وزیراعظم نے کرپٹ بیوروکریسی کے خلاف بلا امتیاز کریک ڈاؤن کا حکم دے کر محکمہ اینٹی کرپشن میں نئی روح پھونک دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ محکمہ اعلیٰ سرکاری افسران اور اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف کس حد تک جاسکتا ہے؟ ابھی حال ہی میں اینٹی کرپشن قوانین میں ایک سازش کے تحت اعلیٰ افسران کو مقدس گائے قرار دے کر کرپشن کے باوجود ہر قسم کی کارروائی سے روک دیا گیا تھا لیکن وزیراعظم کی بروقت مداخلت سے یہ سازش ناصرف ناکام ہوئی بلکہ آج تمام اعلیٰ سرکاری افسران بلا لحاظ وتمیز جوابدہ اور قابلِ احتساب قرار دئیے جا چکے ہیں۔
ماضی میں محکمہ اینٹی کرپشن تھانیداروں‘ پٹواریوں اور دیکر محکموں کے ملازمین کے خلاف درخواستوں پر کارروائی کر کے اپنی ''کارروائیاں‘‘ ڈال کر کام چلا رہا تھا۔ مدعیوں کی ملی بھگت سے درخواستوں پر سرکاری ملازمین کو ہراساں اور بلیک میل کرنے والوں نے اس محکمے کی ساکھ اور شہرت کو ہمیشہ ہی ''چار چاند‘‘ لگائے رکھے۔ انکوائری اور تفتیش کی بنیاد پر درخواستیں سالہا سال آسانی سے چلائی جاتی ہیں۔ خیر‘ اب وزیراعظم نے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن جاوید شاہ کو مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ کرپٹ اور بدعنوان افسران کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کریں۔ کرپشن اور لوٹ مار پر احتساب ضرور ہونا چاہیے‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن ہے کیا؟ مالی خردبرد کے نتیجے میں کمایا گیا مال ہو یا سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال یقینا سبھی کرپشن کے زمرے میں ہی آتا ہے۔
سرکاری مال پر زندگی کے مزے لوٹنے والوں کو جوابدہ اور قابلِ گرفت ضرور ہونا چاہیے لیکن ان اعلیٰ سرکاری افسران کے خلاف قانون کب حرکت میں آئے گا ‘جو کرپشن پَلس کے مرتکب اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو خاطر میں لائے بغیر دندناتے پھر رہے ہیں؟دُہری شہریت کے حامل سرکاری افسران کے خلاف آج تک کوئی قانون اور ضابطہ کیوں موثر نہ ہوسکا؟ اب معاملہ دوہری شہریت سے بڑھ کر دوہری زوجیت تک جاپہنچا ہے ۔وزیراعظم پاکستان کو ان افسران کے بارے میں اب خود ہی کوئی فیصلہ لینا ہوگا ‘کیونکہ آپ کے اردگرد پائے جانے والے احتساب اور گورننس کے چیمپیئنز نے تو نہیں بتایا ہوگا کہ وطنِ عزیز 120 اعلیٰ سرکاری افسران نے غیر ملکی خواتین سے شادیاں رچا رکھی ہیں۔ ان اعلیٰ افسران کی بیگمات امریکی‘ روسی‘ فلپائنی‘ تھائی‘ چینی‘ بھارتی‘ برطانوی‘ نائیجیرین‘ اٹالین‘ کینیڈ ین‘ فن لینڈ‘ ڈنمارک‘ ترکش‘ جاپانی‘ جرمنی‘ ایرانی‘ لبنانی اور قازقستانی سمیت دیگر ممالک کی شہریت کی حامل ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق ؛اگر کسی سرکاری ملازم نے غیر ملکی خاتون یا مرد سے شادی کرنی ہو تو پہلے متعلقہ صوبے یا وفاق‘ جہاں کا وہ ملازم ہو‘سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے۔ ورنہ اس کا یہ عمل ''مس کنڈکٹ‘‘ کے زمرے میں آئے گا اور اس کے خلاف مجاز اتھارٹی انضباطی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود آج تک کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ آسکی ہے... گویا نہ کہیں کوئی ''مس کنڈکٹ‘‘ ہوا ہے اور نہ ہی اس ملک میں کسی مجاز اتھارٹی کا وجود ہے۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ان اعلیٰ سرکاری افسران کی غیر ملکی خواتین سے شادیوں کو اگر صلیبی جنگوں کے تناظر میں دیکھاجائے‘ تو دوہری شہریت اور دوہری زوجیت کا معاملہ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ صرف زمانہ اور طریقۂ واردارت بدلا ہے باقی سب کچھ کم و بیش ویسا ہی چل رہا ہے۔ بدقسمتی سے وطن ِعزیز آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر چلایا جا رہا ہے اور لگتا ہے کہ یہ اعلیٰ افسران ''ڈیپوٹیشن‘‘ پر پاکستان آئے ہوئے ہیں اور اپنی باری لگا کر عرصۂ حکمرانی ختم ہونے پر واپس اپنے ''اصل‘‘ کی طرف لوٹ جائیں گے اور اس وطنِ عزیز سے کمائی ہوئی دولت پر بیرون ملک بیٹھ کر باقی زندگی آرام سے گزاریں گے۔
وزیراعظم صاحب !یہ لمحۂ ٔفکریہ ہے کہ اعلیٰ حکام میں ریٹائرمنٹ کے بعد یا دورانِ ملازمت ہی ملک کو خیر باد کہہ کر بیرونِ ملک مستقل سکونت اختیار کرنے کا رجحان شدت اختیار کر چکا ہے ۔ اس کا باقاعدہ سروے کروایا جائے تو حاصل ہونے والے اعداد و شمار یقینا قابل فکر اور چونکا دینے والے ہوں گے۔ ماضی قریب میں ہی اہم ترین اور حساس عہدوں سے سبکدوش ہونے والی شخصیات وطن ِعزیز کی بجائے بیرونی ممالک میں سکونت اختیارکیے ہوئے ہیں۔ جو قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم ہے اور مجاز اتھارٹیز اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی بجائے مجرمانہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ ان کے بیرون ملک جانے اور وہاں سکونت اختیار کرنے کے حوالے سے قوانین اور ضابطے موجود ہیں مگر وہ شخصیات اتنی بااثر اور طاقتور ہیں کہ قانون اور ضابطے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور مجاز اتھارٹیز اس شرمناک حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ بھی اس ''کارِ بد‘‘ میں اعلیٰ سرکاری افسران کے شانہ بشانہ ہے۔
قارئین اب چلتے ہیں ؛ذرا اُن بلدیاتی اداروں کی طرف‘ جو بالآخر تحلیل کر کے 58,000 عوامی نمائندوں کو گھر بھجوا دیا گیا۔ بدقسمتی سے وطن ِعزیز میں جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں کو بنیادی جمہوریت سے خدا جانے کیا خوف اور عناد ہے؟ باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں ‘ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر انہی کے نمائندوں کے ذریعے حل کرنے کے بھاشن دیتے ہیں‘لیکن ریکارڈ یہ ہے کہ حکمران سابقہ ہوں یا موجودہ... سب ہی ان اداروں سے خائف اور شاکی نظر آتے ہیں۔ پرویز مشرف کو ڈکٹیٹر کہنے والے جمہوریت کے علمبردار سیاستدانوں کے ریکارڈ کے درستی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اپنے نو سالہ اقتدار میں دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات بروقت کروائے اور بااختیار بلدیاتی اداروں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دینے کا کریڈٹ بھی جنرل پرویز مشرف کو ہی جاتا ہے‘ اسی طرح جنرل ضیا الحق نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں بلدیاتی اداروں کو مفلوج کرنے کی بجائے انہیں فعال ہی رکھا۔ مسئلہ اور عناد صرف جمہوریت کے ان علمبرداروں کو ہی ہے۔ تحریک انصاف کی یہ امتیازی پالیسی اور عناد صرف صوبہ پنجاب کے لیے ہی کیوں ہے؟ جبکہ خیبرپختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان کے بلدیاتی ادارے شیڈول اور معمول کے مطابق؛ اپنے اپنے امورانجام دے رہے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ ان منتخب بلدیاتی نمائندوں کو گھر بھجوا کر خوشحالی اور ترقی کے کونسے چشمے پھوٹیں گے اور سرکاری ایڈمنسٹریٹرز عوام کے مسائل اُن کی دہلیز پر کیسے حل کریں گے؟ جس کا دعویٰ تحریک انصاف نے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے کیا تھا اور پھر کہتے ہیں ہم جمہوریت پسند ہیں اور جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں... حکومت کو کوئی خطرہ نہیں...سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں۔اس قسم کی باتیں اور بیانات ہر دورِ حکومت میں تواتر سے سننے کو ملتی رہی ہیں۔عوام کے لیے ایسے بیانات اور اعلانات نئے نہیں ہیں...ہر دور میں حکمران عوام کو خوش کن اعلانات کے ذریعے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اور عوام ہر بار ان کے اس جھانسے میں باآسانی آجاتے ہیں اور صورت یہ ہے کہ اب تو ہر طرف جھانسہ ہی جھانسہ نظر آتا ہے۔
بجٹ آنے سے پہلے ہی راتوں رات پٹرول کا ڈرون حملہ ہو چکا ہے اور رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی مہنگائی سونامی اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ عوام کو ''چت‘‘ کیے ہوئے ہے‘ جبکہ ابھی بجٹ آنا باقی ہے۔ خیر بجٹ کا کیا... بجٹ تو سارا سال ہی آتا ہے اور آتا رہے گا... آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ...آخر میں شہرِ اقتدار کے جرائم میں 35فیصد کمی واقعہ ہونے پر وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا اعتراف اور اسلام آباد پولیس کی تعریف کا ذکر بھی ضروری ہے۔ جرائم کی بیخ کنی اور گورننس کا کریڈٹ بہرحال انسپکٹر جنرل عامر ذوالفقار اور ان کی ٹیم کو ہی جاتا ہے‘ جبکہ صوبہ پنجاب میں آئی جی کی تبدیلی کے بعد درجنوں اعلیٰ پولیس افسر تبدیل کیے جا چکے ہیں‘ لیکن جن افسران کا جانا بنتا تھا انہیں پھر مہلت دے دی گئی ہے‘ یعنی پنجاب پولیس میں مصلحتیں اور مجبوریاں تاحال ناچتی پھر رہی ہیں‘ جس کا خمیازہ بہرحال عوام کو ہی بھگتنا ہے۔