"AAC" (space) message & send to 7575

زندگی …بعد از مرگ

حزب اﷲ تحریک کے اَمیر اور وزیراعظم معائنہ کمیشن کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر (ر)رشید وڑائچ کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ کل (بروز جمعرات) ان کی دسویں برسی ہے... لیکن اس رشید وڑائچ کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے... اور کیسے کہہ سکتا ہے؟ کہ ان کی برسی ہے... برسی تو مرنے والوں کی ہوتی ہے... اور موت صرف جسم کی ہوتی ہے... کارِ خیر کی موت کیسے ہوسکتی ہے؟ اور میجر(ر) رشید وڑائچ بھی تو چلتے پھرتے مجسم کارِ خیر ہی تو تھے... اُن کی برسی کیسے ہو سکتی ہے... جو شدید سردی کی راتوں میں تھڑوں‘ فٹ پاتھوں‘ پارکوں‘ گرین بیلٹوں پر سونے پر مجبور بے کسوں پر کمبل اور چادریں اوڑھاتا رہا ہو... اور رات کے اندھیرے میں وہ یہ کام اس قدر خاموشی اور احتیاط سے کرتے کہ سونے والے کی نیند تک خراب نہ ہو۔ 
اس کے بعد گھر جاکر اپنی نگرانی میں ناشتہ تیار کروانا اور صبح سویرے کھلے آسمان تلے سو کر اُٹھنے والی بے یارو مددگار خلقِ خدا میں ناشتہ بھی اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرتے۔ اور بس یہی نہیں اُن کا باقی کا سارا دن بھی اسی کھوج اور تلاش ہی میں گزرتا کہ کہاں موقع ملے اور وہ کسی کی حاجت روائی اور مصیبت ٹالنے کا سبب بن سکیں۔ ''شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے‘‘۔ جب نیت اور ارادہ ہی خدمتِ خلق ہو... تو پھر اﷲ موقع بھی انہیں خوب ہی دیتا تھا اور وہ اس حوالے سے انتہائی خوش قسمت اور بانصیب تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی مخلوق کی خدمت اور مشکل کشائی کے لیے منتخب کر رکھا تھا۔ 
چوبرجی چوک سے کبھی گزرنے کا اتفاق ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میجر (ر) رشید وڑائچ ابھی یہیں کہیں سے نکل آئیں گے۔ خصوصاً رات کو کبھی وہاں سے گزر ہو تو گمان ہوتا ہے کہ کھلے آسمان تلے سوئے ہوئے کسی تھکے ماندھے کو کمبل اوڑھا رہے ہیں... اسی طرح شہر میں جہاں جہاں بھی میجر صاحب خلقِ خدا کی خدمت کرتے رہے ہیںوہاں وہاں آج بھی اُن کی موجودگی کا گمان رہتا ہے... صرف محسوس کرنے کی بات ہے... اور اس احساس کا مزہ صرف واقفانِ حال ہی لے سکتے ہیں... اور ان واقفان کا شمار کوئی آسان کام نہیں... وہ ہر خاص و عام میں یکساں مقبول اور معتبر تھے... 
میری میجر (ر) رشید وڑائچ سے پہلی ملاقات 1989ء میں برادرِ محترم شعیب بن عزیز کے دفتر میں ہوئی تھی اور پھر ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ اُن سے بچھڑنے تک جاری رہا... اور خوب جاری رہا... کبھی آواری ہوٹل کی لابی... تو کبھی برادرم اسد اﷲ غالب کی سجائی ہوئی ہفتہ وار محفل میں... ان کا مخصوص اندازِ گفتگو اور لب و لہجہ آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی جگہ چلے جاؤ... کسی بھی دفتر میں چلے جاؤ... میجر صاحب پہلے سے براجمان ہوتے یا اوپر سے آن پہنچتے... اور شعیب بن عزیز کا دفتر تو اُن کا کیمپ آفس ہی ہوا کرتا تھا۔ میجر سے گپ شپ اور بحث و مباحثے کا لطف ناقابلِ بیان ہے۔ 
یہ کیسے ممکن ہے کہ آج بھی آواری ہوٹل جائیں اور اس کی لابی میں میجر (ر) رشید وڑائچ کی شعلہ بیانی کی بازگشت سنائی نہ دے۔ ابھی چند روز قبل ہی شعیب بن عزیز اُن کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ میں نے آج تک کسی شخص کو ''وقت رُخصت‘‘ اتنا مطمئن اور پُرسکون نہیں دیکھا۔ ہسپتال میں وہ ایسے گفتگو کر رہے تھے جیسے انہیں الہام ہو گیا ہو کہ اُن کا وقت آن پہنچا ہے۔ اُن کے چہرے پر اگر فکرمندی تھی تو صرف اُن لوگوں کے لیے جن کی رات کے اندھیرے میں خبر گیری کیا کرتے اور جنہیں وہ صبح ناشتہ پہنچایا کرتے تھے۔ وہ ساری عمر بعد از مرگ زندگی کے لیے بھاگتے رہے اور آج بھی وہ کئی حوالوں سے زندہ ہیں۔ 
