قارئین! آج کا کالم دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ گزشتہ سے پیوستہ ہے جبکہ دوسرا حصہ تازہ ترین صورتحال اور نئے موضوع پر مبنی ہے۔ حالیہ ایک کالم میں صحتِ عامہ کے بارے میں حکومتی عدم توجہی اور در پیش چیلنجز کے بارے میں بات کی تھی‘ جس پر بیشتر قارئین نے اپنی رائے میں اس غیر سنجیدگی پر تشویش کا اظہار کیا‘ جبکہ میڈیکل پروفیشن سے تعلق رکھنے والی اہم سرکاری شخصیات نے میری معلومات میں اضافہ کر کے حکومتی ترجیحات کا ''پول‘‘ مزید کھول دیا ہے۔
قارئین! تحریک انصاف کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان نے کینسر جیسے موذی اور جان لیوا مرض کے خلاف مزاحمتی بند باندھنے کے لیے اپنی والدہ کے نام پر شوکت خانم ہسپتال بنا کر بلا شبہ غیر معمولی کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ ان کے اس کارنامے کا کریڈٹ تحریک انصاف سیاسی محاذ خصوصاً انتخابی مہم میں بخوبی لیتی رہی ہے اور کرکٹ کے میدان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف عمران خان صاحب کی جدوجہد بھی اُن کی وجۂ شہرت رہی ہے۔ اب پنجاب میں صورتحال شاید کچھ تبدیل ہونے والی ہے۔
اب چلتے ہیں اپنے آج کے تازہ موضوع کی طرف۔ بلاول بھٹو زرداری کی کوٹ لکھپت جیل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کو سیاسی مبصرین کافی اہمیت دے رہے ہیں‘ جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف صاحب کے ذہنی دباؤ کو حکومتی تشدد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں پارٹیاں میثاق جمہوریت پر کار بند رہیں گی‘ اور مناسب وقت پر وہ مریم نواز سے بھی ملاقات کریں گے۔ میثاق جمہوریت کے نام پر یہ ملاقات مجھے سیدھا سادہ گٹھ جوڑ لگتا ہے‘ جو ایک دوسرے کو بچانے اور منانے کی روایت کا تسلسل ہے۔ یعنی
ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے
کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے
یونہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو
یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے
کہاں اب دعاؤں کی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں
یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے
وہ دلوں میں آگ لگائے گا میں دلوں کی آگ بجھاؤں گا
اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے
نواز شریف اور بلاول نے آرٹیکل 62,63 ختم کرنے پر اتفاقِ رائے کر لیا ہے‘ جبکہ اس موقع پر نواز شریف صاحب نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ کاش وہ آرٹیکل 62,63 کو ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی پیشکش مسترد نہ کرتے۔ گویا ؎
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
ہمارے ہاں چوروں کا چوروں کو تحفظ دینے کا رواج کوئی نیا نہیں۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں لوگ کرپشن کے دفاع میں مصلحت اور مفاہمت کی اس انتہا پہ چلے جاتے ہیں کہ ان کی بلا سے ملک کے پلے کچھ رہے نہ رہے‘ ان کی گردن اور کھال محفوظ رہنی چاہیے۔ جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہے پھر وہاں کچھ نہیں چلتا۔ سیاسی مخالفین کو احتساب اور کرپشن کے نام پر زیر عتاب رکھنے کی روایت عام رہی ہے جبکہ آصف علی زرداری صاحب نے اپنے دورِ اقتدار میں اس کلچر اور پالیسی کے خلاف مفاہمت کی سیاست کو متعارف کروایا‘ اور بڑے فخر سے وہ اس بات کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں کہ ان کے دور میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ ان کا یہ کہنا قطعی بے جا نہیں کہ ان کے دور میں کسی کو زیر عتاب رکھ کر سیاسی قیدی نہیں بنایا گیا؛ البتہ ضمیر کے قیدیوں کے انبار اور چلتے پھرتے پہاڑ ضرور نظر آتے تھے۔
ہمارے ہاں ایک دوسرے کو تحفظ دینے کا ایسا نظام متعارف کروایا گیا کہ یہ نظام اقتدار کے بٹوارے سے لے کر ملک و قوم کی دولت اور وسائل کے بٹوارے تک جا پہنچا۔ ایک دوسرے کی بڑی سے بڑی واردات ہضم کرنے کی پالیسی کو دوام بخشا گیا؛ البتہ ''فیس سیونگ‘‘ اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، لٹیرا وغیرہ وغیرہ کہنے کی کوئی ممانعت نہ تھی۔ مفاہمت کی شاہراہ پر چلنے والے حکمران عوام کو جس سنہرے دور کی نوید سناتے رہے وہ بالآخر ''چمکیلا اندھیرا‘‘ ہی نکلا اور نتیجہ یہ کہ ایک دوسرے کو چور کہنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے‘ ملکی وسائل اور نظام کو برباد کرنے والے‘ آج پھر اپنی اپنی کھال اور گردن بچانے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔
میرا خیال یہ ہے کہ میثاق جمہوریت کے نام پر نیا گٹھ جوڑ کیا جا رہا ہے۔ ملکی وسائل کو ذاتی مال سمجھنے والے ہمیشہ ایک ہی نکتے پر متفق اور مطمئن رہے کہ تم بھی لوٹو... ہمیں بھی لوٹنے دو... خود بھی کھاؤ ہمیں بھی کھانے دو اور جب وقت حساب آئے تو... خود بھی بھاگو... ہمیں بھی بھاگنے دو۔ جب معاشرے میں لوٹ مار اور مار دھاڑ کو استحقاق تصور کیا جانے لگے اور قانون و احتساب بے بس اور بے اختیار نظر آنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ قانون فطرت حرکت میں آنے والا ہے۔ جلد یا بدیر وہ حرکت میں آ کر ہی رہتا ہے اور جب وہ حرکت میں آتا ہے تو وکالتیں اور میثاق بھی تحفظ نہیں دے پاتے‘ کیونکہ ''آسمانی فیصلوں کے آگے زمینی وکالتیں نہیں چلتیں‘‘۔
دورِ حکومت نواز شریف کا ہو یا بے نظیر بھٹو صاحبہ کا... پرویز مشرف کا ہو یا آصف علی زرداری صاحب کا... خیانت کے اس کارِ بد میں ہاتھ سبھی نے برابر کے رنگے اور رہی سہی کسر اب ملاقات کے ذریعے پوری کی جا رہی ہے۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ لانچوں میں بھر بھر کر کرنسی نوٹوں کی نقل و حمل سے لے کر درجن سے زائد شوگر ملوں، کمپنیوں، جائیدادوں اور بینکوں میں بھرے ہوئے بڑے بڑے کھاتوں کا ''بینی فشری‘‘ کون ہے؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ڈاکٹر عاصم اور انور مجید کس کے سہولت کار اور فرنٹ مین رہے؟
زرداری اور شریف برادران ایک دوسرے پر اس قدر سنگین الزام تراشیاں کر چکے اور ایک دوسرے کو اس قدر برا بھلا کہہ چکے ہیں کہ اب عوام کے سامنے خفت مٹانے کی غرض سے زرداری خود پس پردہ رہ کر اور بلاول کو آگے کر کے ایک نیا جال لے کر آئے ہیں۔ سامنے کوئی بھی ہو‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جو ملکی قومی وسائل لوٹے گا‘ اس کے لئے آغاز بھی رسوائی... انجام بھی رسوائی... دھوکہ ہی دھوکہ... جھوٹ ہی جھوٹ مکر و فریب کے سارے کردار محض اس لیے اکٹھے ہو رہے ہیں کہ شاید کوئی صورت بن پڑے کہ ان کی کھال اور گردن بچ جائے۔ میثاق جمہوریت کے نام پر اکٹھے ہونے والے ہی جمہوریت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے رہے ہیں۔ جمہوریت کا درد لیے واویلا کرنے والے صرف ''کڑے وقت‘‘ کو ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جو روزِ حساب بن کر ان کے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق صوبائی اینٹی کرپشن محکموں کے اختیارات میں کمی کر کے وفاقی حکومت کے افسران کو تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے۔ جس کے تحت ان کی کرپشن، لوٹ مار اور اختیارات کے نا جائز استعمال کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ سیاسی اشرافیہ کی طرز پر اعلیٰ افسران بھی گٹھ جوڑ کو نصب العین بنا چکے ہیں۔ وہ سیاسی ماڈل ''مستعار‘‘ لے کر ایک دوسرے کی کھال اور گردن بچانے کے لیے میدانِ عمل میں آچکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم اس واردات سے بھی لا علم ہیں۔