نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص حاضر ہوا اور بولا (جس کا مفہوم کچھ یوں ہے) ''یا رسول اﷲ! میں گناہوں اور برے کاموں کی زندگی سے تنگ آ چکا ہوں مجھے کوئی نصیحت فرما دیں۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا: تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو‘‘۔ وہ شخص واپس آگیا اور اپنے معمولاتِ زندگی میں مگن ہو گیا‘ لیکن جب بھی وہ کسی برائی اور گناہ کے قریب جاتا تو اُسے فوراً خیال آ جاتا‘ اگر رسول اﷲﷺ نے پوچھا تو انہیں کیا جواب دوں گا۔ جواب دیہی کا یہی خوف اسے برائی اور گناہوں کی دلدل سے نکال لایا۔
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے 4 مارچ کو جھوٹی گواہی کے خاتمے کا دِن قرار دے کر کہا ہے کہ آج کا دن یاد رکھیں... آج سے سچ کا سفر شروع... جھوٹی گواہی پر سزا ملے گی... اب جھوٹ نہیں چلے گا... انصاف چاہیے تو سچ بولنا پڑے گا... ہم نے 72 سال ضائع کر دئیے... کسی کو جھوٹ کا لائسنس کیوں دیں؟ جھوٹ چلتا رہے گا تو انصاف نہیں ہو گا... اب ہم نے یہ سب ٹھیک کرنا ہے... جھوٹے گواہوں نے نظامِ عدل تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ قارئین! یہ اَمر انتہائی خوش آئند اور باعثِ اطمینان ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اُس بنیادی برائی کی نشان دہی کی ہے جو معاشرے میں پائی جانے والی جھوٹی بڑی تمام برائیوں، گناہوں، بد عنوانیوں، بے ضابطگیوں، جرائم اور مظالم کی جڑ ہے۔
انہوں نے 2007ء میں ضلع نارووال کے علاقے میں آصف نامی شخص کے قتل کے مقدمہ میں جھوٹی گواہی دینے کے مرتکب پنجاب پولیس کے (اس وقت کے ہیڈ کانسٹیبل) اے یس آئی خضر حیات کے خلاف کارروائی کے لیے معاملہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نارووال بھجواتے ہوئے دورانِ سماعت استفسار کیا کہ آپ وحدت کالونی لاہور میں تعینات تھے‘ اور ریکارڈ کے مطابق وقوعہ کے روز تھانہ میں حاضر تھے‘ تو پھر نارووال میں ہونے والے قتل کے مقدمے کی گواہی کیسے دے دی؟ جس پر ملزم نے مؤقف اختیار کیا کہ وقوعہ کے روز عید تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا: کیا عید کے دن جھوٹ بولنے کی اجازت ہوتی ہے؟ قاعدہ یہ ہے کہ گواہی کا اگر کچھ حصہ جھوٹ ہو تو سارا بیان مسترد کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے ضابطے کے مطابق ملزم کے خلاف کارروائی کے لیے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 194 کے تحت کارروائی کا حکم جاری کیا۔ یاد رہے کہ اس دفعہ کے تحت سخت ترین سزا والے مقدمے میں جھوٹی گواہی دینے والے ملزم کو عمر قید یا دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی جا سکتی ہے ؎
سچ بڑھے یا گھٹے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 194 کا قانون چیف جسٹس آف پاکستان نے کوئی نیا متعارف نہیں کروایا... قانون موجود تھا لیکن جب عمل داری اور پاس داری کی نیت ہی نہ ہو تو کہاں کا قانون... کیسی سزا و جزا؟ سچ کے اس سفر کا آغاز ''نِکّے تھانیدار‘‘ سے ہوا ہے۔ جھوٹے مقدموں اور جھوٹے مدعیوں نے معاشرے میں وہ بگاڑ اور عدم توازن پیدا کر ڈالا ہے‘ جس کا اندازہ عدالتوں میں زیر التوا کیسوں کے انبار دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے ان جھوٹے مدعیوں کو کسی حد تک پولیس کی آشیر باد اور بھرپور معاونت حاصل ہوتی ہے۔ جائیداد اور لین دین کا معاملہ ہو یا کوئی خاندانی تنازعہ یہ معاونت اور سہولت کاری ہمہ وقت دستیاب رہتی ہے۔
آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے چارج سنبھالتے ہی اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ وہ جھوٹے مدعیوں اور مقدمات کی حوصلہ شکنی کریں گے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا بھی دی جائے گی... لیکن یہ ہو نہ سکا کیونکہ وہ خود اُن ''چیمپیئنز‘‘ کا شکار ہو چکے ہیں جو پولیس میں ''چین آف کمانڈ‘‘ کے تصور کی نفی کے ایجنڈے پر سرگرمِ عمل‘ گروپنگ اور بیڈ گورننس کے ذمے دار ہیں۔ آئی جی صاحب بخوبی جانتے ہیں ناجائز قبضے پولیس اور انتظامیہ کی معاونت اور ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ اُن سے بہتر اس حقیقت کو بھی کوئی نہیں جانتا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں قبضہ مافیا کے سہولت کار بدستور سرگرم ہیں۔ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر کسی بھی پراپرٹی پر قبضہ کیونکر ممکن ہے؟ اور اب بات معاونت اور سہولت کاری سے بڑھ کر ''شراکت داری‘‘ تک جا پہنچی ہے۔ ''جوائنٹ وینچر‘‘ کی بنیاد پر سرکاری اور پرائیویٹ جائیدادوں پر قبضے کروانے والے ''بینی فشری‘‘ اور پولیس کے اندرونی ''منشاء بم‘‘ بھی شریک جرم ہیں۔ ان کی نامی‘ بے نامی جائیدادوں اور بینک بیلنس کی تحقیقات بھی ہونی چاہئیں‘ جو محکمہ پولیس کیلئے بد نامی اور بد دُعاؤں کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ جھوٹے مقدمات کے بڑھتے ہوئے رجحان کا سبب بھی ہیں۔
سانحہ ساہیوال کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ آ چکی ہے‘ جس میں سی ٹی ڈی کے 6 اہلکاروں کو سانحہ ساہیوال کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ان اہلکاروں کی طرف سے خلیل کی گاڑی کے پیچھے سے بلا اشتعال فائرنگ اور جھوٹا مقدمہ درج کرانے کا اقرار بھی کیا گیا ہے۔ انہیں اہلکاروں نے اپنی گاڑی پر خود فائرنگ کی، شواہد بھی ٹمپرنگ کیے جبکہ ذیشان کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے بتایا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی عام آدمی کی چھوٹی موٹی چوری یا ڈکیتی کا مقدمہ تھانے کے درجنوں چکر لگانے کے باوجود درج نہیں ہوتا اور متاثرہ مدعی کو ہر چکر پر یہی جواب دیا جاتا ہے کہ تمہارے مقدمہ کے اندراج کی درخواست افسران کی منظوری کے لیے بھجوائی ہے‘ جو ابھی تک واپس نہیں آئی‘ جب منظوری آئے گی تو مقدمہ درج کریں گے۔ افسران کی منظوری آتے آتے متاثرہ شخص پر جو گزرتی ہے یہ وہی جانتا ہے یا اس کا اللہ۔ معصوم، نہتے اور بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں کی مدعیت میں ''آناً فاناً‘‘ جھوٹا مقدمہ کیسے درج ہو گیا؟ ایس ایچ او نے کس کی اجازت سے‘ کس کی منظوری سے یہ جھوٹا مقدمہ درج کیا؟ اس بے گناہ خاندان کے سفاک قاتلوں کو بچانے کے لیے جھوٹے مقدمے کا اندارج کس کے حکم پر کیا گیا؟ اس جھوٹے مقدمے کے اندراج کے ذمہ داران کا تعین بھی ہونا چاہیے اور جھوٹے مدعیوں کی سہولت کاری اور جانبداری کے جرم میں ملوث افسران کے خلاف متعلقہ دفعات کے تحت کارروائی بھی ہونی چاہیے‘ تبھی جھوٹے مدعیوں اور مقدمات کا ''بیج‘‘ مرے گا... جھوٹ کے اس بیج کو مار کر ہی سچ کا سفر جاری رکھا جا سکتا ہے‘ جس کا عزم اور اعادہ چیف جسٹس آف پاکستان نے 4 مارچ کو کیا۔
مقتول خلیل کے بچوں کی تعلیم اور کفالت کی ذمہ داری حکومت پنجاب اٹھائے گی۔ بچوں کی مالی امداد کے لیے دو کروڑ روپے کی رقم ٹرسٹ میں جمع کروائی جائے گی‘ جس پر ماہانہ منافع بچوں کو ملتا رہے گا۔ خلیل کے بوڑھے والدین کی مدد کے لیے ایک کروڑ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنا بڑھاپا اور باقی زندگی آسانی سے بسر کر سکیں۔ یہ سارے حکومتی اعلانات اور دعوے تو پورے ہو ہی جائیں گے لیکن کیا یہ سب کچھ کرنے سے انصاف کے حقیقی تقاضے پورے ہو سکیں گے؟ سی ٹی ڈی کے ان 6 اہلکاروں کے علاوہ دیگر بالواسطہ یا بلا واسطہ ذمہ داران کا تعین کون کرے گا؟ ان پوشیدہ ذمہ داران کا تعین کیے بغیر انصاف کے تقاضے کیسے پورے کیے جا سکتے ہیں؟ ؎
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہم ہی پر رکھ دو
وطن عزیز میں آج تک مجبوریوں اور مصلتحوں سے پاک سارے فیصلوں کا کریڈٹ عدالتِ عظمیٰ کو ہی جاتا ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے ایسی ایسی مقدس گائیوں اور شجر ممنوعہ کو احتساب اور جواب دیہی کے عمل سے گزار دیا‘ جس کا تصور کوئی سیاسی حکومت کر ہی نہیں سکتی۔ اسی طرح موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے معاشرے کی اس نبض پر ہاتھ رکھا ہے جو ''گراس روٹ لیول‘‘ سے ایوانِ اقتدار تک تمام برائیوں اور بگاڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگر حکومت ''گڈ گورننس‘‘ اور اصلاحات میں سنجیدہ ہے تو اسے جناب چیف جسٹس کی طرف سے شروع کیے گئے سچ کے اس سفر میں شریک سفر بننا پڑے گا۔ تب کہیں جا کر جھوٹ‘ جھوٹے مقدمات اور جھوٹے مدعیوں کا بیج مرے گا۔