"AAC" (space) message & send to 7575

یہ ناکامی کہیں نظام کی ناکامی نہ بن جائے !

قارئین! آج بھی چند خبریں ایسی ہیں جو تبصرے پر اُکسائے چلی جارہی ہیں۔ طبیعت بھی ایک سے زیادہ موضوعات پر بات کرنے پر آمادہ ہے۔ سب سے پہلے پی ٹی آئی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اس اجلاس کی بات کریں گے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار پر غیر مشروط اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔اجلاس کے بعد جاری ہونے والی خبر اور تصویر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے ‘جیسے عثمان بزدار صاحب کی دستار بندی یا کوئی سالگرہ کی تقریب ہو‘ جس میں اُن سے اظہار یکجہتی اور مبارک سلامت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس اجلاس کی کارروائی سے یہ تاثر ''اُچھل اُچھل کر‘‘ باہر آرہا ہے کہ گویا حاضرین سے یہ پوچھا جارہا ہو کہ ''میرے ساتھ ہو ناں‘‘۔ 
پارلیمانی پارٹی کے کسی رکن سے توعثمان بزدار کو پہلے بھی کوئی خطرہ نہ تھا اور نہ ہی اب ہے؛ البتہ انہیں خطرہ ہے تو اپنی ذات سے‘ اپنی خواہشات سے‘ اپنے بعض ذاتی مشیروں سے جو بدنامی کی چلتی پھرتی دکانیں بن چکے ہیں۔ ان کوخطرہ ہے تو اپنی استعداد سے‘ بے اعتمادی سے اور اس کارکردگی سے جو تاحال عوام کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکی ہے۔ عثمان بزدار کو خطرہ ہے ان تحفظات سے جو دن بدن ان کی ذات کو متنازعہ بنائے چلے جارہے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے ان انتظامی فیصلوں کے نتائج سے جو حکومتی کارکردگی اور گورننس کا منہ چڑا رہے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے اس جوابدہی سے جو وزیراعظم عمران خان ان کی جگہ مسلسل دئیے چلے جارہے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے اُن آسوں اور اُمیدوں کے ٹوٹنے سے جو وزیراعظم اور عوام ان سے لگا بیٹھے تھے۔ 
پارلیمانی پارٹی سے بھلا بزدار صاحب کو کیا خطرہ؟ ان سے اعتماد کی یقین دہانی لے کراگر وہ مطمئن ہوتے ہیں تو ''دِل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے مصداق بھلے ہوتے رہیں۔ عثمان بزدار صاحب کا پارلیمانی پارٹی سے اعتماد کا ووٹ لینا ایسا ہی جیسے ''کسی کے دانت میں درد ہو اور وہ گھٹنے کی مالش کر کے اس خوش فہمی میں رہے کہ اس کا درد جلد ہی دور ہو جائے گا‘‘۔ درد کہاں دور ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس دوائی موجود ہے لیکن وہ ترکیب استعمال سے قطعی ناآشنا ہیں۔ وہ لگانے والی دوائی کھا رہے ہیں اور کھانے والی مسلسل لگائے چلے جارہے ہیں۔ ایسے حالات میں کیا خاک افاقہ ہوگا؟خیر اپنا اپنا نقطہء طمانیت ہے‘ اگر انہیں ایسے ہی سکون اور اطمینان ملتا ہے تو کسی کو کیا اعتراض۔
سیاست اور تاریخ کا طالبعلم ہونے کے ناتے میرا مشاہدہ اور تاریخ یہی ہے کہ جس بات کی جتنی شدت سے تردید کی جائے وہ بات اس سے کہیں زیادہ شدت سے ناقابلِ تردید اور اٹل حقیقت بن کر سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ کو اگر اعتماد ہی حاصل کرنا ہے تو عوام کا اعتماد حاصل کریں‘ اپنی اس قیادت کا اعتماد حاصل کریں جو روزِ اوّل سے ان کی وجہ سے دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور اور جوابدہ ہے۔ یہ اعتماد زبانی جمع خرچ سے نہیں کچھ کر کے دِکھانے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ''کسی ہانڈی میں بارہ مصالحوں کی جگہ اگر سولہ مصالحے بھی ڈال دئیے جائیں تو بغیر آگ جلائے ہانڈی نہیں پک سکتی‘‘۔ یہ سادہ سی بات عثمان بزدارصاحب کو تو خیر کیا سمجھ آئے گی لیکن تعجب اس پر ہے کہ یہ بات وزیراعظم کو کیوں نہیں سمجھ آرہی۔ وہ تو پیڈ باندھ کر کرکٹ کے میدان میں جانے کے لیے تیار اپنے بڑے بھائیوں اور اُستاد جیسے ماجد خان کو میدان کے بجائے گھر بھجوا چکے ہیں۔ خدا جانے وہ کونسی مجبوریاں اور مصلحتیں ہیں جو انہیں پرانا کپتان بننے سے بدستور روکے ہوئے ہیں؟ 
جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں بڑھک ماری تھی کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے۔ انہیں اپنے اقتدار کی مضبوطی پر بہت مان تھا لیکن تھوڑے عرصے میں وہ سانحہ بہاولپور کے نتیجے میں کہیں مردِ مجاہد... کہیں آنجہانی... تو کہیں شہید بن گئے... رہے نام اﷲ کا۔اسد عمر بھی ناقابلِ تسخیر اور ناقابلِ تبدیل تصور کیے جاتے تھے ان کے ساتھ بھی ''بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ والا معاملہ ہو چکا ہے۔ 
واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا... لمحۂ موجود ہی عثمان بزدار صاحب کے لیے غنیمت ہے... کل کی کون جانے؟ پارلیمانی پارٹی میں گروپ بندی کا خاتمہ کیے بغیر اعتماد کا ووٹ لینا کسی خود فریبی سے کم نہیں... انہیں اُن وزراء کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا جن کو وہ اَنجانے خوف اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر خود سے پرے کر چکے ہیں۔ دلوں میں بغض‘ کینہ اور تحفظات رکھتے ہوئے بد اعتمادی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ایسے میں اعتماد کا ووٹ ایسے ہی ہے جیسے پتی کے بغیر چائے... اعتماد کے ووٹ کی رسم میں بداعتمادی کے ساتھ شرکت کوئی اچھا شگون نہیں۔ 
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بعد گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی بالآخر پھٹ پڑے ہیں۔ وہ امور مملکت میں جہانگیر ترین کا کوئی کردار برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے وزیراعظم پر واضح کر دیا ہے کہ ''اگر سارے فیصلے جہانگیر ترین نے کرنے ہیں تو ہم کیا آلو چھولے بیچنے آئے ہیں‘‘۔ چوہدری سرور کا یہ ''جٹکا‘‘ انداز ان کی ''حدِ برداشت‘‘ کا پتہ دیتا ہے۔ عمران خان کی طرف سے چوہدری سرور کو ملاقات کا وقت نہ دینا اور نعیم الحق کے ذریعے اپنے تحفظات اور کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایات دینا بھی چوہدری سرور کو ''پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر لے جانے میں جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے مزید ''سرد مہری‘‘ چوہدری سرور کو اُن سے مزید دور لے جاسکتی ہے۔ چوہدری سرور یہ واضح بھی کر چکے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کوئی گیم یا سازش کی گئی تو وہ گورنری ہی نہیں پارٹی سے بھی علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ ویسے بھی ان کے لیے یہ کوئی دشوار اور نیا کام نہیں۔ سابقہ دور میں پنجاب کی گورنری پہ لات مار کروہ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ:
؎کیا عشق نے سمجھا ہے کیا حسن نے جانا ہے 
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر پہ زمانہ ہے 
تحریک انصاف کی منتخب حکومت کی وفاقی کابینہ میں غیر منتخب ارکان کی تعداد 16ہو چکی ہے۔ ان غیر منتخب ارکان کے کردار میں توسیع اور معاملات پر گرفت نظام میں تبدیلی کی باتوں کو مزید ہوا دے رہی ہے جبکہ ایک نئی بحث بھی چھڑ چکی ہے کہ عمران خان صاحب کی ناکامی کہیں نظام کی ناکامی نہ بن جائے... ناکامی کی صورت میں نظام کہیں حکومت پر ہی نہ آگرے... وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا منظر نامہ بنا ہے کہ منتخب حکومت کی ناکامی کی صورت میں کوئی متبادل قیادت یا پارٹی اس پوزیشن میں نہیں جو فوری طور پر اقتدار سنبھال کر معاملات چلا سکے۔ ایسے میں غیر منتخب چیمپئنز کی اہمیت مزید بڑھ سکتی ہے۔ کسی ناکامی یا تبدیلی کی صورت میں اس فارمولے کو مزید وسعت دے کر اقتدار ، اختیار کے حوالے سے ان کے کردار کو بڑھایا جاسکتا ہے بلکہ مکمل انحصار کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ 
بتدریج یہ تاثر بھی مزید تقویت حاصل کرتا چلا جارہا ہے کہ دھرنوں اور سیاسی جدوجہد والی تحریک انصاف کہیں بکھرتی چلی جارہی ہے۔ اس کے اصل چہرے بھی پس منظر اور قصہ پارینہ بننے جارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی مشرف دور کے چہرے اُمورِ حکومت چلاتے نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتحال تحریک انصاف کے اندر بے چینی اور بددلی بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔پی ٹی آئی کے اکثر قائدین اپنی نجی محفلوں میں یہ برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ لگتا ہے آنے والے وقت میں ''تحریک انصاف کی گمشدگی‘‘ کا اشتہار نہ دینا پڑجائے۔ 
آخر میں سردار عثمان بزدار صاحب کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ اگر کبھی فرصت میسر آئے تو کابینہ کمیٹی برائے انسداد ڈینگی کی کارکردگی کا احوال بھی معلوم کر لیں۔ اگر خدانخواستہ ڈینگی کا مچھر بپھر گیا تو بے چارے عوام کا جو حال ہوگا آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یقین مانیں آپ کی حکومت اور متعلقہ محکمے صفر تیاری کے ساتھ اس مچھر کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں