"AAC" (space) message & send to 7575

تمہی نے درد دیا ہے… تمہی دوا دینا

وزیراعظم کے اظہارِ ناراضی اور مداخلت کے بعد وزیراعلیٰ‘ وزرا اور سپیکر سمیت تمام ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے مطالبے سے حکومت پنجاب دستبردار ہو چکی ہے جبکہ صوبائی اینٹی کرپشن محکموں کے اختیارات بند کرنے پر بھی وزیراعظم کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور وفاقی سروس سے تعلق رکھنے والے افسران کو دیا گیا تحفظ واپس لے لیا گیا ہے۔ اب وہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر دیگر افسران وملازمین کی طرح یکساں طو رپر جوابدہ ہوں گے۔وزیراعظم اگر ان حالیہ اور تازہ ترین واقعات کا بروقت نوٹس نہ لیتے تو تحریک انصاف کے ویژن اور عزم دونوں ہی کی ایک اور نفی یقینی تھی ۔
وزیراعظم جو امیدیں اپنے ''وسیم اکرم‘‘ سے لگائے بیٹھے ہیں وہ بتدریج خواب و خیال بنتی چلی جارہی ہیں۔ ان کی خواہشات پر مبنی تمام تر تمنائیں وزیراعلیٰ کے لیے بھی روزایک نیا امتحان لیے ہوئے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ کا یہ امتحان آہستہ آہستہ وزیراعظم کے لیے کڑی آزمائش بنتا چلا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے انتخابات میں کامیابی کے بعد پنجاب میں حکومت سازی کے حوالے سے خاصا تجسس پیدا کیے رکھا تھا۔ اپنے انتہائی قریبی اور معتبر ساتھیوں کو بھی تخت پنجاب کے بارے میں اپنے فیصلے سے آخری وقت تک لاعلم رکھا اور پھر طویل انتظار کے بعد قرعہ سردار عثمان بزدار کے نام نکال ڈالا۔ اس غیر متوقع اور حیران کن فیصلے نے کتنوں کے ارمان کا گلا گھونٹا اور کتنوں کی طویل ترین جدوجہد‘ ریاضت اور قربانیوں کو خاک میں ملا ڈالا... یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ 
وزیراعظم نے عثمان بزدار کو ایک ایسی شخصیت بنا کر پیش کیا گویا گدڑی سے ''لعل‘‘ نکال لائے ہوں۔ ایسا ماحول بنایا گیا کہ یہی ہیں جو پنجاب کے عوام کی نہ صرف تقدیر بدل کر رکھ دیں گے بلکہ طرزِ حکمرانی میں بھی انقلاب برپا کر دیں گے۔ وزیراعظم نے عثمان بزدار کے بارے میں متعدد بار عوام کو یہ بھی بتلایا کہ وہ بہترین وزیراعلیٰ ثابت ہوں گے۔ وہ ناجائز قبضے نہیں کروائیں گے... وہ شوگر ملیں نہیں لگائیں گے... وہ بینکوں سے قرضے نہیں لیں گے... وہ پنجاب میں بہترین ہسپتال بنائیں گے... وہ اپنے بچوں اور عزیزاقارب کو ارب پتی نہیں بنائیں گے... پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ غریبوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کا جینا اور مرنا پاکستان کے لیے ہے۔ گویا اگر کسی اور کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جاتا تو وہ تحریک انصاف کے ویژن اور مطلوبہ معیار پر پورا نہ اتر پاتا اور پورے پنجاب پر قبضہ مافیا کا راج ہوتا... ہسپتالوں کی حالتِ زار ناقابلِ بیان ہوتی... اقربا پروری اپنے عروج پر ہوتی... بینکوں سے قرضوں کا حصول جاری ہوتا... دھڑادھڑ شوگر ملیں لگ رہی ہوتیں۔ وزیراعظم نے عثمان بزدار صاحب کو اپنے معیار اور ویژن کے عین مطابق قرار دیا اور اس امید کے ساتھ انہیں پنجاب کی حکمرانی سونپی گئی کہ عوام سکھ واطمینان کا سانس لیں گے اور چین کی بانسری بجایا کریں گے۔مگر جن توقعات اور اعلیٰ صفات کے پیش نظر انہیں تخت پنجاب سونپا وہ تو خیر کیا پوری ہوئیں خود تحریک انصاف دفاعی پوزیشن میں ضرور آچکی ہے۔ 
پنجاب میں گورننس اور دیگر انتظامی و سیاسی معاملات کا جو حشرنشر ہو رہا ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں... اتحادی تو اتحادی تحریک انصاف کے بعض وزرا اور ارکانِ اسمبلی کی کھینچا تانی اور پسند ناپسند کی خبریں بھی عام ہیں۔ وزرا اور ارکانِ اسمبلی اپنی نجی محفلوں میں اس صورتحال پر کھل کر اظہار خیال کرتے نظر آتے ہیں اور سرکاری طور پر آن ریکارڈ وزیر اعلیٰ کا دفاع کرنا اپنی مجبوری قرار دیتے ہیں۔مگر اس موافقت پر پارٹی میں بے چینی اوربددلی پیدا ہو رہی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے نظر آرہے ہیں کہ طویل جدوجہد‘ کامیاب انتخابی حکمت عملی اور ''کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ جوڑ کر تحریک انصاف کا کیا اس لیے اقتدار ملا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ ایک ایسی شخصیت کو دے دیا جائے جو قوتِ فیصلہ اور سیاسی و انتظامی صلاحیتوں سے بہرہ ور نہیں۔ تاحال تمام تر نتائج وزیراعظم کی تمناؤں‘ اُمیدوں اور توقعات کے برعکس ہی نکلے ہیں۔ اب وزیراعظم پر اندرونی و بیرونی دباؤ بدریج مطالبے میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے کہ: 
تمہی نے درد دیا ہے...تمہی دوا دینا
عوام کے مینڈیٹ کے جواب میں جو غیر مقبول اقدامات اب تک کیے گئے ہیں ا س کی قیمت کڑے فیصلوں کی صورت میں ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ مینڈیٹ کا حشرنشر تو جو ہواسو ہوا اب آنے والے وقت میں زمینی حقائق کے برعکس فیصلوں پر اصرار اور ضد عوامی حلقوں میں مزید بے چینی اور بداعتمادی کو ہوا دے سکتی ہے‘ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات اور وقت کی نزاکت کا احساس کیا جائے اور پنجاب کے عوام کو مزید آزمائش و مشکلات سے دوچار کرنے کے بجائے وہ فیصلے کیے جائیں دھرنوں اور انتخابی مہم کے دوران جن کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 
وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی خبریں اور ان کے متبادل اُمیدواروں کے نام بڑی تیزی سے گردش کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ فیصلہ ٹھوک بجا کرکرنا ہوگا۔ حالیہ انتخابات سے قبل ''بوئے سلطانی کے مارے‘‘ بھاگ کر تحریک انصاف کی ٹرین میں سوار ہونے والے کسی صورت تحریک انصاف کا ویژن اور فیس نہیں بن سکے۔ ان کا اپنا ایجنڈا ہے اور اسے ہی وہ مقدم سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے آنا جانا معمول کی بات ہے۔ وہ کسی کو چھوڑ کر آپ کے پاس آئے ضرور ہیں... کل آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جانا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ ان کا مسئلہ پارٹی نہیں... اقتدار ہے... وہ نظریات کے تحت نہیں بلکہ نظریۂ ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ کے پاس ہیں۔ ایک اور متوقع اُمیدوار جو وزیراعلیٰ بننے کی صورت میں حمزہ شہباز کو ''راس‘‘ آسکتے ہیں۔ اگر ''راس‘‘ آگئے تو تحریک انصاف کے ویژن اور ایجنڈے کے تکمیل کی ''آس‘‘ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ 
کالم کے آغاز میں جیسا ذکر کیا کہ وزیراعظم کی مداخلت اور ناراضگی کے بعد دو اہم حکومتی فیصلے ''ریورس‘‘ ہو چکے ہیں۔ چند مزید معاملات وزیراعظم کی خصوصی نظر اور ذاتی توجہ کے فوری طلبگار ہیں۔ 
٭حکومت پنجاب کے ایک ذیلی ادارے کے شو روم سے قانون اور ضابطے کے برعکس لاکھوں روپے کے فرنیچر کی خریداری کس کیلئے کی گئی اور وہ فرنیچر کہاں اور کس کے زیر استعمال ہے... اور اس فرنیچر کی قیمت کون اور کیسے ادا کریگا؟
٭بین الاقوامی آٹو موبائل کمپنی کی ڈیلرشپ کے حصول کے لیے سرکاری اثرورسوخ کون استعمال کر رہا ہے؟ 
٭کس کے قریبی رشتہ داروں اور عزیزوں کی اعلیٰ حکام سے خصوصی ملاقاتوں کا اہتمام سرکاری سطح پر کیا جاتا ہے؟
٭اپنے انتخابی حلقے میں قرض حسنہ کے نام طے شدہ قواعد و ضوابط کے برعکس کروڑوں روپے کے سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ کون کر رہا ہے؟
٭اپنے انتخابی حلقے میں لگژری سرکاری گاڑیوں کا غیر قانونی استعمال کون اور کس کی ایما پرکر رہا ہے؟ 
٭صوبہ پنجاب کی مخصوص ڈویژن میں درجہ چہارم سے لے کر اے سی تک تعیناتی اور تقرری کا ٹھیکہ کس کے پاس ہے؟
٭مخصوص حلیے اور منفرد لب و لہجے والے ملاقاتی کئی کئی شفٹوں میں کس اعلیٰ حکومتی شخصیت کو حصار میں لیے رہتے ہیں اور ان ملاقاتیوں کی آمد کا مقصد کیا ہوتاہے؟ 
یہ چند نمونے وزیراعظم کی توجہ اور مداخلت کے لیے پیش خدمت ہیں۔ وہ کسی بھی ذمہ دار ادارے سے تحقیقات کروانے کے بعد کسی بڑی واردات پر بندباندھ سکتے ہیں۔ صوبہ پنجاب خصوصاً لاہور کو شریف برادران کا ''لاڑکانہ‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انتظامی سمیت دیگر امور پر ان کی گرفت ناقابلِ تردید ہے۔ ایسے حالات میں وقت کا مزید ضیاع تحریک انصاف کی حکومت کے لیے نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں بددلی اور بداعتمادی کا باعث بن رہا ہے جسے دور کرنے کے لیے فوری اور مستقل فیصلے ناگزیر ہیں۔ فیصلے اور طرز حکمرانی ہی موافق اور ناموافق ہوتے ہیں... افراد اور شخصیات تو آتے جاتے رہتے ہیں... رہے نام اﷲ کا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں