اپنے عوام کے جذبات سے کھیلنا بھارتی حکمرانوں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ جوں جوں انہیں اپنے ملک میں انتخابات قریب آتے نظر آتے ہیں، توں توں ان کی مکارانہ اور متعصبانہ سوچ عود کر آتی ہے۔ بھارت میں چناؤ ہوں اور سرحدوں پر تناؤ نہ ہو... یہ کیونکر ممکن ہے؟ کبھی مذہبی اقتدار اور رسومات کو بنیاد بنا کر ''گاؤ ماتا‘‘ کے تحفظ کی آڑ میں ہندو مسلم فسادات شروع کروا دیتے ہیں‘ تو کبھی اپنی ناقص کارکردگی اور کالے کرتوتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ''دیش بھگتی‘‘ کے نام پر سرحدوں پر کشیدگی پیدا کرکے خطے کے امن کو تہہ و بالا کرنے کے بہانے تراشے جاتے رہے ہیں‘ جبکہ بھارت نے اپنی پالیسیوں کے ردِّ عمل میں پیدا ہونے والے اندرونی انتشار اور شورش کا ملبہ بھی ہمیشہ پاکستان پر ہی ڈالا ہے۔ بھارت نے پلوامہ واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کے لیے باقاعدہ ایک ڈرامہ رچانے کی ناکام کوشش کی تو پاکستان نے اس کا انتہائی مثبت جواب دیا‘ اور یہ پیشکش بھی کی کہ ہم اس حوالے سے ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔ اگر بھارت کے پاس کوئی ٹھوس شواہد اور ثبوت ہیں تو وہ منظرِ عام پر لائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی نشری تقریر میں بھارت کو پیشکش کی تھی کہ اسلام آباد دہشت گردی سمیت ہر مسئلے پر نئی دہلی کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے کیونکہ پاکستان کی سرزمین پر باہر سے دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے ہوں یا پاکستان کی سر زمین کو دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے والے‘ دونوں ہی پاکستان کیلئے بدنامی اور اسے نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔
بد قسمتی سے بھارت اپنے داخلی مسائل سے نمٹنے یا انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے حادثات اور سانحات خود تخلیق کر کے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے اور ہیجانی کیفیت سے فائدہ اٹھانے میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اس کا اشارہ کئی بھارتی رہنماؤں کے بیانات اور میڈیا کے ردِّ عمل سے بھی ملتا ہے۔ بھارت نے ''نام نہاد‘‘ سرجیکل سٹرائیک میں ایک تنظیم کا کیمپ تباہ کرنے اور 350 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا‘ جسے حالات و واقعات اور عینی شاہدین جھوٹا ثابت کر چکے ہیں‘ لیکن بھارت کیا کرے؟ مودی سرکار کیا کرے؟ انہیں تو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ الیکشن میں کس منہ سے جانا ہے؟ اس کے لیے انہیں کوئی ڈھونگ، کوئی ڈرامہ، کوئی حادثہ، کوئی سانحہ، کوئی ایڈونچر بھی کرنا پڑے تو وہ کسی بھی قیمت پر کر گزریں گے۔ بھلے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں... منہ کی کھانا پڑے یا منہ چھپانا پڑے۔ ایک بھارتی شاعر راحت اندوری کا یہ شعر حسبِ حال، بھارت کی مکّاری اور متعصب ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے:
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتا تو کرو چناؤ ہے کیا
یعنی بھارتی شعرا، ادیبوں سمیت دیگر پڑھے لکھے اور پروگریسو طبقے بھی اپنے حکمرانوں کی مکّاری، عیّاری اور ''کاریگری‘‘ کو خوب سمجھتے ہیں اور وہ اس کا برملا اظہار وہ اپنے افکار و اشعار میں بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
وطنِ عزیز کی حفاظت پر مامور شاہین جنگی جنون میں مبتلا بھارت کو دھول چٹا چکے ہیں۔ ہمارے شیر دل محافظوں نے ایک ہی جھٹکے میں مودی سرکار کا سارا گھمنڈ اور مذموم عزائم خاک میں ملا کر خطے کا امن خراب کرنے کی سازش ناکام بنا دی‘ اور بھارتی در اندازی کے بعد غم و غصہ میں بھرے پاکستانیوں کے کلیجے ٹھنڈے کر دئیے۔ ہماری افواج‘ خصوصاً پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور اور ''ناقابلِ تسخیر‘‘ صلاحیت رکھتا ہے۔ پاک فضائیہ کی دفاعی اور جوابی کارروائی کے فوری بعد پلوامہ واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے پر بضد مودی سرکاری کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے بیجنگ میں بے اختیار کہہ ہی ڈالا کہ ''جنگ سے کوئی فائدہ نہیں، بھارت مزید کشیدگی نہیں چاہتا‘‘۔ گویا:
کیا اتنے ہی جری تھے حریفانِ آفتاب
نکلی ذرا جو دھوپ تو کمروں میں آ گئے
