"AAC" (space) message & send to 7575

بابا جی

قارئین! آج ایک ایسی شخصیت پر مجھے بات کرنا ہے جو الفاظ اور استعاروں کی محتاج نہیں۔ اسی لیے اس عالی مرتبت ہستی پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے الفاظ کے چناؤ سے لے کر استعارے تک کافی دشواری کا سامنا ہے کہ وہ الفاظ کہاں سے لاؤں جو اُن کی روحانیت کے نور اور زبان و بیان کے سحر کا احاطہ کر سکے۔ چھوٹا منہ بڑی بات والا معاملہ محسوس ہو رہا ہے۔ یہ شخصیت بالحاظ عمر وطن عزیز سے ایک سال بڑی اور گزشتہ پچیس سال سے خلقِ خدا کا روحانی اور جسمانی علاج بذریعہ ذکر الٰہی اور دستِ دُعا بلند کرنے میں شب و روز مگن ہے۔ آج کے کالم میں بھائیوں جیسے دوست ڈی آئی جی راجہ رفعت مختار کا ذکر بھی ضروری ہے۔ گزشتہ اتوار کالم لکھ کر فارغ ہوا ہی تھا کہ راجہ رفعت کا واٹس اَیپ پر پنجابی زبان میں ایک دعوت نامہ موصول ہوا جس کا عنوان کچھ یوں تھا: ''رمضان دیاں حکمتاں تے فضیلتاں بارے‘‘ بابا جی عرفان الحق دی لکھی مان جوگ کتاب ''آؤ‘‘ دی مکھ وکھالی... تہانوں آون دا سدا اے۔ ابھی دعوت نامہ پڑھ ہی رہا تھا کہ راجہ صاحب کا فون آ گیا کہ ''یار ٹائم تھوڑا ہے لیکن پہنچنا ضرور ہے‘‘۔ خیر وقتِ مقررہ سے کچھ تاخیر سے پنجابی کمپلیکس قذافی سٹیڈیم پہنچا تو محسوس ہوا کہ میں کافی پیچھے رہ گیا ہوں۔ ہال بابا جی کے عقیدت مندوں کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ سیڑھیوں پر اور راہداریوں میں بھی تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ بمشکل اندر پہنچا تو دیوار کے سہارے کھڑے ہونے کی جگہ میسر آ سکی۔
صاحبانِ علم و فراست بابا جی عرفان الحق کی شخصیت کا احاطہ کرنے کی سعی میں مبتلا تھے۔ اُن کی شخصیت کے علمی اور فکری پہلوؤں پر اظہارِ خیال جاری تھا۔ میں نے ایک طائرانہ نظر ہال میں موجود حاضرین پر ڈالی تو خواتین کی کثیر تعداد اس محفل میں موجود پائی۔ راجہ رفعت بابا جی کے دائیں پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ چیف جسٹس (ر) لاہور ہائیکورٹ انوارالحق، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر نیاز احمد، ڈاکٹر اقبال بیلا، اسلامی یونیورسٹی کے ڈین علوم شرعیہ ڈاکٹر حبیب عاصم، طارق بلوچ صحرائی، قاسم علی شاہ، ٹی وی آرٹسٹ/ اینکرپرسن نورالحسن، سینئر بیوروکریٹ میاں ریاض، عثمان بھٹہ، عامر مرزا، میاں اکرم، شہزاد اختر سمیت مختلف مکاتبِ فکر کی قابلِ ذکر شخصیات ہمہ تن گوش نظر آئیں۔
بابا جی اپنے عقیدت مندوں سے ہم کلام ہونے کے لیے سٹیج پر تشریف لائے تو بڑی سادہ، آسان اور عام فہم گفتگو کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ پروردگارِ عالم سخاوت کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے، آپ کو سوچنا ہو گا کہ جو کچھ پروردگار نے آپ کو دیا ہے تو صرف آپ کے لیے نہیں بلکہ دیگر ضرورت مندوں کا مال بھی آپ ہی کو دیا ہے تاکہ آپ ان میں تقسیم کریں اور اﷲ کے مقرربین میں شامل ہو جائیں۔ جتنا سخی اور دینے والا اﷲ کا دوست ہے اتنا کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ بابا جی نے بتایا: میرے پاس ایک شخص آیا‘ وہ فلاح کے کام ایسے کرتا کہ میں حیران رہ گیا۔ وہ پانچ کلومیٹر سڑک کنارے پیدل چلتا اور نوکدار پتھر، کیل، لوہے کی پتریاں، کیلے کے چھلکے سمیت تمام ایسی چیزیں جو پیدل گزرنے والوں یا گاڑی کے ٹائروں کو نقصان پہنچا سکتی ہوں کو چنتا رہتا اور پھر کہیں دور جا کر انہیں ایسی جگہ پھینک دیتا کہ دوبارہ کسی راہگیر کے راستے میں نہ آ سکیں۔ کسی کے راستے سے کانٹا ہٹانا، کسی کا علاج کروانا، بھوکے کو کھانا کھلانا، اَن پڑھ کو تعلیم دینا، بیماروں کی تیمارداری کرنا سب فلاح کے کام ہیں۔
