وطن عزیز کے سپہ سالار جنرل باجوہ نے کہا ہے کہ اپنے شہدا کو فراموش کرنے والی قومیں مٹ جایا کرتی ہیں۔ یقینا ہمارے شہدا اور غازی ہی ہمارے اصلی ہیرو ہیں۔ ملک و قوم کی سلامتی کے لیے جان کی قربانی سے بڑھ کر اس ارضِ پاک کی مٹی کی قیمت اور کیا ہو گی۔ محاذ اندرونی ہو یا بیرونی... زلزلہ ہو یا سیلاب... ضرب عضب ہو یا ردّالفساد... دشمن اندر چھپا بیٹھا ہو یا سرحد پار... قدرتی آفت ہو یا کوئی حادثہ... سیاسی بحران ہو یا اقتصادی... محاذ سفارتی ہو یا داخلی... سول حکومت کو درپیش تمام چیلنجز اور مسائل میں ہر لمحہ‘ قدم بہ قدم... شانہ بشانہ بیڑا تو فوج نے ہی اُٹھا رکھا ہے۔ جنرل باجوہ صاحب کی یہ بات قوم بخوبی سمجھتی ہے اور اپنے شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
سپہ سالار اگر حکومت کو بھی یہ باور کروا دیں کہ جس طرح شہدا کو بھولنے والی قومیں مٹ جایا کرتی ہیں‘ اسی طرح اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو بھول جانے والی حکومتیں بھی زیادہ دیر نہیں ٹھہر پاتیں‘ تو مہربانی ہو گی۔ ایسی حکومتیں ایوانِ اقتدار سے ہی نہیں بلکہ عوام کے دلوں سے بھی ایسے رخصت ہو جاتی ہیں‘ جیسے کبھی آئی ہی نہ ہوں۔ زیادہ دور نہ جائیے‘ ماضی کی چند دہائیوں کا ہی جائزہ لے لیں تو ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسی حکومت‘ کوئی ایسا رہنما نہیں جو برسرِ اقتدار رہا ہو اور آج بھی عوام کے دلوں میں بستا ہو۔ بلند بانگ دعووں، وعدوں اور قسموں کے ساتھ برسرِ اقتدار آنے والے عوام سے بد عہدی اور بے وفائی سمیت دیگر سنگین اور رنگین الزامات کے طوق لے کر اپنی اپنی باری لگانے کے بعد اپنا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
اب یہ عالم ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے بھی صرف آٹھ ماہ کی قلیل ترین مدت میں سابقہ حکومتوں کے نہ صرف سارے ریکارڈ توڑ ڈالے بلکہ بد عہدی، بے وفائی اور بد ترین طرزِ حکمرانی کے نئے ریکارڈ بھی بنا ڈالے ہیں۔ ادویات سے لے کر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں تک‘ علاج معالجہ سے لے کر تعلیم تک‘ شہری سہولیات سے لے کر امن و امان تک‘ سرکار اور گورننس کہاں نظر آتی ہے؟ خدا جانے جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں کو بنیادی جمہوریت سے کیا خوف اور عناد ہے؟ باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں، عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر انہی کے نمائندوں کے ذریعے حل کرنے کے بھاشن دیتے ہیں‘ لیکن ریکارڈ یہ ہے کہ حکمران سابقہ ہوں یا موجودہ‘ سب ہی ان اداروں سے خائف اور شاکی نظر آتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو ڈکٹیٹر کہنے والے جمہوریت کے علمبردار سیاستدانوں کے ریکارڈ کے درستی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اپنے نو سالہ اقتدار میں انہوں نے دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات بروقت کروائے۔ بااختیار بلدیاتی اداروں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دینے کا کریڈٹ بھی جنرل پرویز مشرف کو ہی جاتا ہے۔
آئیے بلدیاتی اداروں سے خائف جمہوریت کے علمبرداروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 2008ء میں مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں برسر اقتدار آکر سات سال تک حیلے بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کا راستہ روکے رکھا۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کئی بار بلدیاتی انتخابات کا شیڈول بھی جاری کیا‘ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور سکیورٹی کی رقم بھی وصول کی گئی لیکن انتخابات کروانے کا حوصلہ نہ کر سکے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت اور حکم پر مجبوراً 2015ء میں شہباز شریف کو بلدیاتی انتخابات کروانا پڑے۔ انتخابات تو ہو گئے لیکن ایک سال تک حکومت منتخب نمائندوں کی حلف برداری سے بھاگتی رہی۔ بالآخر مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق دسمبر 2016ء میں منتخب نمائندوں کی حلف برداری ہوئی‘ پھر میئرز اور ضلعی چیئرمینوں کا انتخاب اور ان کی حلف برداری کا عمل مکمل ہوا اور اس طرح ایک لولا لنگڑا‘ غیرفعال اور بیوروکریسی کا مرہون منت نیا بلدیاتی نظام دے کر پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کی اور آئین اور قانون کی پاسداری کی چیمپئن شپ جیت لی۔یہاں بھی بدنیتی جاری رہی‘ ضلعی میئرز اور چیئرمینوں کے دائرہ اختیار سے وہ تمام محکمے خارج کر دیے گئے جن کا تعلق براہ راست شہری سہولیات اور محصولات سے تھا۔ مذکورہ محکموں پر حکومت پنجاب نے اپنے کنٹرول اور حکمرانی کو برقرار رکھا‘ اور اس طرح بیوروکریسی اس بلدیاتی نظام میں بااختیار جبکہ منتخب عوامی نمائندے غیر معتبر ٹھہرے۔ مالی اور انتظامی طور پر غیرمستحکم اور غیرفعال بلدیاتی ادارے منتخب نمائندوں کو دے کر حکومت نے بنیادی جمہوریت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا‘ جس پر وہ آج تک شرمندہ بھی نہیں۔
سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی اس واردات پر تحریک انصاف نے خوب سیاست کی۔ یہ دعویٰ اور وعدہ بھی کیا گیا کہ پی ٹی آئی برسر اقتدار آکر بلدیاتی اداروں کو ان کا حقیقی کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع دے گی جبکہ پی ٹی آئی کا یہ انتخابی منشور بھی تھا کہ ارکان اسمبلی صرف قانون اور پالیسی سازی پر کام کریں گے‘ شہری سہولیات اور ترقیاتی کاموں سے متعلق تمام اختیارات بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کردیے جائیں گے‘ لیکن کامیابی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی سابقہ حکومت کی روش کو برقرار رکھا اور ان بلدیاتی اداروں کو اپنے لیے ایک چیلنج تصور کرتے ہوئے ان کی تسخیر کیلئے کافی تگ ودو کی۔ پنجاب اسمبلی میں مطلوبہ تعداد نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام تاحال نہیں ہو سکا۔ ایک بار پھر پینترا بدلا گیا ہے کہ بلدیاتی نظام میں اصلاحات پر زوروشور سے کام شروع کر دیا گیا ہے۔
سابق صوبائی وزیر بلدیات عبدالعلیم خان کو یہ ٹاسک سونپا گیا تھا کہ بلدیاتی نظام میں اصلاحات اور موجود ہ اداروں سے چھٹکارہ کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے؟ حکومت کے بلدیاتی اداروں سے اس تعصب اور عناد کے پیش نظر پنجاب بھر کے میئرز اور چیئرمین ضلع کونسلز میں اکٹھے ہوئے۔ لاہور، ملتان، راولپنڈی، اسلام آباد اور بہاولپور میں کئی اجلاس منعقد کیے گئے۔ میئرز کانفرنسز منعقد ہوئیں اور مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا کہ ''ہم سب وسیع تر ملکی اور قومی مفاد کے پیش نظر پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون اور ملکی تعمیر و ترقی کا حصہ بننا چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ میئر کسی پارٹی یا خاص گروہ کا نہیں ہوتا بلکہ پورے شہر کا ہوتا ہے۔ جسے ''فادر آف سٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے شہر کی عوام میں کس طرح امتیاز اور تفریق کر سکتا ہے؟ اور حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ تعصب کی عینک اتار پھینکے‘ ہم پر اعتماد کرے‘ ہم حکومت کے شانہ بشانہ اس کی پالیسیوں اور ترجیحات کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔
حکومت اپنی ضد پر قائم رہی اور اصلاحات کے نام پر بلدیاتی اداروں کو تاحال غیر فعال اور غیر متحرک ہی رکھا ہوا ہے۔ اس دوران اگر کسی میئر یا ضلعی چیئرمین نے زیر التوا ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے کا ارادہ ظاہر بھی کیا تو اسے انتقامی کارروائی، اینٹی کرپشن اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر ستم یہ کہ کمشنرز، ڈپٹی کمشنر اور آر پی اوز کو بھی ''اشارہ‘‘ کر دیا گیا کہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کے لیے ہر قسم کا تعاون اور ریلیف ممنوع ہے۔ اب تحریک انصاف بلدیاتی اصلاحات اور انتخابات کا اعلان کر چکی ہے اور جیتی ہوئی جنگ از سر نو جیتنے کے لیے صفر کارکردگی اور صفر تیاری کے ساتھ میدان سجانے جا رہی ہے۔
یہ امتیازی پالیسی صرف صوبہ پنجاب کے لیے ہی کیوں ہے؟ جبکہ خیبر پختون خوا، سندھ اور بلوچستان کے بلدیاتی ادارے شیڈول اور معمول کے مطابق اپنے اپنے امور سرانجام دے رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب پہلے ہی اعلیٰ سطح کے فیصلوں اور ترجیحات کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ سیاسی قیادت ہو یا انتظامی مشینری‘ ایک سے بڑھ کر ایک تحفہ عوام کو دیا جا چکا ہے۔ کوئی کسر باقی بچی ہے کہ اب نئے سرے سے بلدیاتی انتخابات کروا کے عوام کیلئے نئے ''تحائف‘‘ کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
آخر میں وطن عزیز کے سپہ سالار سے عرض ہے کہ یہ غیور اور باوفا قوم ہے، جو اپنے شہدا کو فراموش کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں کو اپنے سر کا تاج سمجھتی ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ حکمرانوں کواحساس دلایا جائے کہ جو حکمران قوم سے کیے گئے وعدے فراموش کر دیتے ہیں عوام کے دلوں سے ہی نہیں بلکہ تاریخ کے صفحات سے بھی ان کے نقوش مٹ جاتے ہیں۔ وزیراعظم سے کہیں کہ خدارا ''پنجاب تے ہتھ ہولا رکھو‘‘۔