرتبہ عرض کر چکا ہوں کہ شیخ رشید صاحب کو عنقریب کو ''اصولی سیاست‘‘ کا بخار چڑھنے کو ہے‘ اور یہ بخار سیاسی منظرنامے پر اپنا ''ٹمپریچر‘‘ ضرور ریکارڈ کروائے گا۔ شیخ رشید کے لیے یہ امر انتہائی ناقابل برداشت ہے کہ جس منسٹر کالونی میں وہ رہتے ہیں‘ اسی میں شہباز شریف بھی قیام پذیر ہوں۔ اس کے علاوہ شہباز شریف کا جھنڈے والی سرکاری گاڑی میں آنا جانا بھی ان کے دل پر مونگ دلتا ہے‘ جبکہ وہ آصف علی زرداری کو شریف برادران سے لاکھ گنا زیادہ خطرناک قرار دے چکے ہیں‘ اور کہتے ہیں کہ اب انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔ شیخ رشید آصف زرداری کو بھی پابند سلاسل دیکھ رہے ہیں اور اس حوالے سے ان کی پیش گوئی کچھ تاخیر کا شکار ہے۔
شیخ رشید انتہائی باخبر اور سیانے آدمی ہیں اور سیاست کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ قبل از وقت ہی ممکنات اور متوقع صورتحال کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں‘ جو بظاہر بے وقت کی راگنی اور اکثر بعید از قیاس بھی محسوس ہوتی ہے‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ حالات بتدریج اس نہج پر جاتے نظر آتے ہیں جس کا اشارہ اور اظہار شیخ رشید پہلے ہی کر چکے ہوتے ہیں۔ جن حکومتی اقدامات اور فیصلوں پر وہ دبے الفاظ میں تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے تھے‘ اب وہ کھل کر ناصرف اختلاف کرتے ہیں بلکہ سخت تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔
شیخ رشید کے بدلتے رجحانات ''سیاسی موسمیات‘‘ پر واضح نظر آرہے ہیں۔ تحفظات سے اختلافات تک۔ یہ سفر انتہائی مختصر اور ''ریکارڈ‘‘ مدت میں پورا ہوا ہے‘ جبکہ اس میں مزید شدت کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔ شیخ رشید کے اس طرز عمل کو ایک اہم غیرمعمولی پیش رفت کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ شیخ رشید بحر سیاسیات میں کشتی کے پہلے ہچکولے پر ہی سامان اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور کشتی کے بھنور میں پہنچنے تک وہ اپنا کافی سامان ہلکا کر چکے ہوتے ہیں۔ ریکارڈ اور ماضی گواہ ہے کہ وہ کشتی کے ڈوبنے سے پہلے ہی اپنی سمت اور منزل تبدیل کرکے دوسری کشتی پر سوار ہو جاتے ہیں‘ جس کی ان کے پاس اپنے تئیں بے شمار توجیہات اور جواز موجود ہوتے ہیں۔
شیخ رشید نے اخلاقی اور سیاسی بوجھ ہلکا کرنا شروع کردیا ہے اور اب وہ حکومتی فیصلوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ تنبیہ بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں‘ جبکہ دوسری طرف اپوزیشن کی جارحانہ پالیسی میں بھی شدت آچکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی قومی اسمبلی میں آمد کے موقع پر پیدا ہونے والی صورتحال پر حکومتی بنچوں نے سر پیٹ لیا کہ پروڈکشن آرڈر سے لے کر چیئرمین پی اسے سی تک‘ مفاہمت اور رواداری کے حکومتی مظاہرے کے عوض اپوزیشن حکومت کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی‘ جس پر وزرا سیخ پا نظر آتے ہیں۔ ان کی شعلہ بیانیوں کے شعلے آسمان کو چھوتے نظر آتے ہیں‘ اور گمان غالب ہے کہ اپوزیشن کو اب مزید رعایت نہیں دی جائے گی۔ یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کو اب مزید مشکل ترین اور سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر پر بھی حکومتی پالیسی میں تبدیلی متوقع ہے۔
جیلوں میں اپوزیشن رہنماؤں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا پلان بھی زیر غور ہے۔ یہ صورتحال بڑے سیاسی تصادم کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ زبان و بیان کیا لب و لہجہ... سبھی میں تبدیلی اور شدت واضح نظر آرہی ہے۔ یہ صورتحال یقینا ڈیڈلاک کا اشارہ ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ میں قانون سازی تو درکنار معمول کی کارروائی بھی چلتی نظر نہیں آرہی ہے۔ وزیر تو وزیر... مشیر وں کے لب و لہجے میں بھی ایک خاص قسم کی بے تابی اور غصے کا عنصر غالب آ چکا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں ممکنہ تصادم اور ڈیڈلاک ایک طرف‘ شیخ رشید کا بیانیہ اور تنقید دوسری طرف... یہ سارے اشارے کس طرف جا رہے ہیں؟