بابا جی کہتے ہیں: میرے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا‘ میں چاہتا ہوں میری اَنا مر جائے اور میں کوئی خدمت کا کام کروں۔ میں نے کہا‘ تم جاؤ اور مسجد کے طہارت خانے دھویا کرو۔ اعتکاف کی حکمت بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تم تنہا مسجد میں چادروں کے پردے میں بیٹھے ہو... تمہارے گھر ہانڈی بن رہی ہے، تمہارے بچے سکول جا رہے ہیں، تمہاری دُکان کھلی ہوئی ہے، تم جس دفتر میں کام کرتے ہو وہاں تمام کام معمول کے مطابق چل رہے ہیں، کوئی بیمار ہے تو اسے دوا مل رہی ہے، گویا تیرے گھر کا سارا نظام حسبِ معمول چل رہا ہے۔ تم اُن سب سے الگ بیٹھے ہو، اﷲ تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ جب تم منوں مٹی تلے چلے جاؤ گے تب بھی سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا... یہ نظام تم نہیں چلا رہے بلکہ اﷲ کی ذات ہی اس نظام کو چلائے ہوئے ہے۔ اعتکاف بہت بڑی عبادت ہے۔ اگر آپ کا یقین پختہ ہو جائے کہ یہ سب میں نہیں چلا رہا‘ صرف اﷲ چلا رہا ہے‘ تو بے ایمانی اور ملاوٹ کیسے کریں گے؟ کم کیسے تولیں گے؟ کسی کا مال کیسے غصب کریں گے؟ کسی کی زمین پر قبضہ کیسے کریں گے؟ بالکل نہیں کر سکتے... کچھ بھی نہ کر پائیں گے... اعتکاف کو اگر سمجھ جائیں تو یہ موت سے پہلے کی موت بتاتا ہے جو درحقیقت موت کی ٹریننگ ہے کہ تو ان کے لیے فکرمند ہوتا ہے... مال اکٹھا کر رہا ہے... میرے بچوں کا کیا بنے گا... وہ بتا رہا ہے کہ تو کچھ نہیں کر رہا... سارا کام چل رہا ہے اور تیرے بعد بھی ایسے ہی چلتا رہے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اپنے روزمرہ کے معاملات ٹھیک کرو، تکبر، فخر، حسد، مقابلہ، شکوہ شکایت اور موازنہ سب روحانی برائیاں ہیں۔ یہ روح کو کچل دیتی ہیں، بیمار کر دیتی ہیں۔ اگر ہمیں ان سے بچنا ہے تو نگاہوں کو نیچا رکھنا ہے۔ ہمیں عاجزی کے طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ یہ بہت چھوٹی باتیں ہیں مگر ان کے نتائج بے حد بڑے اور دور رَس ہوتے ہیں۔ بابا جی کہتے ہیں کہ جب میں حج پر جارہا تھا تو سب لوگ اکٹھے ہوئے اور مجھے کہنے لگے: مشن کیا ہے۔ میں نے کہا: مشن ایک ہی ہے سب رشتہ داروں اور احباب کے پاس چل کر گیا اور ان سے معافی طلب کی کہ میں حج پر جا رہا ہوں۔ مجھ سے کبھی کوئی دل آزاری، کمی کوتاہی ہو گئی ہو تو معاف کر دینا۔ میں نے مخلوق سے معافی تو مانگ لی اب خالق کے حضور جا رہا ہوں، اس کے سامنے خود کو پیش کرنے کہ وہ بھی مجھے معاف کر دے یعنی جب تک آپ مخلوق سے معافی نہیں مانگیں گے خالق کبھی معاف نہیں کرے گا۔
ان کی تازہ ترین تصنیف کا عنوان ''آؤ‘‘ ہے۔ یہ عنوان سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 64 سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے چند روز بعد شروع ہونے والے رمضان المبارک کے حوالے سے ''دعوتِ فکر‘‘ کے لیے وہ ہم سب سے ہم کلام ہیں۔ اس کتاب میں تیس موضوعات پر بات کی گئی ہے جن میں حکمتِ اذان، رمضان کی معافی، رسول اﷲ ﷺ کا استقبالِ رمضان، رحمتوں کا مہینہ، عشرۂ رحمت، صوم (روزہ)، سحر و افطار، قیام اللیل، نعت رسولﷺ‘ رمضان، ضبط نفس، تقویٰ، دوسرا عشرہ مغفرت، روزہ اور جسمانی صحت، روزہ کمزوروں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی، جہاد بالنفس، ڈسپلن رمضان، آنکھوں کا نیچے رکھنا، اخوت اجتماعی عبادت، دنیا کی بہتری، اعتکاف، تیسرا عشرہ آگ سے نجات، لیلۃ القدر، منافقت، اعتدال، اصول صحت، کیا ہمارا کھانے پینے کا کلچر دین کے مطابق ہے، پاکیزگی، ستائیس رمضان، رمضان میں زیادہ بہتر رویہ اور صدقۂ فطر شامل ہیں۔
بابا جی کی باتیں تو اتنی ہیں کہ ایسے کئی کالم بھی کم پڑ جائیں لیکن اُن کی باتیں ختم نہ ہوں ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ باباجی دِن بھر مخلوق سے اﷲ کی باتیں کرتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں مخلوق کی باتیں اﷲ سے کرتے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر راجہ رفعت نے اُن سے میری ملاقات اور تعارف کروایا تو بولے: آپ نے ساری باتیں سن تو لی ہیں‘ اب بحیثیت صحافی اور کالم نگار آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے مخلوق تک کیسے پہنچانا ہے۔ یہ کہہ کہ انہوں نے مجھ پر ایک بھاری ذمہ داری عائد کر دی اور یہی ذمہ داری نبھانے کے لیے ان کی ساری گفتگو اور تقریب کی کارروائی آپ کے پیشِ نظر ہے۔ بابا جی سے ملاقات کروانے پر راجہ رفعت کا شکریہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں