قوم نمائشی معافیوں اور معذرتوں کے بعد اپنے اصل روپ میں یقینا واپس آ چکی ہو گی۔ قارئین! جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں چودہ اور پندرہ شعبان کی درمیانی رات دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی فضیلت اور اہمیت کی حامل ہے۔ اس رات دنیا بھر کے مسلمان رات بھر نوافل اور ذکر الٰہی کے ذریعے دعائیں، التجائیں اور معافیاں مانگ کر اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور عین اس کیفیت میں یقیناً اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں، زیادتیوں اور اس برتاؤ کا احساس بھی ہوتا ہے جو وہ روزمرہ زندگی میں اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کے ساتھ روا رکھتے رہے ہیں۔ گزشتہ رات بھی سوشل میڈیا پر معافیوں اور معذرتوں کا ایک سیلاب تھا‘ جو اعلانِ عام کی صورت میں لوگ پوسٹیں لگا کر‘کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بے نامی معذرتوں اور معافیوں کی بھرمار دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور بے اختیار ایک پوسٹ لگا ہی دی جو کچھ اس طرح ہے ''تعجب ہے‘ شبِ برات پر معافیاں بھی انہی دوستوں، رشتہ داروں سے مانگی جاتی ہیں جو پہلے سے ہی راضی اور رابطے میں ہوتے ہیں‘ ناراض اور روٹھے ہوئے احباب اور رشتہ داروں کے پاس کوئی جانا یا ان سے رابطہ کرنا گوارا نہیں کرتا‘‘ یعنی روٹھے‘ روٹھے ہی رہتے ہیں، اور ہم راضی رشتہ داروں اور احباب سے ستائش باہمی کی کارروائی کے بعد کافی ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں‘ گویا کوئی بہت بڑا اخلاقی فریضہ ادا کر دیا ہو‘ اور بہت بڑا کوئی بوجھ سر سے اتر گیا ہو۔ یہ کیفیت صرف ایک دن اور ایک رات کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے بعد سارا سال ہی کینہ، بغض، عناد پر مبنی خفگی اور ناراضی چلتی ہے۔ اور پھر اگلی شب برات پر پھر نامی معافیاں اور معذرتیں سوشل میڈیا پر چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ یہ منافقت ہے یا خود فریبی‘ دونوں صورتوں میں قابلِ فکر اور باعثِ شرم رویہ ہے۔ اس پر غور کرنا من حیث القوم سب کی ذمہ داری ہے۔
قارئین! آج آب و ہوا اور ذہنی ذائقہ کی تبدیلی کے لیے کسی ایک مخصوص موضوع پر بات کرنے کی بجائے چند منتخب خبروں پر تبصرہ کریں گے۔ سابق وفاقی وزیرِ صحت عامر کیانی نے اپنی معزولی کو بلا جواز قرار دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈالر قیامت بن کر ان پر آن گرا اور ادویات کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات پر بھی اظہار افسوس کیا ہے۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ یہ دن دیکھنے کے لیے مخصوص لابی کی سہولت کاری اور سابقہ متنازعہ چیف ایگزیکٹو ڈریپ کی اعانت کا طویل سفر طے کیا گیا۔ پورے پاکستان کا میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ایک مافیا کے ہتھے چڑھ چکی ہے‘ جو اپنی خواہشات اور مفادات پر مبنی فیصلوں کے ذریعے عوام دشمن پالیسیاں بنوا رہا ہے‘ لیکن کوئی کسی کے ہاتھوں مجبور دکھائی دیتا تھا۔ بلکہ بعض اوقات تو یہ گماں ہوتا تھا کہ موصوف وزیر نہیں سی ای او ڈریپ کے ترجمان ہیں۔ بدنامی اور نااہلی کی یہ کھیتی کسی نے ایک دن کاٹنا ہی تھی۔ ایک اطلا ع یہ بھی ہے کہ سابق وزیرِ کی کرپشن کہانی کی فائل کو پہیے لگ چکے ہیں اور وہ آنے والے وقت میں ان کے لیے کافی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ واقفانِ حال یہ بھی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان ادویات کی قیمتوں میں ہونے والی واردات اور ڈریپ کی دیگر بے ضابطگیوں سے باخبر ہیں۔ موصوف واحد وزیر تھے‘ جنہیں فارغ کرنے سے پہلے ''لمبا مال‘‘ بنانے پر ان کی طلبی بھی کی گئی تھی‘ جبکہ دیگر وزرا کا قلم دان صرف کارکردگی کی بنیاد پر تبدیل کیا گیا ہے۔ اب وہ میڈیا پر آ کر اپنی صفائیاں اور وضاحیتں دیتے نہیں تھک رہے۔ خیر! اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔
خبر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان گورنر پنجاب کے طویل غیر ملکی دورے کے باعث ناراض ہیں۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ انتہائی مشکل صورتحال اور گرم سیاسی ماحول میں سب سے بڑے صوبے کے گورنر کا منظرنامے سے طویل عرصہ کے لیے غائب ہونا ملکی اور سیاسی معاملات میں غیر سنجیدگی، عدم دلچسپی اور لا تعلقی کا اشارہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گورنر صاحب نے وطن واپسی کے بعد وزیر اعظم سے ملاقات کی کوشش کی لیکن انہوں نے مبینہ طور پر ملاقات سے انکار کر دیا اور وزیر اعظم کی جگہ نعیم الحق صاحب نے چوہدری صاحب سے ملاقات کر کے وزیر اعظم کے تحفظات سے انہیں آگاہ کیا۔ چوہدری صاحب کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی پر توجہ دیں اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات بہتر کریں۔ بالخصوص چوہدری پرویز الٰہی سے معاملات اور تعلقات بہتر بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ طویل غیر ملکی دورے، سیاسی معاملات میں عدم دلچسپی اور وزیر اعظم کا اظہار ناراضی‘ اور سرد مہری اہمیت کی حامل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری صاحب وزیر اعظم کی ناراضی دور کرنے اور اہداف کے حصول میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟ لیکن یہ واضح ہے کہ صوبہ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کا کردار دن بدن نا صرف اہمیت حاصل کر رہا ہے بلکہ وہ صوبے کی انتظامی صورتحال اور سیاسی بحران میں مرکزِ نگاہ بھی دکھائی دیتا ہے‘ جبکہ شنید یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعظم پر واضح بھی کر چکے ہیں کہ وہ پنجاب میں من چاہی تبدیلی تک عثمان بزدار کو بدلنے کے حق میں نہیں ہیں۔
سننے میں آ رہا ہے کہ وفاق کے بعد پنجاب میں وزرا کے قلمدان تبدیل ہونے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کارکردگی کی بنیاد پر رپورٹیں مرتب کی جا رہی ہیں۔ پنجاب کابینہ کے کئی کھلاڑیوں کی وکٹیں اڑتی صاف نظر آ رہی ہیں۔ حتمی فیصلہ بہرحال وزیر اعظم کو ہی کرنا ہے۔ کچھ وزرا کی کارکردگی ہی ان کے لیے خطرہ بن چکی ہے‘ یعنی ''کوالیفکیشن ہی ڈس کوالیفکیشن‘‘ بنی ہوئی ہے۔ بعض وزرا کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے کہ سرکاری خرچ پر یہ کسی میلے میں آئے ہوئے ہیں‘ جبکہ وزیر اعلیٰ صاحب بھی کئی وزرا کی کارکردگی کو قابل ستائش اور غنیمت سمجھنے کی بجائے مسلسل حوصلہ شکنی پر آمادہ ہیں۔ اکثر متحرک اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے وزرا بھی وزیر اعلیٰ کی طرف سے حوصلہ افزائی اور شاباش کے منتظر آتے ہیں۔ دلوں کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وزیر اعلیٰ بعض وزرا سے شاکی اور خائف کیوں ہیں۔
پنجاب میں آئی جی کی تبدیلی کے بعد امن و امان اور گورننس میں بہتری کی توقع کی جا رہی ہے۔ خبر ہے کہ پنجاب بھر میں تعینات اعلیٰ پولیس افسران کی کارکردگی کا جائزہ لے کر اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ بالخصوص صوبائی دارالحکومت میں لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے اہم تبدیلیوں اور فیصلوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ بلا شبہ بہترین کارکردگی کا ریکارڈ اور اچھی شہرت رکھنے والے افسران ہی مطلوبہ اہداف اور نتائج فراہم کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف پہلے ہی غلط فیصلوں اور غیر موزوں افسران کے انتخاب کا خمیازہ بھگت رہی ہے‘ اور مخصوص لابی کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے نتیجے میں تجربہ کار منجھے ہوئے اور کرائم فائٹر افسران سے محروم رہی ہے۔ اس کا خمیازہ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی بھگت رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی جی کیپٹن (ر) عارف نواز کو فری ہینڈ دیے بغیر اہداف کا حصول نہ ممکن ہے؛ تاہم حکومت کو مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے ان پر اعتماد اور انحصار کرنا ہو گا۔ تب جا کر صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر میں امن و امان کی صورتحال اور پولیس کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا مل سکے گا۔
آخر میں الحمرا آرٹ کونسل کی رونقیں بحال کرنے اور فنون لطیفہ سمیت ثقافتی اور دیگر معیاری تفریحی سرگرمیوں کے تسلسل کا کریڈٹ دینا بھی ضروری ہے۔ بلا شبہ یہ واحد ادارہ ہے جس نے معیاری فیملی تھیٹر بحال کر کے روٹھے ہوئے شائقین کو واپس تھیٹر میں لا بٹھایا ہے‘ جبکہ نامور فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں کی یاد میں تقاریب اور خدمات کے اعتراف میں ادبی نشستوں، فن پاروں کی نمائشوں، خطاطی، کیلی گرافی، موسیقی سمیت فنون لطیفہ کے دیگر شعبہ جات کی تربیتی کلاسوں کا تسلسل اور عرصہ دراز سے الحمرا پر قابض مافیا سے چھٹکارہ دلانے کا کریڈٹ بھی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اطہر علی خان کو ہی جاتا ہے۔ اس سلسلے میں چیئرمین توقیر ناصر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ وہ مذکورہ اقدامات اور سرگرمیوں کے تسلسل میں اطہر صاحب کے شانہ بشانہ اور قدم بہ قدم چل رہے ہیں۔ کیپ اِٹ اَپ... ڈٹے رہو۔