کیا یہ طرز حکومت اور سیاستدان ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں یا انہیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا؟ یہ بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان سوالات کی شدت اور تقویت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ طرز حکومت تبدیل کرنے کی باتیں کیا کسی نئے نظام کی طرف اشارہ ہے؟ پارلیمنٹ اور اس کی کارکردگی پر بھی کئی کڑے سوال کھڑے ہو چکے ہیں۔ سرکاری خرچ پر اسمبلی اجلاس کیلئے گھر سے نکلنے والے رکن اسمبلی کا اپنا میٹر گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ پھر اجلاس میں شرکت سے لے کر کھانے اور نہانے تک جتنے دن بھی وہ قیام کرے سارا بوجھ حکومتی خزانے پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے بدلے آج تک عوام کو کیا دیا گیا؟ اس کا جواب پارلیمنٹ کے کسی بھی اجلاس کا منظرنامہ دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ماسوائے قانون سازی اور مفاد عامہ کے وہ سب کچھ ہوتا ہے‘ جسے دیکھ کر ہر پاکستانی جلتا ہے‘ کڑھتا ہے‘ اور شرمسار بھی ہوتا ہے کہ کیا اسی لیے اس نے ووٹ دیا تھا کہ اس کے نمائندے اپنے ذاتی مفادات، استحقاق کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں اور دست و گریباں ہونے سے بھی گریز نہ کریں۔ مزے کی بات یہ کہ مشترکہ مفادات کو جہاں خطرہ لاحق ہوا‘ وہاں یہ سب آن کی آن میں اکٹھے اور یکجا نظر آتے ہیں۔ کیا حلیف‘ کیا حریف‘ سبھی مفادات کے جھنڈے تلے کھڑے نظر آتے ہیں‘ اور ان حالات میں قوم کا غم ایسے بھسم ہوتا ہے جیسے سوکھی لکڑی بھڑکتی ہوئی آگ میں۔
کہیں صدارتی نظام کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں آئین کو ''ریسٹ‘‘ دینے کی باتیں۔ یہ ساری باتیں سیاستدانوں کی ناکامی کے اشارے ہیں۔ سیاستدانوں کو ناکام اور نا اہل قرار دے کر کہیں کوئی چارج شیٹ تو نہیں آرہی؟ ماضی میں سیاستدانوں کو شکایت رہی ہے کہ ان کا عرصۂ اقتدار پورا کرنے نہیں ہونے دیا گیا اور انہیں گھر بھجوا دیا گیا۔ اس لیے وہ اپنے ایجنڈے اور وعدوں نے مطابق گورننس اور پالیسیاں وضع نہیں کر سکے۔ تین دہائیوں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن یکے بعد دیگرے اقتدار کی کئی باریاں لے چکی ہیں لیکن 2002 سے 2018 تک سیاستدانوں نے نہ صرف تین مرتبہ اپنے اقتدار کی مدت پوری کی بلکہ انہیں کام کرنے کا بھی بھرپور موقع دیا گیا۔ عوامی مینڈیٹ کا جو حشرنشر ان سیاستدانوں نے ہمیشہ کیا‘ وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کوئی احتساب کی پکڑ میں ہے تو کوئی پکڑا جانے والا ہے۔
آئین اور ضابطے عوام اور مملکت کی سہولت اور آسانیوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اور جب آئین کی کتاب کو حکمران الٹی تسبیح کی طرح پڑھنا شروع کرتے ہیں تو یہی آئین اور ضابطے ثواب کے بجائے عذاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک و ملت کی پاسداری و خدمت کا حلف اٹھانے والے ہی اس کی بربادی اور بدحالی کے ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں۔ احتساب سے لے کر تجاوزات تک ہر جگہ تجاوز ہی تجاوز نمایاں ہے۔ 2018 کو ملکی تاریخ کا اہم ترین سال قرار دیا جا رہا ہے اسے اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ ن کے لیے پسپائی اور زوال کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی اپنی جگہ وکٹ بچاتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ علاوہ ازیں انتظامی اور سیاسی حوالوں سے عدلیہ کے فیصلوں کے حوالے سے بھی یہ سال یادگار ہے۔ جبکہ 2019 بھی کسی طور کم اہمیت کا حامل نہ ہو گا‘ یہ سال کسی ایک پارٹی کے حوالے سے نہیں بلکہ یا وطن عزیز کے سارے سیاستدانوں کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے مستقبل کا اہم ترین فیصلہ اسی سال آنے کو ہے۔ عوام سے طرز تغافل برتنے والے سیاستدانوں سے چھٹکارا طرز حکومت کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ چارج شیٹ آنے کو ہے۔ بد عہدی کا طویل عہد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