وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے؛ البتہ بڑے بڑے ڈاکو اور چور خطرے میں ضرور ہیں۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ مودی سے تو بات چیت کر سکتے ہیں لیکن ملک لوٹنے والوں سے بات چیت اور مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم کا یہ دو ٹوک فیصلہ یقیناً اصولی اور باعث اطمینان ہے۔ کسی بھی حکمران کا زمینی حقائق سے باخبر اور 'پریکٹیکل‘‘ ہونا عوام کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ یعنی عمران خان بخوبی آگاہ ہیں کہ خطرے میں کون ہے اور خطرے سے باہر کون؟
جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں... حکومت کو کوئی خطرہ نہیں... سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس قسم کی باتیں اور بیانات ہر دور حکومت میں تواتر سے سننے کو ملتے رہے ہیں۔ عوام کے لیے ایسے بیانات اور اعلانات نئے نہیں ہیں۔ ہر دور میں حکمران عوام کو خوش کن اعلانات کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اور عوام ہر بار ان کے اس جھانسے میں باآسانی ا ٓجاتے ہیں۔ آنا ہی پڑتا ہے۔ مرتے کیا نہ کرتے والا معاملہ جو ہوا۔ نا امیدی اور مایوسی میں گھرے عوام کو ذرا سی امید یا آس دلا دو۔ وہ جھٹ جی اٹھتے ہیں۔ لیکن ہر بار یہ آس اور امید دلانے والے حکمران ہی انھیں مایوسی اور نا امیدی کے گڑھے میں دھکیلتے رہے ہیں۔
گویا حکمرانو ں کی جمہوریت بھی انہی کے دم سے قائم و دائم ہے۔ جب بھی ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق ہوا‘ تو جمہوریت بھی خطرے میں ضرور آئی؛ تاہم اس بار وزیر اعظم نے عوام کو پھر یقین دلایا ہے کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ گویا حکمرانوں اور ان کی حکومت کو تاحال کوئی خطرہ نہیں۔ وزیر اعظم بھی محفوظ ہیں اور ان کی حکومت بھی محفوظ۔ اس تناظر میں حکومت کا محفوظ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ جب حکومت محفوظ ہو۔ حکمران محفوظ ہوں۔ تو جمہوریت کیسے غیر محفوظ ہو سکتی ہے؟
غیر محفوظ ہیں تو صرف عوام۔ سدا کے غیر محفوظ۔ وزیر اعظم قیام امن اور خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے مودی سے بات چیت کو تیار ہیں‘ لیکن عوام سے غداری، دروغ گوئی اور بد عہدی کرنے والوں سے بات کون کرے گا؟ عوام کی آنکھوں سے خواب نوچ کر تعبیر سے پرے دھکیلنے والوں‘ سنہری دنوں کا جھانسہ دینے والوں‘ عوام کی آسوں اور امیدوں کا بے دریغ قتل عام کرکے بد حالی اور بربادی کے گڑھے میں دھکیلنے والوں اور بات بات پر جھوٹ بولنے والوں پر بات کون کرے گا؟
یہ سارے کردار شریک اقتدار اور وزیر اعظم کو ہمہ وقت دستیاب اور ان کی ناک تلے عوام سے ریا کاری اور اداکاری کے فن کا لوہا صبح، دوپہر، شام منوا رہے ہیں۔ یہ سارے کردار وزیر اعظم کی آنکھ کے تارے‘ راج دلارے اور سر چڑھے ہیں۔ تحریک انصاف کے دھرنوں اور حالیہ انتخابی مہم کے دوران سابقہ حکومت کی طرزِ حکمرانی کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے۔ آسمان سے تارے توڑ کر لانے سے لے کر پاتال سے خزینے اور دفینے نکال کر لانے کے دعوے کرنے والے ''چیمپئنز‘‘ کہاں جا سوئے ہیں۔
وزیر اعظم جناب عمران خان کی نیت اور عزم پر کوئی شک نہیں۔ وہ عوام کی تقدیر بدلنے اور کچھ کر گزرنے کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ چارا بو کر کپاس یا گندم کی فصل کیسے کاٹی جا سکتی ہے؟ کیا ان چیمپئنز سے یہ پوچھا جانا قطعی عین منطقی نہیں کہ جن کاموں اور دعووں سے ساری مراعات، پروٹوکول، سیر سپاٹے، تام جھام اور آنیاں جانیاں مشروط تھیں‘ جب وہی نہ ہو سکا تو یہ سب کس کھاتے میں؟ ان تنخواہوں اور مراعات کو کس طرح حلال قرار دو گے؟ معیشت کی بحالی اور ترقی کے ٹھیکیداروں سے یہ پوچھا جانا کیا ''لاجیکل‘‘ نہیں کہ خوش کن دعووں، دلفریب وعدوں اور گمراہ کن اعداد و شمار کا گورکھ دھندا کب تک چلاؤ گے؟ ان سے یہ پوچھا جانا بھی ضروری ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ ترین اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ کیسے جھٹلاؤ گے؟ جس میں بتلایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے لیے سات ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں نے سٹاک مارکیٹ سے چالیس کروڑ، انانوے لاکھ ڈالر نکال لیے ہیں۔ جبکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں مالی سال جولائی تا جنوری مجموعی بیرونی سرمایہ کاری 74.8 فیصد کم رہی۔ اس تناظر میں معیشت کے حوالے سے حکومتی پالیسی اور سنجیدگی خوش کن اعداد و شمار، جھانسہ اور خود فریبی کا مجموعہ نظر آتی ہے۔
بد قسمتی سے ماضی کے ہر دور حکومت میں عوام کو گمراہ کن اعداد و شمار اور دلفریب وعدوں سے خوشحالی کی نوید دینے والے حکمران اپنی اپنی باری لگا کر آتے جاتے رہے۔ اقتدار میں آنے والی حکومت سابقہ حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہراتی رہی اور عوام کو دلاسوں، جھوٹے وعدوں اور تسلیوں سے بہلا کر معاشی انقلاب کی خوشخبری سناتی رہی۔ خوش کن اعداد و شمار اور زبانی جمع خرچ کا یہ گورکھ دھندا چلتا رہا‘ اور عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرف جھانسہ ہی جھانسہ نظر آتا ہے‘ بلکہ یہ کہنا بھی قطعی بے جا نہ ہو گا کہ ہر حکومت معیشت کی ہانڈی میں آلو مٹر ڈال کر ابالے پہ ابالا دیتی رہی‘ اور عوام کو یہ بتایا جاتا رہا کہ قورمہ اور بریانی تیار ہو رہی ہے۔ بریانی اور قورمہ تو خیر کیا تیار ہوتا‘ آلو مٹر کے ساتھ ساتھ ''معاشی کچن‘‘ میں موجود خام مال سمیت اور جو کچھ تھا‘ خود ہی چٹ کر گئے۔ یعنی دھوکا اور جھانسہ ہی ہر حکومت کا نصب العین رہا۔
سٹیٹ بینک کی طرف سے بیرونی سرمایہ کاری میں تشویشناک کمی کا رونا تو ایک طرف‘ حکومتی پالیسیوں نے مقامی اور ملکی سرمایہ کاری میں کون سے چار چاند لگا دیے ہیں؟ تا حد نظر اجاڑے ہی اجاڑے... تباہی اور بد حالی کا ایسا ایسا منظر جا بجا نظر آتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی اور سنجیدگی کے بارے میں بات کرنے کے لیے یہ کالم شاید ناکافی ہو گا۔ آئندہ کالم میں ایک تحقیقی جائزہ پیش کروں گا‘ جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکے گا کہ حکومت سرمایہ کاری اور عام آدمی کی معاشی حالت سدھارنے کے لیے کتنی سنجیدہ اور مخلص ہے؟ فی الحال آوارہ خیالی اور معاشی بد حالی کی جا بجا بکھری ہوئی مثالوں اور اقتصادی چیمپئنز کا منہ چڑاتی عام آدمی کی حالت زار اور بے بسی گوش گزار کرنا مقصود ہے۔ سنگین ترین معاشی صورتحال اور عوام کی بد حالی کی عکاسی کے لیے چند ضروری تبدیلیوں کے ساتھ چند اشعار کی پیروڈی پیش نظر ہے۔
نخل ممنوعہ کے رخ دوبارہ گیا‘ میں تو مارا گیا
پھر سے جھانسہ وہی دہرایا گیا‘ میں تو مارا گیا
جو کہا تھا الیکشن میں وہ اور تھا‘ زندگی اور ہے
میرا ایمان سارے کا سارا گیا‘ میں تو مارا گیا
مجھ کو گھیرا ہے طوفان نے اس قدر‘ کچھ نہ آئے نظر
میری کشتی گئی یا کنارہ گیا‘ میں تو مارا گیا
تبدیلی گلے پڑ گئی، زندگی بجھ گئی
ٹیکس کے کھیل میں کیا تمھارا گیا‘ میں تو مارا گیا
قارئین! اب چلتے ہیں ذرا وزیر خزانہ اور تحریک انصاف کے اقتصادی چیمپئن اسد عمر کی طرف۔ ان کا تازہ ترین بیان ہے کہ مشکل وقت ضرور ہے لیکن عوام کی چیخیں نہیں نکلیں گی۔ اب ان کے اس بیان اور ویژن پر کیا بات کی جائے... عوام کی چیخیں تو نکل چکیں۔ اس سے پہلے کہ یہ چیخیں حکمرانوں پر قرض بن جائیں‘ اور عوام یہ قرض سود سمیت طلب کر لیں۔ اسد عمر صاحب کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ان کے تمام مشاہدے، اندازے اور دعوے غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ وہ جن امور پر کمال مہارت اور قابلیت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے اقتدار میں آنے کے بعد آج وہی ان کے لئے مسئلہ بن چکے ہیں۔ انھیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ معاشی بدحالی کی وجوہات اور حکومتی اہداف کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور انھیں یہ بتانا چاہئے کہ عوام کو کب تک اس صورتحال کا شکار رہنا ہو گا‘ اور کب تک حالات حکومتی کنٹرول میں آ سکیں گے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو راہ فرار ترک کرکے انھیں اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس ذمہ داری سے خود ہی معذرت کر لینی چاہیے‘ کیونکہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ سچ کو جاننے‘ ماننے اور تسلیم کیے بغیر کام نہیں چلے گا۔