نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد ہوچکی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختصر فیصلے کے مطابق''نواز شریف کو علاج کی ہر ممکن سہولت فراہم کی جارہی ہے اور مجرم کو ایسی کوئی بیماری نہیں جس کا علاج یہاں ممکن نہ ہو‘ایسے شخص کو ضمانت نہیں دی جاسکتیـ‘‘۔
وطنِ عزیز کے حکمرانوں‘ اعلیٰ حکام اور اشرافیہ کی بداعمالیوں ‘ لوٹ مار اور اقربا پروری کی چونکا دینے والی اَن گنت داستانیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ کسی منصب دار نے کوئی شرم کی... ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب صاف صاف نظر آرہا ہے۔ سربراہِ حکومت سے لے کر پٹواری تک کسی پر کوئی بھی الزام لگا دیجئے‘ کلک کر کے فٹ بیٹھ جائے گا۔جب معاشرے میں احترام سے دیکھے جانے والوں کی قیادت اور دیانت سوالیہ نشان بن جائے تو پھر کیسی حکومتیں... اور کیسی قیادتیں؟
تحریک انصاف نے حکومت سازی کے فوری بعد کرپشن پر سخت سزا کا قانون بنانے کی بات چلائی۔ اس حوالے سے اسمبلی میں ہونے والی پیش رفت اس شور شرابے کی نذر ہوگئی جو اجلاس کے نام پر ایوان میں گزشتہ چھ ماہ سے کیا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کو چور کہنے والوںنے اس دوران ایوان میں بہت کچھ کیا لیکن افسوس! کوئی ایک بھی ایسا کام نہیں کیاجس کے لیے انھیںعوام نے منتخب کرکے اس ایوان میں بھیجا ہے۔ پورے ایوان میںاب تک اراکین اسمبلی میں صرف ایک ہی قدر مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مراعات اور الاؤنسز کا بروقت اور باقاعدگی سے حصول۔صرف یہی ایک ایسا کام ہے جس میں اپوزیشن اور حکومتی بینچوں میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ۔اس پرسارے ''بخوشی راضی‘‘ اور متفق ہیں۔
چین اور کوریا جیسے ممالک اپنے ابتدائی حالات میں ہم سے کب بہتر اور مستحکم تھے‘ انہوں نے بھی کرپشن کو ''موت‘‘ دے کر ہی اپنے ملک اور قوم کو باوقار اور خوشحال زندگی دی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں کرپشن کے دفاع کی خاطر مصلحت اور مفاہمت کی اس انتہا پر چلے جاتے ہیں کہ ان کی بلا سے ملک کے پلے کچھ رہے نہ رہے‘ ان کی گردن اور کھال محفوظ رہنی چا ہیے۔سیاست میں مفاہمت کے بادشاہ کسی صورت ''ڈیڈ لاک‘‘ کے قائل نہیں۔ بس سسٹم اور کام چلنا چاہیے۔لیکن''جس معاشرے میں سب چلتاہے وہاں کچھ بھی نہیں چل سکتا‘‘۔ اور اب یہ عالم ہے کہ ہماری معاشی بدحالی''اشتہار ‘‘بن چکی ہے۔ ''چوروں کا چوروںکو تحفظ دینا‘‘اس پالیسی کی وجہ سے ملک و قوم پہلے ہی پستی‘ گراوٹ اور بدحالی سے دوچار ہے۔
وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی بار چشمِ فلک نے دیکھا کہ حکمرانوں کا احتساب شروع کیا گیا ہے‘کئی دہائیوں پر محیط انتظامی سسٹم پر مضبوط گرفت رکھنے والے حکمران احتساب کی پکڑ سے نہ بچ سکے۔تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے نوازشریف کواپنے ہی دورِ اقتدار میں کرپشن ‘ بدعنوانی اور ندامت کا داغ لے کراقتدار سے علیحدہ ہوکرنہ صرف احتسابی عمل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سزاوار قرار دیے جانے کے بعد آج وہ پابند سلاسل ہیں۔اس احتسابی عمل کا شکار وہ اکیلے ہی نہیں بلکہ بیٹی‘داماد‘ بھائی سمیت دیگر قریبی رفقا بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر اسیری کے بعد ضمانت پر رہائی پاچکے ہیںجبکہ بھائی شہباز شریف بھی ضمانت پر رہائی پاکر کھلے عام پھر رہے ہیں۔اور اب نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے تقریباً ایک ماہ سے جاری کوششیں عدالتی حکم کے بعد ناکام ہوچکی ہیں۔کرپشن کہانی کا انجام... حکمران ''در بدر‘‘۔ گویا شریف خاندان پس ِزندان۔
سیاسی مخالفین کو احتساب اور کرپشن کے نام پر زیر عتاب رکھنے کی روایت گزشتہ تین دہائیوں سے زوروں پر تھی‘ لیکن مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے اپنے دورِ اقدار میں اس کلچر اور پالیسی کے خلاف ''مفاہمت‘‘ کو متعارف کروایا اور اس بات کا کریڈٹ وہ ہمیشہ ہی لیتے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں کسی کو سیاسی قیدی بنا کر زیر عتاب نہیں رکھا گیا۔لیکن! ضمیر کے قیدیوں کی کوئی کمی نہیں تھی‘ نہ ہی ایک دوسرے کو چور اور برابھلا کہنے کی کوئی ممانعت تھی۔ اس طرح چوروں کا چوروں کو تحفظ دینے کا یہ سلسلہ اقتدار کے بٹوارے سے لے کر ملک و قوم کی دولت کے بٹوارے تک جا پہنچا اور اس مفاہمت کی شاہراہ پر چلتے ہوئے یہ قائدین قوم کو جس سنہرے دور کی نوید سناتے رہے وہ سنہرا دور ''چمکیلا اندھیرا‘‘ نکلا۔ چوروں کا چوروں کو تحفظ دینے کا بڑا سیدھا سا مطلب ہوتا ہے ''تم بھی لوٹو‘‘ ...''ہم تو لوٹ ہی رہے ہیں‘‘... اس ملک کے وسائل ہمارے باپ دادا کی جاگیر ہیں‘ اس کے ساتھ جو چاہے کھلواڑ کرو تمہیں کوئی روکنے اور پوچھنے والا نہیں۔کوئی روکے یا پوچھے تو ہم اس سے نمٹ لیں گے‘‘۔
پانچ سال بلا شرکت غیرے اقتدار کے دوران آصف علی زرداری نے سیاسی رواداری اور مفاہمت کے نام پر ایک نیا کلچر متعارف کروایا۔ سرنگوں... سربلند‘ مجرم... معتبر‘ لوٹ مار...حلال‘ تو بھی کھا... مجھے بھی کھلا‘ بلے بلے...چل سو چل‘ ''جھاکا اترے‘‘ حکمران کی مفاہمت کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے... لوٹو اور لوٹنے دو... ا س کے بعد خود بھی بھاگو اور مجھے بھی بھاگنے دو... بس یہی ایک مفاہمت فارمولا ہے جو آصف علی زرداری نے نہ صرف خود پرلاگو کیا بلکہ اپنے سیاسی حریفوں کو بھی اس کارِ بد میں شرکت کا بھرپور موقع دیا تاکہ بہتی گنگا سے سب یکساں سیراب ہو سکیں۔
آصف علی زرداری نے بڑی احتیاط اور کمالِ مہارت سے خود کو نواز شریف کے خلاف ہونے والی احتسابی کارروائیوں سے لاتعلق رکھا... بلوچستان کی حکومت سازی ہو یا سینیٹ کا انتخاب... انہوں نے مفاہمت اور تعاون کی آخری حدوں تک جاکر دیکھا کہ ان خدمات اور سہولت کاری کے عوض شاید جان خلاصی ہو جائے۔ ان کے خاندان اور قریبی ساتھیوں کے خلاف جاری تحقیقات میں کچھ رعایت اور سہولت مل جائے... لیکن ایسا ہو نہ سکا... مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہو گیا ... سہولت کاری اور مفاہمت کے سارے فارمولے آزمانے کے باوجود احتسابی گھیرادن بدن ان کی ہمشیرہ‘ قریبی ساتھیوں اور خود ان کے گرد تنگ ہوتا جارہاہے۔چند روز قبل سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی بھی نیب کی پکڑ میں آچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے آغا سراج درانی کی گرفتاری کو انتقامی کارروائی قرار دیاہے جبکہ نیب حکام کا کہنا ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی انتقامی اور امتیازی سلوک نہیں کیا جارہا ۔ احتسابی کارروائیاں ملک بھر میں جاری ہیں‘ اور یہ گرفتاریاں بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہیں۔جبکہ حکومت پنجاب کے سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان بھی پہلے ہی نیب کے''مہمان‘‘ کے طور پر احتسابی عمل سے گزر رہے ہیں۔
ملک بھر میں نیب اسیران سے ڈیل اور این آر او کی باتیں ہو رہی ہیں۔خیال رہے کہ نظریۂ ضرورت اگر احتسابی عمل پر غالب آگیا تو سقوط ِڈھاکہ کے بعدیہ دوسرا بڑا قومی سانحہ ہوگا۔ لٹی پٹی اس قوم کے لیے یہ مقامِ شکر ہے کہ حکمرانوں‘ اشرافیہ اوراعلیٰ حکام سے بھی کوئی جواب طلب کرنے والا ادارہ موجود ہے۔اس قوم کے لیے اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوگی کہ اقتدار اور اختیار کے نشے میں دھت ہوکر فیصلے اور ''ایڈونچرز‘‘ کرنے والوں سے پوچھا جارہا ہے کہ تم نے یہ فیصلے کس قانون اور ضابطے کے تحت کیے؟ ملکی وسائل اور معیشت کو ''بھنبھوڑ‘‘ کر رکھ دیا۔ کس کھاتے میں؟ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا‘ کس برتے پر؟ سب کو یکساں طور پر جواب دہ بنا دیا گیا ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ احتساب کا یہ گھیرا اپنے آخری ہدف تک بھی ضرور پہنچے گا۔ کرپشن کو موت دے کر ہی اس ملک کی معیشت اور اخلاقی اقدار‘ دونوں کو بچایا جاسکتا ہے جو پہلے ہی ''وینٹی لیٹر‘‘ پر ہیں۔
ملکی وسائل اور قومی خزانہ لوٹنے والے اگر اس مرتبہ بھی بچ نکلے تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔ ویسے بھی جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہے‘ وہاں پھر کچھ نہیں چلتا‘ سوائے قانونِ فطرت کے... اور قانون فطرت پہلے ہی حرکت میں آ چکا ہے۔