بھارتی در اندازی پر جوابی کارروائی کے بعد مودی سرکار کو سانپ سونگھ چکا ہے‘ جبکہ بھارت کے اندر مودی ذہنیت پر کئی سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔ بھارتی عوام پر بھی واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان کے خلاف جو پروپیگنڈا مودی سرکار نے کیا تھا‘ وہ من گھڑت، حقائق کے منافی، بے بنیاد اور محض ایک ڈرامہ نکلا‘ اور یہ کہ پاکستان کا پلوامہ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں پاکستان کو ملوث کرنا مودی ذہنیت کا شرمناک نمونہ ہے۔ ''اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘‘ کے مصداق پاکستانی حدود میں در اندازی اور پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں بھارتی جہاز کا ملبہ اور زندہ پکڑا جانے والا پائلٹ مودی سرکار کے گلے کا طوق بن چکا ہے۔ نریندر مودی دوہری پریشانی کا شکار ہیں... ایک طرف اپنے ہی ملک میں عوام بالخصوص اَپوزیشن کی شدید تنقید کا سامنا ہے‘ جبکہ دوسری طرف انتخابات میں ''منہ کی کھانے‘‘ کے خدشات لاحق ہیں‘ اور پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرکے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کا خواب چکناچور ہو چکا ہے۔ بھارتی میڈیا بھی ڈھٹائی اور عناد کی پالیسی اپنانے پر پشیمان اور مودی سے نالاں نظر آتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر جو ردِّ عمل سامنے آیا‘ وہ بھارت کے لیے مشکلات، پریشانی اور شرمندگی میں بے پناہ اضافے کا باعث بن چکا ہے۔ پاکستان نے جس تحمل، بردباری اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا آج وہی حکمت عملی اسے اقوام عالم میں ممتاز اور معتبر بنا چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت امریکہ، چین، برطانیہ، سعودی عرب اور ایران کے علاوہ دیگر متعدد ممالک کی طرف سے پاکستان کے مؤقف کی تائید اور حمایت بھارت کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کا باعث بن چکی ہے۔ اس طرح کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد پاکستانی حدود میں بھارتی طیارے کے ملبے اور پائلٹ کی گرفتاری نے مودی سرکاری کو پسپائی اور ندامت کے گڑھے میں جا دھکیلا ہے۔ بھارتی جارحیت اور اشتعال انگیزی کی عملی کارروائی کا منہ توڑ جواب دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان سفارتی محاذ پر بھی فتح سے ہمکنار ہو چکا ہے اور دنیا بھر کے ممالک پاکستان کی اس فتح کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا بخوبی احساس ہو چکا ہے کہ پاکستان اگر ہوش مندی اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بھارتی زبان اور طریقہ کار اپناتا تو اَمن برقرار رکھنا مشکل ہو سکتا تھا۔
اس نازک موقع پر یہ اَمر پاکستانی قوم کے لیے انتہائی خوش آئند اور باعثِ اطمینان ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحہ پر ثابت قدم ہے۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس میں غیر معمولی فیصلے‘ جرأت مندانہ اقدامات اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے رکھنا چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بہترین حکمتِ عملی کا مظہر ہے۔ اَپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بھی حکومتی مؤقف کی بھرپور تائید لمحہ بہ لمحہ حمایت اور اہم اجلاسوں میں شرکت نے قومی اتحاد اور اتفاق کو چار چاند لگا دئیے۔
وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے مدلل، ٹھوس اور انتہائی ''پریکٹیکل‘‘ انداز میں بھارت پر جو زمینی حقائق واضح کیے گئے‘ انہیں بھارتی عوام نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ مودی سرکار کی اشتعال انگیزی کو بلا جواز قرار دیا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود عمران خان نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہم خطے کے اَمن کی خاطر انہیں ایک اور موقع دینے کو تیار ہیں کیونکہ جنگوں کے متعلق اندازے کبھی درست نہیں نکلے... جنگ ہوئی تو معاملہ میرے اور مودی دونوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا‘‘۔ عقلمندی اور ہوشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اس نادر موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ ویسے بھی عملی طور پر یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ ہم دفاع اور مذاکرات دونوں کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ہم پر کوئی آزمائش اور جنگ مسلط نہ کی جائے۔ اَمن کو ہماری کمزوری سمجھنے والے کسی بھول میں نہ رہیں... ہماری کمزوری ہی ہماری طاقت ہے اور ہمیں طاقت کے مظاہرے پر مجبور نہ کیا جائے۔ آخر میں برادرِ محترم حسن نثار کا یہ شعر نریندر مودی کے لیے سوالیہ نشان ہی نہیں بلکہ پسپائی کے بعد اس کی موجودہ حالت کی بھی بھرپور عکاسی کرتا ہے:
ساری خواہشیں پوری کر لیں ہر اِک کام تمام کیا
یہ تو بتا اس کھیل میں آخر اپنا کیا انجام کیا