سانحہ ساہیوال پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ بالآخر آ چکی ہے... سب کچھ ٹھیک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ حالات معمول پر آرہے ہیں... وقت کی گرد لمحہ بہ لمحہ اس سانحہ پر اپنا وزن اور حجم بڑھا رہی ہے... بے قصور ثابت ہونے کے بعد ڈی آئی جی رائے طاہر کو دوبارہ سی ٹی ڈی کی سربراہی سونپ دی گئی ہے۔ مجھے رائے طاہر سے کوئی عناد یا اختلاف قطعی نہیں ہے۔ ان کے اس عہدے پر رہنے یا نہ رہنے سے مجھے کیا لینا دینا‘ تم نہ ہو گے کوئی تم سا ہو گا۔ کاروبارِ حیات ایسے ہی چلتا رہے گا‘ جیسا ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے۔ زمانے بھر کی رسوائیاں سمیٹ کر جانے والے چلے گئے۔ انہوں نے تو مر کر بھی چین نہ پایا۔ کون سا الزام ہے جو ان پر نہیں لگایا گیا۔ خود کش جیکٹس کی برآمدگی سے لے کر ملک دشمنی اور دہشت گردی تک‘ کون سا ایسا بہتان ہے جو اُن ناحق مارے جانے والوں پر نہیں لگایا گیا۔ وزیر اعلیٰ سے لے کر وفاقی اور صوبائی وزرا تک... آئی جی سے لے کر خون کی ہولی کو انسدادِ دہشت گردی کی کارروائی کا رنگ دے کر جھوٹا مقدمہ درج کرنے والے چھوٹے بڑے تھانیداروں تک‘ کسی نے کوئی کسر نہ چھوڑی‘ روزِ محشر ان کا ہاتھ کس کس کے گریبانوں پر ہو گا؟ ان کو ناحق مارنے والے ہوں‘ ان پر بہتان لگا کر اپنی ''فیس سیونگ‘‘ کرنے والے ہوں یا سیاست چمکانے والے‘ سبھی ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔ وہاں کسی جے آئی ٹی کی کوئی رپورٹ کام نہیں آتی۔ وہاں تو کرنی کا پھل حصہ بقدر جثہ مل کر ہی رہتا ہے۔ وہاں بندہ نوازی کا نہ کوئی نظام ہے اور نہ ہی کوئی رواج‘ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد سی ٹی ڈی کی سربراہ رائے طاہر کی بے گناہی ثابت ہوتے ہی ان کی دوبارہ اسی عہدہ پر تعیناتی یقینا ان کی ساکھ کی بحالی اور ازالے کا ایک نمونہ ہے‘ لیکن اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی آپریشنز کے بارے میں یہ معمہ تا حال حل نہیں ہو سکا ہے کہ انہیں کس طوطے سے ''فال‘‘ نکلوا کر صوبہ بدر کیا گیا تھا‘ جبکہ سانحہ ساہیوال سے ان کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق یا کردار تو دور کی بات، اس کا امکان بھی بعید از قیاس ہے۔ خیر محلاتی سازشیں بھی تو اسی سسٹم کا حصہ ہیں‘ اور سسٹم کو ''رواں دواں‘‘ رکھنے کے لیے ''گورننس‘‘ کا یہ نمونہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس تناظر میں سانحہ ساہیوال کی صورت میں میسر آنے والے نادر ترین موقع سے فائدہ نہ اٹھانا یقینا کفرانِ نعمت سے کم نہ تھا؛ تاہم براہِ راست ذمہ دار افسر کے لیے ایس اینڈ جی اے ڈی رپورٹ کرنے کا حکم اور غیر متعلقہ افسر کو صوبہ بدری کا حکم نامہ... آفرین ہے۔ ؎
یہاں بھی وہی قصہ پرانا نکلا
حاکمِ شہر کا منصف سے یارانہ نکلا
تعجب ہے سانحہ ساہیوال کے فوری بعد گمراہ کن اور من گھڑت کہانیاں بنا کر حکومت اور عوام کو گمراہ کرنے والے سارے ہی بچ گئے۔ پوائنٹ سکورنگ اور ایک سے بڑا سنگین الزام لگانے والے سارے ہی معتبر ٹھہرا دئیے گئے۔ ناحق مرنے والوں کو مرنے کے باوجود معاف نہیں کیا گیا۔ منکر نکیر سے سوال و جواب کا مرحلہ مقتولین کے لیے شاید اتنا کٹھن اور دشوار نہ ہو گا‘ جس مشکل سے انہیں اور ان کے خاندان کو ریاست اور سیاست نے دوچار رکھا۔ سزاوار تو وہ معصوم بچے ٹھہرے جو خون کی ہولی میں رنگے جانے کے باوجود معجزانہ طور پر بچ گئے‘ ورنہ ان جھاکا اترے اہلکاروں کا کیا جاتا تھا؟ یہ بچے تو دو گولیوں کی مار بھی نہیں تھے‘ وہاں تو گولیوں کی بوچھاڑ اس طرح کی گئی گویا حق و باطل کا معرکہ ہو۔ ان بچوں کا بچ جانا سی ٹی ڈی اہلکاروں کی کسی احتیاط، رحم دلی یا خدا ترسی کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ 'جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے‘ والا معاملہ ہے۔ قدرت کو کچھ ایسا ہی منظور تھا۔ جلد یا بدیر خون رنگ لاتا ضرور ہے۔ بچوں کے بیانات بھی اس قدرتی عمل کا موجب ہیں۔
زندہ بچ جانے والے معصوم بچوں کی کفالت اور بحالی کے لیے حکومت پنجاب دو کروڑ روپے ٹرسٹ میں ڈیپازٹ کروائے گی جس کے منافعے کی رقم سے وہ ان قیامت خیز مناظر، ماں باپ اور بہن کے غم کو بھلانے کی کوشش کریں گے‘ جبکہ خلیل کے بوڑھے والدین کا بڑھاپا سنبھالنے کے لیے بھی حکومت نے ایک کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ مقتول ذیشان کے بارے میں جے آئی ٹی دہشتگروں سے رابطے کی رپورٹ دے چکی ہے‘ جبکہ حکومت تین کروڑ روپے کے امدادی پیکیج کے بعد بری الذمہ اور اپنے فرض سے سبکدوش ہے۔
قارئین سانحہ ساہیوال کے فوری بعد مسلسل تین کالموں میں اس المناک واقعہ کے مختلف پہلوؤں، زاویوں سے حالات و واقعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کی ممکنہ رپورٹ کے حوالے سے بھی ایک تجزیہ شیئر کیا تھا‘ جو ریکارڈ کا حصہ ہے اور جس میں یہ تھیوری پیش کی گئی تھی کہ ذیشان کو دہشت گرد ثابت کئے بغیر الزامات عائد کرنے والوں کے پلے کچھ نہیں رہتا‘ اور ایسا کر کے ہی گیہوں کے ساتھ گھن کے پس جانے کا جواز پیدا کیا جا سکتا ہے۔
خون کی ہولی کھیلنے والے 6 اہلکاروں کی مدعیت میں درج کروایا جانے والا مقدمہ جھوٹا ثابت ہو چکا ہے‘ لیکن اس جھوٹے مقدمے کے اندراج اور بربریت کے واقعہ کو سرکاری اور قومی فریضہ قرار دینے پر بضد اور ناکام کوشش کرنے والی حکومتی اور سیاسی شخصیات کے بارے میں جے آئی ٹی کی خاموشی تعجب خیز ہے۔ موقعہ واردات کے گواہان حالات و واقعات کی حقیقت بیان نہ کرتے اور پرائیویٹ اور سوشل میڈیا اگر بروقت حقائق پر مبنی رپورٹنگ اور معلومات شیئر نہ کرتے تو ناحق مارے جانے والوں کی قبروں پر آج بھی جوتے مارے جا رہے ہوتے‘ اور خون کی ہولی کھیلنے والے سی ٹی ڈی کے اہلکار دہشتگردی کے خلاف فاتح قرار پاتے اور اعلیٰ افسران اس معرکے کا کریڈٹ لے کر ترقیوں اور انعام و اکرام سے نوازے جا چکے ہوتے۔ حکومتی اعلیٰ شخصیات دہشت گردی کے خلاف اس معرکے پر پھولے نہ سماتے‘ اور زندہ بچ جانے جن بچوں کو امدادی پیکیج جاری کیا گیا ہے وہ خدا جانے کس حال میں ہوتے؟ وہ ساری عمر دہشت گردی کے ''کلنک‘‘ کے ساتھ زندہ رہتے اور وطن دشمنوں کی اولاد کہلاتے۔ خیر ہوئی کہ خون بروقت رنگ لے آیا۔
قارئین! سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لئے بننے والی نئی جے آئی ٹی کے سربراہ آئی جی موٹر وے اے ڈی خواجہ نے بھی اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اس طرح لگتا ہے جلد ہی ماڈل ٹائون کے شہدا کو بھی انصاف ملنے والا ہے۔ آج بھی جے آئی ٹی میں اہم کرداروں کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ خدا کرے کہ اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کا حشر سابق جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیموں کی طرح کا نہ ہو‘ بلکہ ٹھوس حقائق واضح ہوں اور اس سانحہ کے ذمہ داران کو ان کے کیے کی سزا ملے۔ ایک تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے متنازعہ سربراہ کو عہدے سے فارغ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ فیاض الحسن چوہان کو فارغ کئے جانے کے بعد گزشتہ 48 گھنٹوں میں یہ دو بڑے اور اہم فیصلے میرٹ کے عین مطابق کیے گئے ہیں جن پر اگلے کالم میں بات کریں گے۔ وزیر اعظم نے وفاق میں بھی انتظامی اور سیاسی ٹیم میں تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے جبکہ پنجاب میں وزرا کے قلم دانوں کی تبدیلی کے لئے بھی کام تیزی سے جاری ہے۔ اس طرح لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومتی معاملات میں کچھ بہتری آ جائے گی اور ممکن ہے گڈ گورننس کی راہ بھی نکل آئے۔
زندہ بچ جانے والے معصوم بچوں کی کفالت اور بحالی کے لیے حکومت پنجاب دو کروڑ روپے ٹرسٹ میں ڈیپازٹ کروائے گی جس کے منافعے کی رقم سے وہ ان قیامت خیز مناظر، ماں باپ اور بہن کے غم کو بھلانے کی کوشش کریں گے‘ جبکہ خلیل کے بوڑھے والدین کا بڑھاپا سنبھالنے کے لیے بھی حکومت نے ایک کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