اُن کی اہلیہ عزیز بیگم اور صاحبزادی صوفیہ رشید وڑائچ اُن کے اس کارِ خیر کو انتہائی خوش اسلوبی اور خلوص کے ساتھ رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ دسترخوان کا سلسلہ چوبرجی سے بڑھا کر شہر کے کئی مقامات تک وسیع کر دیا گیا ہے‘ جبکہ رہائش گاہ کا دسترخوان صبح و شام خلقِ خدا کا منتظر رہتا ہے‘ جبکہ اُن کے بھائی بریگیڈیئر(ر) نصراﷲ وڑائچ بھی اس کارِ خیر کے تسلسل کے لیے کوشاں اور بے چین رہتے ہیں۔ 
برادرِ محترم حسن نثار کے گھر میرا آنا جانا ایسے ہی ہے‘ جیسے اپنے بڑوں کے ہاں جایا جاتا ہے اور ہفتے میں دو‘تین حاضریاں تو معمول کی بات ہے۔ چند روز قبل میں پہنچا تو وہ اپنے معاون ارسلان پر انتہائی برہم تھے اور ارسلان کی اچھی خاصی شامت آئی ہوئی تھی۔ میں نے دریافت کیا تو بولے ''یار اس نے میجر (ر)رشیدوڑائچ کی ''یادگار عینک‘‘ کہیں اِدھر اُدھر کر دی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جن دنوں میجر صاحب مسجد مرکز کے لیے انتہائی سرگرم تھے تو مشاورت کے لیے اکثر میرے پاس بیلی پور تشریف لاتے تھے اور گھنٹوں مجھ سے اپنے ویژن اور پروگرام پر بات چیت کرتے... انہی دنوں یہ عینک میرے پاس بھول گئے تھے۔ میں نے انہیں فون کر کے بتایاکہ آپ اپنی عینک میرے پاس بھول گئے ہیں تو بولے دوبارہ آؤں گا تو لے لوں گا۔ اس کے بعد کئی مرتبہ آئے لیکن ہر مرتبہ وہ عینک لے جانا بھول جاتے۔ اس طرح یہ عینک اُن کی یادگار کے طور پر آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ 
سید عباس اطہر (شاہ جی) میجر (ر)رشیدوڑائچ کو انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کا کاموں میں مگن دیکھتے تو اکثر انہیں جنرل صاحب کہا کرتے تھے۔ نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں میجر صاحب ان کے خلاف ہوگئے اور اپنے گھر کی چھت پر آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی قدآور تصویر آویزاں کر دی۔ جس پر ایک مصرعہ نمایاں تھا ''مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘۔ ایک روز شاہ جی ان کے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے کہ وہ تصویر دیکھ کر رُک گئے اور میجر صاحب کو باہر بلا کر مشورہ دیا کہ اب جب بھی فوج اقتدار سنبھالے تو گورنر ہاؤس کی دیوار پھلانگ کر خود کو گورنر ''ڈکلیئر‘‘ کر دیجئے گا۔ جنرل آصف نواز آپ کو ضرور قبول کر لیں گے۔ 
شاہ جی میجر صاحب کی فلاحی سرگرمیوں سے کافی متاثر تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے ٹی وی پروگرام ''کالم کار‘‘ میں لوگوں میں ترغیب اور شعور اُجاگر کرنے لیے میجر صاحب کے چوبرجی دسترخوان اور رات کو کھلے آسمان تلے سوئے ہوئے لوگوں کی خاطر سیوہ دِکھانے کے لیے ریکارڈنگ کروائی اور طے یہ پایا کہ میجر صاحب کو اس پروگرام میں مدعو کیا جائے گا... رپورٹ تو بن گئی لیکن اگلے ہی روز میجر صاحب علیل ہوگئے اور قسمت نے انہیں کالم کار پروگرام میں شرکت کا موقع نہ دیا۔ 
ایک مرتبہ وزیر اعلیٰ کی آمد میں تاخیر کے سبب جہاز لیٹ کر دیا گیا اور میجر صاحب نے جہاز کے اندر ہی ''نعرہ حق‘‘ بلند کر دیا اور وزیراعلیٰ سے بولے ''کیا تم ہمیں مصلّی سمجھتے ہو؟‘‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیر اعلیٰ مائنڈ کر گئے اور لاہور ایئرپورٹ پر اُترتے ہی میجر صاحب کو ریاستی جبر کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ میجر صاحب درد مند دل رکھنے والے انسان تھے۔ غریبوں‘ مسکینوں اور بے وسیلہ افراد کے حقوق کے لیے کسی سے بھی لڑنے...مرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ وہ جب بھی اپنے گھر آتے تو گھر کے باہر ضرورت مندوں کو اپنا منتظر پاتے۔ کسی کا راشن... کسی کی فیس... تو کسی کا علاج... میجر صاحب یہ تمام کام بخوشی کرتے۔ 
میجر صاحب کے والدِ گرامی چوہدری کرم رسول وڑائچ سرائیکی وسیب میں تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن کے طو رپر متحرک رہے۔ والد نے تحریک پاکستان میں اپنا حصہ ڈالا تو بیٹے نے تعمیر پاکستان میں... کون کہتا ہے کہ کل میجر صاحب کی برسی ہے؟ کل کا دن تو تجدید اور ترغیب کا دن ہے... بعد از مرگ...زندگی کا دن ہے ؎
ایسے رہا کرو کریں لوگ آرزو 
ایسے چلن چلو زمانہ مثال دے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں