جنگی جنون اور جارحیت کا شکار اور صرف بالی ووڈ کے رقص سے آشنا مودی سرکار کو ہمارے شاہینوں کے ''فضائی رقص‘‘ نے دن میں تارے دکھا دیے۔ اعضا کی شاعری کو رقص کہا جاتا ہے لیکن ہماری فضائیہ نے فضائی حدود میں بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے کر فضائی رقص کی شکل میں جنگی حکمت عملی کے نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اپنے فن اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غیر معمولی کارکردگی ہی صلاحیتوں کا رقص کہلاتی ہے۔ ہمارے ایک پرانے دوست اور ماہر سرجن پرنسپل سمز پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دوران آپریشن ان کی انگلیاں رقص کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فائٹر پائلٹ اور ماہر سرجن پیدائشی ہی ہوتے ہیں۔ انہیں بنایا نہیں جا سکتا۔ یہ بنے بنائے دنیا میں آتے ہیں؛ البتہ ٹریننگ اور تربیت ان کے پوشیدہ جوہر اجاگر ضرور کر دیتی ہے۔
ہم نے خود تراشے ہیں منزل کے سنگ راہ
ہم وہ نہیں ہیں جنہیں زمانہ بنا گیا
جس طرح ہمارے ہیرو ایم ایم عالم کا پوری دنیا میں آج تک کوئی ثانی نہیں‘ راشد منہاس کے جذبۂ حب الوطنی اور شوق شہادت کے سامنے دشمن کی کوئی سازش اور حربہ کامیاب نہ ہو سکا‘ اسی طرح بھارتی حملہ آور طیارے ہمارے شاہین حسن صدیقی کی لپک اور جھپٹ سے کیسے بچ سکتے تھے۔ نشانہ ہو پاک فضائیہ کا... اور ہدف بچ نکلے... یہ کیسے ممکن ہے؟ سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی کا نام بھی پاک فضائیہ کے ان ہیروز میں شامل ہو گیا ہے جو وطن عزیز کے نا قابل تسخیر دفاع کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے پائلٹ عسکری حکمت عملی میں سبجیکٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلِ بے پایاں سے ہماری مسلح افواج بالخصوص پاک فضائیہ کے شاہین دنیا بھر کی ائیر فورسز میں ممتاز اور غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ائیر فائٹرز تصور کیے جاتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ کیا ہوا... کیسے ہوا... اور ہماری ائیر فورس نے بھارتی جارحیت کا قرض کس طرح چکایا‘ یہ واقفانِ حال یا خود بھارت ہی جانتا ہے۔
حملہ آور پائلٹ ابھی نندن بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے‘ جس کے جواب میں وحشیانہ تشدد اور بربریت کا نشانہ بننے والے پاکستانی قیدی شاکراللہ کی میت پاکستان کے حوالے کر دی گئی۔ شاکراللہ 20 فروری کو بھارتی جیل میں ہندو انتہا پسندوں کی وحشت اور سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ اسے دورانِ اسیری پتھر مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ بھارتی جیل میں سفاکی کا نشانہ بننے والا شاکراللہ تیرہ سال سے قید میں تھا‘ اور 2017 میں اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ شاکراللہ غلطی سے سرحد پار پیر پڑنے پر بھارتی فوجیوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ گویا دن دہاڑے پاکستان پر فضائی حملہ کرنے والا پائلٹ ابھی نندن صرف ساٹھ گھنٹوں بعد انسانی حقوق کے عین مطابق بھارت چلا گیا‘ اور قدموں کی لغزش سے بھارتی سرحد پار کرنے والا شاکراللہ سولہ سال بھارتی ظلم و تشدد اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور اذیت ناک موت کے بعد تابوت میں پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔
بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی حوالگی کے بعد سوشل میڈیا پر وزیر اعظم عمران خان کو امن کا نوبل انعام دینے کا مطالبہ زوروں پر ہے۔ سوشل میڈیا کا یہ مطالبہ قرارداد بن چکا ہے‘ جو وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری قومی اسمبلی میں جمع کروا چکے ہیں‘ جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ اس قرارداد کو افسوسناک اور ناقابل فہم قرار دے رہے ہیں۔ دفاع، خارجہ اور سفارتی محاذ پر وزیر اعظم کی حکمت عملی اور بیانیے کو دنیا بھر میں پذیرائی مل رہی ہے۔ بھارت سمیت بین الاقوامی میڈیا عمران خان کی فہم و فراست اور فراخ دلی کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خیر سگالی اور امن کی خواہش کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ آور ابھی نندن کو بھارت کے حوالے تو کر دیا‘ لیکن مودی سرکار کی جنونی اور ہیجانی کیفیت کا کیا کریں۔ وہ کسی طور کم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ پسپائی اور ندامت کے باوجود وہ اس نازک موقع پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ڈھٹائی اور بے حیائی کا پہاڑ دکھائی دیتی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایل او سی پر بلا اشتعال بھارتی فائرنگ سے پاک فوج کے دو جوانوں سمیت پانچ افراد شہید ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے امن کے پیغام اور بھارتی پائلٹ کی واپسی کے اس اقدام کے باوجود جارحیت پسند بھارت کی امن دشمن کارروائیاں جاری ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں حوالدار عبدالرب، نائیک خرم‘ ایک شہری نکیال سیکٹر، دو شہری تتہ پانی اور جندروٹ سیکٹر میں شہید ہوئے۔ بھارتی گولہ باری سے نکیال میں تعلیمی ادارے بند اور ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے نفاذ کے علاوہ معمولات زندگی معطل ہو چکے ہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق بھارت نے بحیرہ عرب میں سکارپین سب میرین تعینات کر دی ہے‘ اور اس کی فوجی پیش قدمی بدستور جاری ہے۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ سرحدوں کی یہ صورتحال بھارت میں عام انتخابات تک جاری رہ سکتی ہے۔ سرحدی کشیدگی، پاکستان اور اسلام دشمنی سے پیدا ہونے والی صورتحال مودی سرکار کی انتخابی ضرورت ہی نہیں بلکہ گیم پلان کا حصہ ہے۔ جبکہ بھارت کے ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران عمران خان کی خیر سگالی کے مداح ہو چکے ہیں۔ بھارتی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا پر بھی مودی ذہنیت اور گیم پلان آشکار ہو چکی ہے‘ اور سبھی تشویش کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر تشویش علیحدہ پائی جاتی ہے۔ جوہری طاقتوں کا آپس میں ٹکراؤ امن کے لیے ہی نہیں انسانیت اور زمینی حیات کے لیے بھی زہر قاتل ہے اور اس کا ازالہ صدیوں میں بھی نہیں کیا جا سکتا، بربادی اور بد حالی پورے خطے کا مقدر بن سکتی ہے۔ 74 سال قبل ہیروشیما اور ناگاساکی پر برسائے گئے ایٹم بم آج بھی جاپانیوں کے ذہنوں پر بمباری کرتے ہیں اور ان کی آنے والی نسلیں بھی اس بمباری کے مہلک اثرات سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گی۔ آج کی جوہری طاقتیں 74 برس قبل برسائے گئے بموں سے کہیں زیادہ مہلک اور طاقتور ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اس تناظر میں جوہری طاقتوں کے تصادم کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ اس نازک صورتحال میں بھارت کے جنون اور اشتعال انگیزی کے آگے وزیر اعظم عمران خان کے تحمل، برداشت اور معاملہ فہمی کا ڈنکا بج چکا ہے۔ بھارت کے اندر عمران خان کا نام مودی سرکار کے لیے آسیب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مودی بوکھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر اپنے ہی ملک میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
اس موقع پر ہماری عسکری قیادت کا کردار پوری قوم کے لیے قابلِ فخر اور باعثِ اطمینان ہے۔ سیاسی قیادت کی لمحہ بہ لمحہ رہنمائی اور حکومتی موقف کی مکمل تائید ہی وزیر اعظم عمران خان کے اعتماد، تدبر اور طاقت کا اصل سرچشمہ ہے۔ مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب کی طرف سے یکجہتی اور عملی تعاون کے مظاہرے کے بعد پاک بھارت معرکے میں بھی دفاعی اور سفارتی محاذ پر فتح سے ہمکنار ہونے کے بعد عمران حکومت کا مورال بلند ہے۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ اسی فہم و فراست اور دور اندیشی کا مظاہرہ سیاسی اور حکومتی فیصلوں میں بھی کیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ''دور مار نظریں‘‘ سرحدی کشیدگی، دفاعی ذمہ داریوں اور خطے میں امن کے تقاضوں کا احاطہ تو بخوبی کر چکی ہیں... خدا جانے وہ کیا وجوہات، مصلحتیں اور مجبوریاں ہیں کہ عمران خان کی وہ ''دور مار نظر‘‘ اپنے ارد گرد محلاتی سازشوں اور تحریک انصاف کے ویژن سے متصادم فیصلوں پر کیوں نہیں ٹھہر پا رہیں۔ میرٹ اور قواعد و ضوابط کے برعکس فیصلوں کے نتیجے میں حکومت کی بدنامی اور غیر مقبولیت کا باعث بننے والی صورتحال تاحال وزیر اعظم کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟ غیر منتخب اور ثانوی سمجھ بوجھ والے ذاتی رفقا اور مشیروں کو عوامی ووٹ کی طاقت سے منتخب ہو کر آنے والے نمائندوں پر فوقیت کیوں حاصل ہے؟ غیر منتخب رفقا کی وزارتوں اور اہم اداروں میں بے جا مداخلت نہ صرف گروہ بندی اور بیڈ گورننس کا باعث ہے بلکہ عوامی مینڈیٹ کی توہین بھی۔ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے پہلے عوام کو گمان تھا کہ عمران خان سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں کی ضد ثابت ہوں گے‘ لیکن یہ ہو نہ سکا‘ کئی اہم ادارے وزیر اعظم سے ذاتی تعلق اور دوستیوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال وزیر اعظم کی انہی نظروں اور توجہ کی طلبگار ہے‘ جو وہ سرحدی اور دفاعی امور پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