نیب نے عدالت میں نواز شریف کی درخواست ضمانت کے خلاف اپنا مؤقف جمع کروا دیا ہے۔ نیب کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو دورانِ اسیری علاج معالجہ کی بہترین دستیاب سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں‘ اس لیے انہیں علاج کیلئے ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔ دیکھتے ہیں عدالت نیب کے مؤقف کو تسلیم کرتی ہے یا مسترد۔ قارئین! نواز شریف کی بیماری کا حکومتی سطح پر تمسخر اُڑا کر اسے شعبدہ بازی اور ''ڈھونگ‘‘ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی جاری ہے۔ میں اپنے حالیہ کالموں میں ذکر کرتا رہا ہوں پتا نہیں وہ کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں کی ''مت‘‘ مار دیتا ہے؟ سیدھا سادہ آسان ترین معاملہ بھی اس طرح اُلجھا دیا جاتا ہے کہ بعد ازاں حکومت ناصرف خود اُلجھ جاتی ہے بلکہ اکثر اسے دفاعی پوزیشن بھی اختیار کرنا پڑ جاتی ہے۔
ماضی میں بیشتر معاملات میں حکومتی وزرا بیان بازی میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے‘ بھلے اس کے نتیجے میں کسی بھی سطح پر سُبکی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ کئی بار تو پسپائی بھی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ زمینی حقائق اور ناقابل تردید دستاویزات پر ذرا سی توجہ دے لی جائے‘ تو حکومت ناصرف سُبکی اور شرمندگی سے بچ سکتی ہے بلکہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے ساتھ اپنی ساکھ اور نیک نامی کا سامان بھی کر سکتی ہے۔
کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ قابلیت کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہوتی ہے‘ لیکن نالائقی، نااہلی اور کم ظرفی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس حد کا تعین نالائقی اور کم ظرفی پر اُترے ہوئے شخص نے خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ انتہا ہے غیر ذمہ داری کی‘ میڈیا ہو یا حکومت‘ سروسز ہسپتال میں نواز شریف کو سموسے اور کباب کھلا کر ان کی بیماری کا تمسخر اُڑانے والے وزرا کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ سموسے اور کباب میڈیکل بورڈ کے لیے بھجوائے گئے تھے‘ اور بھجوانے والا ایک سینئر ڈاکٹر ہے‘ جو ہسپتال کی رہائشی کالونی میں رہائش پذیر ہے۔ اس نے محض مہمان نوازی کی غرض سے اپنے سینئرز کی ہائی ٹی کا اہتمام کیا تھا‘ اور بھجوائے گئے سموسے اور کباب نواز شریف نے نہیں بلکہ انہیں ڈاکٹرز نے کھائے جو میڈیکل بورڈ میں شامل تھے۔
حکومتی وزرا بیان بازی کے لیے کسی تحقیق اور تصدیق کے پابند نہیں۔ یہ رعایت ان کی قیادت نے انہیں ''کھلی چھٹی‘‘ کی صورت میں دے رکھی ہے۔ قارئین! ان چشم کشا حقائق کی طرف چلتے ہیں جو حکومتی مشینری اور منظم پروپیگنڈا کے نتیجے میں منظر عام پر نہ آ سکے۔ 17 جنوری کو جیل میں نواز شریف نے سینے میں تکلیف کی شکایت کی۔ ''کارڈیک بیک گراؤنڈ‘‘ کی وجہ سے اسے دل کی تکلیف تصور کیا گیا‘ اور جناح ہسپتال کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عارف تجمل کی سربراہی میں چار رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اس میڈیکل بورڈ کی تشکیل ہی حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ انتہائی دلچسپ اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس میڈیکل بورڈ کا سربراہ گائناکالوجسٹ تھا‘ جبکہ جناح ہسپتال میں بہترین ماہرینِ امراضِ قلب کی موجودگی کے باوجود ان میں سے کسی کو بورڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
یعنی تکلیف دل کی... اور میڈیکل بورڈ کا سربراہ گائناکالوجسٹ... آفرین ہے... بورڈ تشکیل دینے والوں کی عقل اور ذہانت پر... خیر بورڈ نے ان کا معائنہ کیا اور ایک تشخیصی ٹیسٹ رپورٹ میں واضح ہو گیا کہ فوری طور پر ان کی اینجیوگرافی ہونی چاہیے۔ جناح ہسپتال میں امراض قلب سے متعلق تمام سہولیات کی موجودگی کے باوجود اینجیوگرافی کرنے کے بجائے دوسرا میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا۔ نیا میڈیکل بورڈ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے پروفیسر شاہد حمید کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا‘ جس نے نواز شریف کا ''تھیلیم سکین‘‘ کروایا تو دل کی تکلیف کی تصدیق ہو گئی۔ اس کے بعد فوری طور پر اینجیوگرافی کرنے کے بجائے اس بورڈ نے بھی لارجر میڈیکل بورڈ بنانے کی سفارش کرکے نواز شریف کو واپس جیل بھجوا دیا۔ اس تناظر میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا انہیں واپس بھجوانا سیدھا سیدھا علاج سے انکار کا اشارہ تھا‘ جو مس کنڈکٹ ہی نہیں بلکہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی طرز عمل کا بدترین نمونہ ہے۔
