ملائیشیا کے تاریخ ساز حکمران مہاتیر محمدمصروف ترین تین روزہ دورہ کے بعد واپس جاچکے ہیں اور جاتے جاتے وہ ایک کام کی بات کہہ گئے ہیں کہ ''قیادت کرپٹ نہیں ہونی چاہیے‘ ورنہ کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں‘‘مہاتیر محمد کی بات سولہ آنے نہیں‘ بلکہ سولہ سو آنے بالکل درست ہے۔کرپشن کے خلاف برسرپیکار حکومت کو ایک مہمان سربراہ مملکت کا گھر آکر ایسی بات کہہ جانا ایسا ہی ہے کہ ''بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رسوائی کی‘‘گویا وہ بھی بخوبی جانتے ہیںکہ ہمارا بنیادی مسئلہ اور اصل بیماری کیا ہے؟ 94سالہ عہد ساز شخصیت مہاتیر محمد کی طرف سے حکومت وقت کو دیے گئے اس مشورے اور نصیحت کو مزید آسان زبان میں بیان کرنا ہوکچھ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ع
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘باغ تو سارا جانے ہے
بدقسمتی سے ماضی میں ہمارا حکمران اور صاحب اختیار طبقہ کرپشن اور لوٹ مار کے کاربد پر ان طرح نازاں اور مطمئن رہا ہے کہ گویا کوئی بہت بڑی قومی خدمت سرانجام دے رہا ہو۔اپنے مفادات اور تحفظ کے گرد گھومتی پالیسیوں اور اقدامات کو عوام کی فلاح وبہبود سے منسلک کرکے اپنی اپنی باریاں لگاتے رہے۔ ایک دوسرے کوچور اور ڈاکو کہنے والے۔۔۔چور بھی کہے چور چور۔۔۔کا منظر پیش کرتے رہے۔ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن لوٹ مار‘ دھونس ‘ دھاندلی اور اقربا پروری کے خلاف تحریک انصاف نے آوازبلند کی تو ابتدائی ایام میں یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز دکھائی دیتی تھی اور پھر بتدریج یہ" آوازخلق" سے ہوتی ہوئی نقارہ خدا بن گئی۔اب یہ عالم ہے کہ ماضی کے طاقتور اور بااثر ترین حکمران آج عبرت‘ مکافات عمل اور بے بسی کی چلتی پھرتی مثالیں بن چکے ہیں۔
تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو وزیراعظم عمران خان کی پہلی تقریر سنتے ہی عوام جھوم اٹھے۔گویا‘آگیا وہ شاہکار‘ جس کا تھا انتظار۔اب راج کرے گی خلق خدا۔کرپشن ‘لوٹ مار‘اقربا پروری کی سیاہ دور کا خاتمہ ہوگا۔کم و بیش اسی طرح کے خوش کن خیالوں میں گھرے عوام وزیراعظم کی پہلی تقریر کو اس منزل کا نقطہ آغاز سمجھ بیٹھے جس کا خواب دھرنوں اور انتخابی مہم میںعوام کو تواتر سے دکھایا گیا تھا۔اور اب یہ عالم ہے کہ عوام کو دکھایا جانے والا وہ خواب بتدریج ایک جھانسہ بنتا چلا گیا ہے۔ گڈ گورننس اور بہترین طرز حکمرانی کے دعویداروں نے اپنے دور اقتدار کے ابتدائی چند ماہ میں ہی عوام کی خوش گمانیوں کا سارا نشہ ہوا کردیا اور دکھائے جانے والے تمام سنہری خواب چکنا چور کرڈالے۔ جس دور حکومت میں خلق خدا نے راج کرنا تھا‘ اس دور میں تھانہ‘ پٹوار اور ہسپتال سے لیکر ایوان اقتدار تک کچھ نہیں بدلا۔عوام کے لیے ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے سارے منظر جوں کے توں ہیں‘ بلکہ گورننس اورطرز حکمرانی نے کئی مقامات پر تو بے اختیار یہ کہنے پر بھی مجبور کرڈالا کہ
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
یعنی ہائی سپیڈ اور انتھک وزیراعلیٰ کا ریکارڈ توڑنے کے لیے سردار عثمان بزدار کو پنجاب کی حکمرانی سونپ کروزیراعظم نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔عوام تحریک انصاف کو مینڈیٹ دینے کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ تجاوزات سے لیکر احتساب تک سب تماشہ بن چکا ہے۔معیشت سے لیکر عوام کی قسمت تک ‘سب پر جمود طاری ہے۔سیاسی اشرافیہ ہو یا افسر شاہی‘کرپشن اور لوٹ مار کی داستانوں پر مشتمل فائلوں کے انبار نظر آرہے ہیں۔ ایسی سنسنی اور تجسس پھیلایا جا چکا ہے گویا لوٹ مار کرنے والے بس اپنے انجام کو پہنچنے ہی والے ہیں۔قانون پوری طرح حرکت میں آچکا ہے‘ جلد ہی ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے کا حصہ بننے والی ہے۔پریس کانفرنسز اور ٹاک شوز میںانتہائی پکے منہ اور ڈھٹائی سے کرپشن کے خلاف انقلابی اقدامات اور احتساب کی باتیں جاری ہیں۔ دلفریب دعووں اور وعدوں سے عوام کو مسلسل بہلایا جارہا ہے۔ اور نتیجہ یہ کہ ہر روز ایک نئی منطق ‘ایک نیا عذر اور ہر بار ایک نیا بہانہ تیار ہوتا ہے۔احتساب کی کہانی کتنے موڑ کھاچکی ہے اور ابھی کتنے موڑ باقی ہیں۔کتنے جھانسے اور دھوکے باقی ہیں‘جو عوام نے ابھی کھانے ہیں۔۔۔خدا جانے۔۔۔!
احتساب کے نام پر تحقیقات ‘گرفتاریوں‘ تفتیش اور ٹرائل کے باوجود مطلوبہ اہداف کا حصول اور ریکوریاں خواب و خیال بن چکی ہیں۔عجیب نظام ہے‘کمال احتساب ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹ کیس کے ریکارڈ سے تین ہزار صفحات غائب ہوچکے ہیں۔ایک نہیں‘دو نہیں‘تین نہیں‘پورے تین ہزارصفحات چھو منتر ہوگئے۔تحقیق اور تفتیش پر مبنی تین سطریں ہی کیس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔یہاں تو تین ہزار صفحات اڑا لیے گئے اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ یہ مجرمانہ غفلت ہے یا ملزمان کی سہولت کاری؟دونوں صورتوں میں ذمہ داروں کا تعین میں تاخیر ناقابل فہم اور تعجب انگیز ہے۔ احتساب کی بھول بھلیوں میں الجھا کر عوام کو ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے‘ جس کی سمت اور منزل کے بارے میں کچھ بھی کہنا نا امیدی اور بے یقینی کے تاثر کی تقویت کا باعث بن سکتا ہے۔احتساب میں حکومت کس قدر سنجیدہ اور مخلص ہے؟ اس کا اندازہ چند قابل ذکر کیسوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔کمزور استغاثہ۔۔۔ناقص ترین تفتیش۔۔۔ پراسیکیوشن کا ثانوی سے بھی کم کردار اور غیر سنجیدہ رویہ پر مبنی بنائے گئے کیسز کا انجام کیا ہوگا؟یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں؛اکثر کیسز میں ان حکومتی کمزوریوں اور نقائص کے اشارے کھل کر سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ عدالتوں سے ملزموں کو ریلیف ملنا بھی کمزور استغاثہ اور ناقص تفتیش کی ہی نشاندہی کرتا ہے۔تحقیق اور تفتیش پر اٹھنے والے سوالات کا ذمہ دار کون ہے؟ بے پناہ حکومتی وسائل کے باوجود مطلوبہ اہداف میں ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ نامعلوم انجام اور نامعلوم فیصلے کی بنیاد پر قائم کیے گئے ان کیسوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کا حساب کون دے گا؟ سرکاری خزانے پر بوجھ ڈال کر بنائے گئے ان مہنگے ترین کیسوں کے ملزمان کہیں سستے نہ چھوٹ جائیں۔جن کے واضح اشارے نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔اکثر کیسز میںتحقیق‘ گرفتاری اور تفتیش کے باوجوداحتسابی ادارے تاحال ''کھوبوں‘‘میں ہی زور لگاتے نظر آرہے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پہلا از خود نوٹس لے کر بریگیڈئیر ریٹائرڈ اسد منیر کی مبینہ خودکشی سے قبل لکھے گئے خط پر جسٹس ریٹائر جاوید اقبال سے رپورٹ طلب کرلی ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر جس پرمرضی الزام لگا دینا اور پھر اسی سے اس کی بے گناہی کا ثبوت مانگنا۔یہ کہاں کا انصاف اور کیسا احتساب ہے۔گزشتہ چند ماہ میں گرفتار ہونے والے اہم سیاستدانوں اور اعلیٰ افسران کی گرفتاری کے بعد استغاثہ کی کمزوری کے ساتھ ساتھ ناقص تفتیش اور غیر موثر پراسیکیوشن ثابت ہوچکی ہے؛ اگر یہی صورتحال کچھ عرصہ اور جاری رہی تو احتساب کا لفظ تماشے کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے طعنہ بن کر رہ جائے گا۔ان کمزوریوں اور نقائص پر فوری توجہ وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ویسے بھی برسراقتدار آنے سے پہلے عوام سے اس قدر وعدے اور دعوے کیے گئے اور ایسے ایسے خواب دکھائے گئے ۔ایسی ایسی بشارتیں دی گئیںکہ اگر ان کا چند فیصد بھی سچ ہوجاتا توآج حالات اور نتائج قدرے مختلف اور حوصلہ افزا ہوتے۔ الغرض حکومتی صفوں میں کرپشن کے حوالے سے رنگ برنگی اور نت نئی خبریںآنا شروع ہوگئی ہیں ۔ایسی باتیں کب چھپتی ہیںاور کس کی چھپی ہیں؟خوشبو ہو یا بدبو‘اڑ کر ہر سو پھیل جاتی ہے۔خبر اچھی ہو یا بری‘آخر کار باہرنکل ہی جاتی ہے۔ماضی کے بڑے منظم اور پکے کاریگروں کی خبریں زبان زد عام ہونے کے بعد سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں اور آج وہ مکافات عمل اور عبرت کی چلتی پھرتی مثالیں بن چکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان پنجاب میں اپنے نائب اور امیدوں کے محور کے بارے میں گردش کرنے والی خبروں کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور کسی ذمہ دار ادارے سے اس بات کی تحقیق کروائیں کہ ان کے قریب ترین رشتہ دار اور عزیز وں کی اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کا اہتمام سرکاری سطح پر کیوں کیا جاتا ہے؟ سرکاری فنڈز سے قرض ِ حسنہ کے نام پر اپنے انتخابی حلقہ میں کروڑوں کی بندر بانٹ اور لگژری سرکاری گاڑیوں کا ناجائز استعمال کون کررہا ہے؟بین الاقوامی آٹو موبائل کمپنی کی ڈیلرشپ کے حصول کے لیے سرکاری مشینری کا اثر ورسوخ کون استعمال کررہا ہے اور اسی کمپنی کے شوروم سے منگوایا جانے والا لاکھوں روپے کا فرنیچر کہاں ہے اور اس کی ادائیگی کون کرے گا؟
ویسے بھی جاتے جاتے مہاتیر محمد وزیراعظم کو ایک پتے کی بات بتا گئے ہیںکہ کرپشن سے پاک قیادت کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔مشورہ ماننے یا نہ ماننے کا اختیار وزیراعظم عمران خان صاحب کے اپنے ہاتھ میں ہے۔