عثمان بزدار بہترین وزیر اعلیٰ بنیں گے... بزدار شوگر ملز نہیں لگائیں گے... بزدار بینکوں سے قرضے نہیں لیں گے... پنجاب میں بہترین ہسپتال بنائیں گے... اپنے کسی رشتہ دار کو نہیں نوازیں گے... اپنے بچوں کو ارب پتی نہیں بنائیں گے... پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ غریبوں کے مسائل سے آگاہ ہیں... ان کا جینا مرنا پاکستان کے لیے ہے... وغیرہ وغیرہ۔
یہ وہ تمنائیں ہیں جو وزیراعظم اپنے وسیم اکرم سے وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ خدا کرے کہ وزیراعظم کی خوش گمانی پر مبنی تمام تر تمنائیں اور اُمیدیں بر آئیں... اور ان کا وسیم اکرم... ان کی امیدوں کا مرکز... ان کی آنکھ کا تارا... اور ان کا راج دُلارا وزیراعلیٰ عثمان بزدار تحریک انصاف کے ویژن، دعوئوں اور تواتر سے عوام کو دکھائے جانے والے خوابوں کی تعبیر بن جائے... لیکن خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں... وہ بھلے نیند میں دیکھے جائیں... یا چلتے پھرتے... ان خوابوں کو حقیقت سے جوڑنا یقینا حقیقت پسندی کی نفی ہے۔
وزیراعظم صاحب نے حالیہ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پنجاب میں حکومت سازی کے حوالے سے صوبے بھر کے عوام کو ایک جان لیوا انتظار اور تجسس میں مبتلا کیے رکھا... ان کے قریبی ترین‘ معتمد ساتھی بھی آخری وقت تک وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے سے ان کے فیصلے سے لاعلم رہے تھے۔ بالآخر طویل انتظار اور تجسس کا خاتمہ ہوا اور قرعہ عثمان بزدار کے نام نکال ڈالا۔ اس فیصلے نے کتنوں کے ارمانوں کا گلا گھونٹا‘ اور کتنوں کی طویل ریاضتوں اور قربانیوں کو خاک میں ملا ڈالا‘ یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ وزیر اعظم نے عثمان بزدار کو ایسا ماڈل بنا کر پیش کیا کہ عثمان بزدار کے بجائے کسی اور کو وزیراعلیٰ نامزد کیا جاتا تو شاید وہ ان کے معیار اور ویژن پر پورا نہ اُترتا اور صوبے بھر میں قبضہ مافیا کا راج ہوتا‘ قرضے لے لے کر بینکوں کو خالی کر دیا جاتا‘ اس کے رشتہ دار موجیں اُڑا رہے ہوتے‘ اس کی اولادیں ارب پتی بن جاتیں‘ اور وہ خود ناجانے کتنی شوگر ملوں کا مالک بن جاتا... وغیرہ وغیرہ۔
وزیر اعظم اپنے ان تحفظات اور خدشات کا بالواسطہ اظہار مسلسل کر رہے ہیں۔ چند روز قبل بھی انہوں نے میانوالی میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عثمان بزدار ایسا کچھ نہیں کرے گا‘ آپ انہیں بہترین اور مثالی وزیر اعلیٰ پائیں گے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ ''حساب کتاب‘‘ کی ''گوٹی‘‘ عثمان بزدار پر ''فٹ‘‘ آ گئی اور پنجاب کے عوام کے ''بھاگ جاگ گئے‘‘ انہیں ایک ایسا وزیراعلیٰ مل گیا جو روزِ اوّل سے ہی وزیراعظم کا مرہونِ منت ہے... اور اس کی کارکردگی اور گورننس تاحال سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ جبکہ وزیراعظم ان سوالات کا جواب دینے کے بجائے ان سے وابستہ اپنی توقعات اور ''پوشیدہ فضائل‘‘ بیان کرتے نہیں تھکتے۔
وزیراعظم کا وسیم اکرم روزِ اوّل سے منصور اختر اور ندیم غوری ہی ثابت ہوا... لیکن وہ اسے وسیم اکرم اور انضمام الحق ثابت کرنے کیلئے نہ صرف کوشاں بلکہ بضد بھی ہیں کہ پنجاب کے عوام کی تقدیر صرف عثمان بزدار ہی بدل سکتا ہے۔ گویا عثمان بزدار کے سوا تحریک انصاف کے پاس نہ تو کوئی چوائس ہے اور نہ ہی کوئی اس منصب کا اہل۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان نے بطور کپتان منصور اختر کو اکتالیس وَن ڈے میچ اور پینتیس اننگز مخالفت کے باوجود ضد کرکے کھلوائیں۔ ان کا زیادہ سے زیادہ سکور اکتالیس اور اوسط رنز 17.4 بھی ریکارڈ کا حصہ ہے‘ جبکہ ندیم غوری کو بھی سات میچ کھلوائے لیکن وہ بھی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ دونوں کو عمران خان صاحب نے ضد کرکے قومی ٹیم میں کھیلنے کا موقع دیا‘ لیکن نتیجہ ان کی توقعات اور خواہش کے برعکس نکلا۔ اُن کے ان فیصلوں کو ناپسندیدگی اور کافی تنقید کا سامنا رہا۔
اسی طرح عثمان بزدار کے حوالے سے بھی وہ نہ صرف بضد ہیں بلکہ انہیں اپنی واحد ''چوائس‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ گویا وزارت اعلیٰ کے لیے کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے‘ حالانکہ عثمان بزدار کی ششماہی کارکردگی نہ صرف تحریک انصاف پر سوالیہ نشان ہے بلکہ پارٹی کی سرکردہ شخصیات بھی غیر مطمئن اور نجی محفلوں میں کھلی تنقید کرتی نظر آتی ہیں جبکہ سرکاری طور پر ان کا دفاع اپنی مجبوری سمجھتی ہیں۔ عمران خان عثمان بزدار کو اپنے لیے موافق اور موزوں ترین تصور کر بیٹھے ہیں۔ اس تناظر میں پنجاب بھر میں مشکل ترین اہداف اور گورننس کو عمران خان صاحب کے اصرار کا سامنے ہے اور وہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتے نظر نہیں آرہے۔
پنجاب کی ناقص کارکردگی اور بدانتظامی کے پیش نظر وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی بات زور پکڑ چکی ہے۔ وزیر اعظم پر اندرونی اور بیرونی دباؤ بتدریج بڑھ رہا ہے۔ اندرونی دباؤ تو خیر وہ خود ہی دبا لیتے ہیں لیکن بیرونی دباؤ ان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں عثمان بزدار کی تبدیلی کا دباؤ باقاعدہ مطالبے کی صورت اختیار کرتا نظر آرہا ہے‘ اور یہ مطالبہ ان کی تبدیلی تک جاری رہ سکتا ہے۔ اگر عمران خان اس مطالبے کو رَدّ کریں گے تو محاذ آرائی اور بحران کی کیفیت متوقع ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ طویل جدوجہد‘ کامیاب انتخابی حکمت عملی اور ''کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘‘ جوڑ کر تحریک انصاف کو کیا اسی لیے اقتدار ملا تھا کہ قوت فیصلہ سے عاری شخص کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا اصل چارج وزیر اعظم صاحب کے پاس ہے اور وہ خود بھی اپنے اس اضافی چارج کا کوئی قابلِ ذکر استعمال نہیں کر پا رہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ پنجاب میں ایسا شخص وزیراعلیٰ ہونا چاہیے جو خودمختارانہ فیصلے اور گورننس کے حوالے سے کام کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ یعنی:؎
تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا
عمران خان صاحب اس دباؤ کے آگے مزاحمت پیش کرنے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں۔ یہ ممکنہ اور متوقع صورتحال کسی بحران اور ڈیڈ لاک کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ قارئیں! آئیے ماضی میں عمران خان کی مردم شناسی کے حوالے سے چند فیصلوں پر نظر ڈالیں۔ ماسوائے شوکت خانم پروجیکٹ کے تمام فیصلوں کے نتائج ان کی توقعات اور حکمتِ عملی کے برعکس نکلے۔ منصور اختر اور ندیم غوری کی مثال میں نے پیش کی‘ برسر اقتدار آنے کے بعد بھی مردم شناسی ان کیلئے ایک کٹھن مرحلہ اور مشکل امتحان ثابت ہوا۔ یہاں بھی ان کا نشانہ چوک گیا ہے اور تحریک انصاف کی فرنٹ لائن ٹیم مطلوبہ نتائج فراہم کرنے سے تاحال قاصر دکھائی دے رہی ہے۔؎
زمیں ناراض ہے کچھ ہم سے شاید
پڑا ہے پاؤں جب اُلٹا پڑا ہے
تحریک انصاف کی اب تک کی کارکردگی اور عوامی توقعات دونوں ہی ناقابلِ بیان ہیں ؎
جو بے پناہ چاہتے تھے
اب پناہ چاہتے ہیں
برسراقتدار آنے کے بعد کیے گئے غیر مقبول اقدامات کی قیمت اب کڑے فیصلوں کی صورت میں ادا کرنا پڑ سکتی ہے اور کڑے فیصلے کرکے ہی اس کشمکش سے نکلا جا سکتا ہے:؎
تمام عمر یہی گلہ رہا خود سے
تمام فیصلے عجلت میں کر گیا ہوں میں
عوام نے حالیہ انتخابات میں جو ''مینڈیٹ‘‘ تحریک انصاف کو دیا تھا اس کا حشر نشر سب کے سامنے ہے۔ احتساب سے لے کر تجاوزات تک... تماشا بنا ہوا ہے... ''منٹ دی ویل نئیں... ٹکے دی سیل نئیں‘‘ کے مصداق زبانی جمع خرچ اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندا جاری ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طویل اجارہ داری کو مسترد کرکے عوام نے کیا اسی لیے تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیا تھا کہ حالات پہلے سے بھی بدتر ہو جائیں...؟ عوام کی حالتِ زار کچھ اس طرح ہے کہ: ؎
سنبھلنے کے لیے گرنا پڑا ہے
ہمیں جینا بہت مہنگا پڑا ہے
پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کے لیے تین شخصیات کا نام زوروں پر ہے۔ ان میں دو شخصیات عمران خان کے انتہائی قریبی اور پہلے ہی اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں جبکہ تیسری شخصیت ایک صوبائی وزیر ہیں جن کا نام پہلے بھی وزیراعلیٰ کے طور پر گردش کرتا رہا ہے۔