حکومت کے سقراطوں اور بقراطوں نے ملکی معیشت کو ''ریسکیو‘‘ کرنے کے لیے ''ہیڈز اَپ‘‘ کر کے وہ سارے اقدامات کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جن کا ذکر بھی سننا انہیں گوارا نہ تھا۔ وہ ان سارے اقدامات سے ایسے گھن کھاتے تھے گویا مر جائیں گے لیکن ایسا ہرگز نہیں کریں جو ماضی کے حکمران کرتے رہے ہیں۔ شریف برادران اور زرداری اینڈ کمپنی کی جن اقتصادی پالیسیوں کو تحریک انصاف ملک و قوم کے لیے زہر قاتل قرار دیتی رہی ہے آج وہی سب دہرانے کو تیار ہیں... بڑے بول اور بلند و بانگ دعوؤں پر مبنی سارے بیانیے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے... آٹھ ماہ قوم کو مہنگائی اور گرانی کے عذابِ مسلسل سے دوچار کر کے وہی سب کچھ کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے جو ماضی کے ہر دور میں رائج تھا ؎
ذکر سے جن حادثوں کے سانس رکتی تھی کبھی
وقت کی مجبوریوں میں سب گوارا ہوگئے
برسرِ اقتدار آنے سے قبل تحریک انصاف کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ عمران خان کے پاس ماہرین کی ایک ٹیم موجود ہے جو برسرِ اقتدار آتے ہی نہ صرف ملک و قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دے گی بلکہ ان تمام مسائل اور چیلنجز سے بھی بخوبی نبردآزما ہو سکے گی‘ جو عوام کے لیے جونک بنے ہوئے ہیں۔ خصوصاًمعیشت کی بحالی اور استحکام کے حوالے سے عوام امیدوں کے جو چراغ جلائے بیٹھے تھے وہ ایک ایک کر کے بجھتے چلے جارہے ہیں اور اب یہ عالم ہے کہ ناامیدی‘ مایوسی اور غیر یقینی صورتحال عوام کو ہلکان اور بے حال کیے ہوئے ہے۔ صفر تیاری کے ساتھ برسرِ اقتدار آنے والی تحریک انصاف نے چند ماہ ہی میں ثابت کر دیا کہ دھرنا اور انتخابی مہم میں دئیے جانے والے بھاشن اور بلند بانگ دعوؤںکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ سب جھانسے اور دلاسے ہی تھے۔
ملک کی معاشی صورتحال اور روزبروز بڑھتی مہنگائی اور بدحالی پر وزیرخزانہ اسد عمر مسلسل راہِ فرار اختیار کیے رہے ہیں ۔ انہیں اب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ان کے تمام مشاہدے ‘اندازے اور دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔وہ جن امور پرکمال مہارت اور قابلیت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے اقتدار میں آنے کے بعد آج وہی ان کے گلے کا طوق بن گئے ہیں اور یہ بات روز ِروشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ حکومتی اقتصادی چیمپئن کی تیاری صفر اور اہلیت نامعلوم ہے۔ نتیجہ یہ کہ آج وہ سارے ''آپشنز‘‘ اختیار کرنے پر مجبور ہیں جنہیں وہ ملکی وقار کے منافی اور معیشت کے لیے ناقابل عمل اور زہر قرار دیتے تھے۔ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو آٹھ ماہ روپے کی بے قدری کر کے اسے ''ٹکے ٹوکری‘‘ کیوں کیا گیا؟ان آٹھ ماہ میں بے تحاشا مہنگائی‘ گرانی اور بدحالی کے نتیجے میں نکلنے والی عوام کی چیخوں کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر سابقہ حکومتوں کے آپشنزہی اختیار کرنا تھے تو آپ کس مرض کی دوا ہیں؟ آپ کے وہ معاشی ٹوٹکے اور انقلابی دعوے کہاں کھو گئے؟آپ نے دودھ اور شہد کی جو نہریں بہانی تھیں وہ کہاں رہ گئیں؟ دھرنوں اور انتخابی مہم میں جس معاشی آسودگی اور اقتصادی اصلاحات کا ڈنکا بجایا گیا تھا وہ کیوں پورا نہ ہوسکا؟ جس مقصد کے لیے عوام نے ''مینڈیٹ‘‘ دیا تھا اس کا حصول کیوں نہ ہوسکا؟ اب وقت آن پہنچا ہے کہ سچ کو جانے‘ مانے اور تسلیم کیے بغیر گزارا نہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ مطلوبہ بنیادی علوم سے نابلد وزیر عوام کو آٹھ ماہ تک بھول بھلیوں میں ہی گماتے رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری معیشت خوش کن اعداد وشمار اور خودفریبی کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ ہر دور حکومت میں عوام کو گمراہ کن اعدادوشمار اور دلفریب وعدوں سے خوشحالی کی نوید دے کر حکمران آتے جاتے رہے۔ اقتدار میں آنے والی حکومت سابقہ حکومت کو ہی موردِالزام ٹھہراتی رہی اورعوام کو دلاسوں‘ جھوٹے وعدوں اور تسلیوں سے بہلا کر معاشی انقلاب کی خوشخبری سنائی جاتی رہی۔خوش کن اعداد وشمار اورزبانی جمع خرچ کا یہ گورکھ دھندہ چلتا رہا اور عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرف جھانسہ ہی جھانسہ نظر آتا ہے‘بلکہ یہ کہنا بھی قطعی بے جا نہ ہوگا کہ ہر حکومت معیشت کی ہانڈی میں آلو مٹر ڈال کر ابالے پہ ابالا دیتی رہی اور عوام کو یہی بتایا جاتا رہا کہ قورمہ اور بریانی تیار ہورہی ہے۔بریانی اور قورمہ تو خیر کیا تیار ہوتاآلو مٹر کے ساتھ ساتھ''معاشی کچن‘‘میں موجود خام مال سمیت اور جو کچھ تھا خود ہی چٹ کرگئے‘یعنی دھوکہ اور جھانسہ ماضی کی ہر حکومت کا نصب العین رہا۔
ایک ناقابلِ تردید اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وطن عزیز پر حکمرانی کی تین تین باریاں لے چکی ہیں اور اپنے اللوں تللوں کے لیے جو غیر معمولی قرضے وطن عزیز پر چڑھائے گئے آج وہی قرضے ملک و قوم کے لیے وبال بنے ہوئے ہیں۔ قرضے لینے والے تو خیر کچھ تو پسِ زنداں ہیں اور کچھ اپنے انجام کی جانب عازم سفر ہیں‘لیکن ان قرضوں کا بوجھ تو اس قوم پر جوں کا توں ہے۔ حکومتی خزانوں پر ڈاکے پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔مال مفت دل بے رحم کے مصداق ملکی دولت اور وسائل کو بے دردی اور انتہائی سفاکی سے لوٹا گیا ہے۔یہاں توکسی دکان یا گھر پر ڈاکہ پڑ جائے تو متاثرین کوکئی سال ہوش نہیں آتی لیکن یہاں تو پورے کا پورا ملک ہی لوٹ لیا گیا ہے۔ریسکیومیں وقت کا لگنایقینا فطری امر ہے۔عوا م کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا اور اعتماد میں لینا حکومتی ذمہ داری تھی اس کے برعکس جھوٹے وعدوں‘ تسلیوں اور دلاسوں سے عوام کو آٹھ ماہ تک بے وقوف بنائے رکھا گیا اور اب ناخوب کو خوب بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔
قارئین! معاشی خشک سالی اور بدحالی کے اس عالم میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا غنیمت ہے۔ 22کمپنیوں کے 29کاروباری اداروں پر مشتمل ایک فرانسیسی وفد سرمایہ کاری کی غرض سے چار روزہ دورہ پر پاکستان پہنچ چکا ہے۔ اسلام آباد میں صنعت و تجارت کے نمائندوں سے کامیاب مذاکرات کے بعد اور لاہور میں بھرپور دن گزارنے کے بعد اگلے روز وہ کراچی میں صنعت و تجارت میں تعاون کے فروغ کے حوالے سے اہم اجلاسوں میں شرکت کرے گا۔ اس فرانسیسی وفد کا پاکستان کے تین اہم شہروں کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ پاکستان اور فرانس کے درمیان تجارت کو فروغ ملے گا اور پاکستان میں فرانسیسی سرمایہ کاری کی راہیں ہموار ہوں گی۔ اس فرانسیسی وفد کو پاکستان لانے اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے مفید اجلاس منعقد کروانے کا سہرا فرانس میں تعینات کمرشل قونصلر ڈاکٹر معین احمد وانی کو جاتا ہے۔ دیگر پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات کمرشل قونصلرز اسی نوعیت کے صنعتی و تجارتی وفود کو پاکستان آنے کی ترغیب دیں تو غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔
آخر میں چند اہم خبریں قارئین سے شیئر کرتا چلوں... ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے گزشتہ 40 سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا ہے۔ روٹی اور دیگر اشیائے ضروریہ سے تنگ عوام اب ادویات خریدنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں لیکن تبدیلی کی سونامی پر سوار حکمرانوں کو کیا معلوم... بیماروں پہ کیا گزری ہے؟ نیب اپنے اہداف کی گرفتاریوں کے لیے سرگرم اور کوشاں ہے جبکہ گرفتاری سے بچنے کے لیے بھاگے پھرنے والے اپنی پیش بندیاں کر رہے ہیں۔ ایک جانب حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں توسیع مل چکی ہے‘ جبکہ دوسری جانب آصف علی زرداری نے اپنی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر اپنی صاحبزادی آصفہ بھٹو کو ''الرٹ‘‘ کر دیا ہے۔ وہ اپنے والد کی گرفتاری کی صورت میں سندھ بھر میں عوامی رابطہ مہم چلائیں گی اور ریلیوں کی قیادت کریں گی۔ وزیراعظم کے مشیر نعیم الحق نے کہا ہے کہ پنجاب میں سالِ رواں ہی میں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے۔ عوام تو ابھی پچھلے مینڈیٹ کے پچھتاوے سے باہر نہیں آپارہے‘ خدا جانے وہ کونسی کارکردگی ہے جس کی بنا پر نعیم الحق بلدیاتی الیکشن کا اشارہ دے رہے ہیں۔