تحریک انصاف کی حکومتی ترجیحات اور اہم انتظامی فیصلوں کے حوالے سے کئی مرتبہ عرض کر چکا ہوں کہ مردم شناسی اور ''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے تصور کو قائم رکھنا ہی حکمرانوں کا اصل کام ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ میں تحریک انصاف کے بیشتر اہم ترین فیصلے اور ان کے نتائج دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس دوائی تو موجود ہے لیکن وہ ترکیب استعمال سے ناواقف ہے۔ لگانے والی دوائی کھائی جا رہی ہے اور کھانے والی دوا مسلسل لگاتے چلے جارہے ہیں... نتیجہ یہ کہ یوٹرن کے بعد اب راؤنڈ اباؤٹ یعنی گول چکر کے گرد چکر پہ چکر کھانے شروع کر دئیے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ناقص کارکردگی اور مطلوبہ نتائج کی فراہمی میں ناکامی کا ذمہ دار بیوروکریسی کو ٹھہرانے کے بعد وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے۔ صرف آٹھ ماہ کے دوران تیسرے آئی جی پنجاب کی تعیناتی کر دی گئی ہے اور ''تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘ کے مصداق عارف نواز کو آئی جی پنجاب کی ذمہ داریاں دے دی گئی ہیں۔ وہ پہلے بھی اسی عہدہ پر تعینات رہ چکے ہیں۔ امید اور توقع ہے کہ وہ پنجاب پولیس میں ''چین آف کمانڈ‘‘ کے تصور کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ اُن ''سر چڑھے‘‘ عناصر کو بھی ''ڈی لفٹ‘‘ کریں گے جن کے آگے سابقہ آئی جی ''ہینڈز اَپ‘‘ اور ''سرنڈر‘‘ کر چکے تھے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مذکورہ عناصر نے ہی محکمہ پولیس میں پوسٹنگ‘ ٹرانسفرز بذریعہ ''ٹینڈر‘‘ کرنے کا نظام متعارف کروایا... مصلحتوں اور مجبوریوں کا یہ گٹھ جوڑ زیادہ دیر نہ چل سکا اور ''گجرنیٹ ورک‘‘ امجد سلیمی صاحب کے ''گوڈوںگٹّوں‘‘ میں بیٹھ گیا اور نتیجہ یہ کہ بطو رآئی جی سروس سے ریٹائر ہونے کی خواہش دل کی دل میں ہی رہ گئی۔
پنجاب سے رخصت ہونے والے آئی جی امجد جاوید سلیمی کے لیے ایک مشورہ پیش خدمت ہے کہ وہ سانحہ ساہیوال کے ناحق مارے جانے والوں کی قبروں پہ جاکر ضرور معافی مانگیں۔اس سے ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہوگا اور اﷲ بھی غلطی تسلیم کرکے معافی مانگنے والوں سے راضی ہوتا ہے ۔ انہیں چاہیے کہ وہ ہینڈ آؤٹ بھی واپس لینے کا اعلان کریں جو سانحہ ساہیوال کے فوری بعد انہوں نے جاری کروایا تھا‘ جس میں معصوم اور بے قصور خاندان کے قتل کے بعد موقع واردات سے خود کش جیکٹس اور دہشت گردی سے متعلق دیگر سامان کی برآمدگی کا انکشاف کر کے ناحق مارے جانے والے خاندان پر وطن دشمنی کی مہر ثبت کر دی تھی۔ ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے خاندان پر بہتان کے پہاڑ پر مبنی ''ہینڈ آؤٹ‘‘ آج بھی اُن کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ ناحق مارے جانے والے بھی شہادت کے کسی نہ کسی درجے میں ضرور آتے ہیں... اس تناظر میں شہیدوں کے لہو نے رنگ لانا شروع کر دیا ہے... آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
سانحہ ساہیوال سے قطعی لاتعلقی کے باوجود اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی آپریشنز اظہر حمید کھوکھر کو ''ردِّ بلا‘‘ کے لیے وفاق روانہ کر کے سلیمی صاحب کا صدقہ اتارنے کی رسم بھی تاحال قرض ہے... قرض تو قرض ہی ہوتا ہے... کبھی نہ کبھی‘ کہیں نہ کہیں چکانا ہی پڑتا ہے... جلد یا بدیر۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حمزہ شہباز کی عدم گرفتاری اور غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرنے پر امجد جاوید سلیمی کو فارغ کیا گیا ہے۔ اگر یہ بات مان لی جائے تو گرفتاری میں عدم تعاون اور غیر سنجیدگی کی براہ راست ذمہ داری تو سی سی پی او لاہور پر بھی عائد ہوتی ہے... وہ کیسے بری الذمہ ہو سکے ہیں؟ سی سی پی او لاہور کی تبدیلی کے لیے معقول ترین جواز‘ ناقص کارکردگی اور امن و امان کی غیر تسلی بخش صورتحال ہی کافی ہے‘ جو ''گجر نیٹ ورک‘‘ کی پشت پناہی کی وجہ سے فیصلہ سازوں کی آنکھوں سے بدستور اوجھل ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ناکامی کے ذمہ داران کی... وہ پولیس افسران ہوں یا دیگر انتظامی افسران... کوئی بھی ان کی ناکامی کا ذمہ دار نہیں۔تحریک انصاف برسرِ اقتدار آنے کے بعد عناد اور تعصب کے ہاتھوں مجبور ہو کر انتہائی فضول بحث میں پھنس کر رہ گئی تھی کہ فلاں افسر شہباز شریف کا ہے‘ فلاں نواز شریف کا ہے تو فلاںفلاںکا منظورِ نظر ہے۔ اس طرح بیوروکریسی کی تفریق کر کے تحریک انصاف قابل‘ متحرک اور تجربہ کار افسران سے محروم ہوتی چلی گئی۔ آٹھ ماہ بعد انتہائی تنقید‘ مزاحمت اور واویلا کے بعد حکمرانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے اور وہ چوہدری پرویز الٰہی کے آزمودہ ماڈل کو اپنانے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔
آئیے ایک نظر پرویز الٰہی کے آزمودہ ماڈل پر ڈالتے ہیں۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ2002ء کے عام انتخابات کے بعدپرویز الٰہی نے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا تو انھوں نے امور حکومت چلانے کے لیے صرف قابلیت اور مہارت کی بنیاد پر افسران کا انتخاب کیا۔ مذکورہ افسر نے ماضی میں کسی کے ساتھ بھی کام کیا ہو‘ چودھری پرویزالٰہی نے کسی قسم کا تعصب اور پسند ناپسند کا عنصر غالب نہیں آنے دیا۔ نتیجتاً پاپولر بیوروکریسی کی ایک ایسی ٹیم بن گئی جس نے چودھری پرویز الٰہی کی نہ صرف معاونت کی بلکہ اہداف کے حصول کے لیے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کی انتظامی ٹیم میں شامل افسران کی اکثریت شہباز شریف کے دور حکومت میں کام کر چکی تھی لیکن چوہدری پرویز الٰہی نے اسے عناد اور انا کا مسئلہ بنا کر مذکورہ افسران کو ''ڈس کوالیفائی‘‘نہیں کیا۔ان تمام تجربہ کار افسران سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ بہترین گورننس کا ریکارڈ قائم کر کے اس ماڈل کو کامیاب اور قابلِ عمل ثابت کیا۔
بعدازاں 2008ء میں شہباز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعدرعونت اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ پانچ سالوں میں پنجاب میں کام کرنے والے افسران کو چن چن کر کھڈے لائن لگایا بلکہ بیشتر کا تو کیریئر بھی خراب کرنے سے گریز نہیں کیا۔ تعصب اور منفی طرزِفکر کی پالیسی نے بیوروکریسی کو غیراعلانیہ طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا‘ایک (ن) دوسرااینٹی(ن) ‘ اس طرح بیوروکریسی کے اندر مزاحمت اور نفرت کا بیچ بودیا گیااور عملاً ایسا گروپ بیوروکریسی پر غالب آگیا جو افسران کی تعیناتیوں سے لے کر ترقیوں پر بھی اثرانداز ہونے لگا۔ اس گروپ نے منظورِنظر اور تابعدار افسران کوپرکشش اور اہم عہدوں پر تعینات کروایااور ناپسندیدہ افسران کو ایسا ''کھڈے لائن‘‘لگایا جن میں اکثر تو گھر بیٹھے ریٹائرمنٹ کو جا پہنچے اور بیشتر کو اتنا ذلیل و خوار کیاکہ وہ طویل رخصت لینے پر مجبور رہے۔
بدقسمتی سے برسر اقتدار آنے کے بعد تحریک انصاف نے بھی عناد‘ تعصب اور بغض کی روش اختیار کیے رکھی۔ چند لاڈلے‘ منظورِ نظر اور سہولت کار افسران کی وجہ سے بیوروکریسی کی کثیر تعداد کومحض یہ کہہ کر مسترد یا'' ڈس کوالیفائی ‘‘کردیناکہ یہ شہباز شریف کے دور حکومت میں کام کرچکے ہیں یقیناًنا مناسب اور نان پریکٹیکل رویہ ہے۔موجودہ حکومت کو ماضی کے حکومتی ادوار سے سبق حاصل کرنا چاہیے تاکہ انہیں ان مسائل ‘ تضادات اور بحرانوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جن سے سابقہ حکومتیں ٹکراتی رہی ہیں۔تقریباً دو ماہ قبل برادرِ محترم حسن نثار نے بھی تحریک انصاف کو باور کروایا تھا کہ ''کسی افسر پر یہ ٹھپہ‘ مہر یا لیبل لگانا کہ وہ فلاں کا بندہ ہے‘ سرکار کی ناسمجھی‘ کوتاہ نظری‘ کج فہمی اور زیادتی ہے۔ کسی بیورو کریٹ یا سرکاری ملازم کے بارے میں ایسا سوچنا نادانی ہے۔ ملازم کسی کا محب یا محبوب نہیں اپنی ملازمت کا ہوتا ہے۔ اس کی اصل کمٹمنٹ اپنے کیریئر کے ساتھ ہوتی ہے‘‘۔ تحریک انصاف نے عناد اور تعصب کی پالیسی برقرار رکھی اور اب کئی یوٹرنز کے بعد ''راؤنڈ اباؤٹ‘‘ لینے پر مجبور ہے۔
صوبائی سیکرٹریز کے تبادلوں کے بعد اب نئے چیف سیکرٹری پنجاب کے لیے اعظم سلمان کا نام کافی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ آخر میں وزیر اعلیٰ پنجاب اورفیصلہ سازوں سے عرض ہے کہ اپنی کوتاہیوں اور نااہلیوں کا ملبہ بیوروکریسی پر ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے گھڑ سواری کی ریس میں ''جوکی‘‘ اپنی شکست کا ذمہ دار گھوڑے کو ٹھہرائے جبکہ ماہرینِ گھڑ سواری بخوبی جانتے ہیں کہ گھوڑا نہیں سوار بھاگتا ہے اور فاتح بھی سوار ہی کہلاتا ہے گھوڑا نہیں۔ اناڑی جوکی بہترین سے بہترین‘ سبک رفتار اور نسلی گھوڑے پر بیٹھ کر بھی شکست سے نہیں بچ پاتا۔