بعد ازاں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ماہرین پر مشتمل چھ رکنی لارجر میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ آرمڈ فورسز میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے ارکان نے عملاً اس بورڈ میں شمولیت اختیار نہیں کی جبکہ دیگر چار ارکان نے جیل کا دورہ کیا اور نواز شریف کو ملٹی ڈسپلن ٹیچنگ ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی۔ اس طرح 2 فروری کو انہیں سروسز ہسپتال داخل کروا دیا گیا‘ اور پرنسپل پروفیسر محمود ایاز کی سربراہی میں چوتھا میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا گیا۔ وہاں ان کے مختلف تشخیصی ٹیسٹ کروائے گئے‘ جن میں گردے میں پتھری اور خون کی رگیں تنگ ہونے کی تشخیص ہوئی اور میڈیکل بورڈ نے متفقہ رپورٹ میں لکھا کہ نواز شریف کو دل کی تکلیف ہے‘ اس لیے انہیں اِمراض قلب کے ہسپتال میں داخل کروایا جائے‘ اور بوقت ضرورت ان کے اپنے ذاتی معالج سے بھی رائے طلب کی جا سکتی ہے۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں منتقل کرنے کا جب مرحلہ آیا تو نواز شریف نے احتجاجاً وہاں جانے سے انکار کر دیا‘ اور جیل حکام سے کہا کہ انہوں نے پہلے بھی مجھے علاج کے بغیر واپس بھیج دیا تھا‘ آپ مجھے وہاں زبردستی نہیں لے جا سکتے‘ میں احتجاجاً واپس جیل ہی جاؤں گا۔ نواز شریف اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے اور اس طرح چار میڈیکل بورڈز اور تین ٹیچنگ ہسپتالوں کا مریض 21 دن بعد بغیر علاج کے 7 فروری کو واپس جیل پہنچا دیا گیا۔ انہیں جیل واپس آئے تادمِ تحریر 5 دن گزر چکے ہیں اور مزید 5 دن بعد انہیں دِل کی تکلیف میں مبتلا ہوئے ایک مہینہ ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اینجیوگرافی کا ٹیسٹ کون سی ''راکٹ سائنس‘‘ تھی جو نہیں کروایا گیا؟ اس میں کیا اَمر مانع تھا؟ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس میں واضح اشارے کے باوجود جناح ہسپتال میں اینجیوگرافی کیوں نہیں کرائی گئی؟ اور بورڈ کا سربراہ ایک گائناکالوجسٹ کو کیوں بنایا گیا؟ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے پرنسپل پروفیسر ندیم حیات کو کوئی خاص ہدایت تھی یا بورڈ کے سربراہ کو کوئی مجبوری لاحق ہو گئی تھی؟ جس کی وجہ سے ان مسیحاؤں نے اپنے حلف اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے انحراف کیا۔ اگر پہلے دن ہی نواز شریف کی ''اینجیوگرافی‘‘ کرکے اُن کا علاج شروع کر دیا جاتا تو شاید ''سرکاری خرچ‘‘ پر 21 دن کا تماشا اور جگ ہنسائی نہ ہوتی۔ اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو نواز شریف کی بیماری حکومت کے گلے پڑ سکتی ہے۔
سرکاری خرچ پر سُبکی اور بدنامی کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ مشرف دور میں بیگم کلثوم نواز کی گاڑی روکنے اور انہیں گاڑی سے نکالنے کیلئے 8 گھنٹے کا تماشا بھی ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہ چکا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ''شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں‘‘ نے اپوزیشن لیڈر قاسم ضیا کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے سرکاری خرچ پر جو ڈرامہ مال روڈ پر رچایا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب‘ دونوں پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ماضی میں (ن) لیگ سے وابستہ رہے‘ اور چوہدری سرور تو (ن) لیگ کے گورنر پنجاب بھی رہے۔ ایسے موقع پر انہیں اپنی ریاستی اور اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے تھا۔ نواز شریف سے کتنا ہی بغض و عناد کیوں نہ ہو‘ قطع نظر سیاست اور اختلافات کے ‘ علاج سے انکار صریحاً جرم ہے۔ یہ انکار مسیحا خود کرے یا کسی کی ہدایت ہو‘ جرم تو ہوا ہے۔ اس کی انکوائری اور ذمہ داران کا تعین ہونا چاہیے۔
سیانے کہتے ہیں کہ کسی کے گھر آگ لگ جائے تو چند ''بوکے‘‘ یہ سوچ کر ڈال دینے چاہئیں کہ یہ آگ اُن کے گھر تک نہ آن پہنچے۔ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو جو لوگ سیاسی ڈرامہ قرار دیتے تھے آج وہی لوگ نواز شریف کی بیماری کا تمسخر اُڑا رہے ہیں۔ یہ کلچر کوئی اچھا ''شگون‘‘ نہیں ہے؎
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا