قارئین! کالم کا آغاز برادرم شعیب بن عزیز کے دُعائیہ شعر سے کر رہا ہوں ؎
میرے لاہور پر بھی اِک نظر کر
تِرا مکہ رہے آباد مولا
وطن عزیز خصوصاً شہر لاہور پر جب بھی دہشت اور بربریت کا حملہ ہوا‘ جب بھی معصوم شہریوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی‘ یہ شعر دُکھ اور جذبات کی عکاسی کے لیے انتہائی مددگار اور بہترین استعارہ ثابت ہوتا آیا ہے۔ دو روز قبل شہرِ لاہور کو پھر نشانہ بنایا گیا۔ شہر کے پُر ہجوم علاقے داتا دربار کے باہر ایک خود کش کا وار پھر چل گیا‘ اور ایلیٹ فورس کے اہلکاروں سمیت دس معصوم شہری اس بربریت بھینٹ چڑھ گئے جبکہ تیس شہری بری طرح گھائل اور زیر علاج ہیں۔ دہشت گردوں کی اس کارروائی کے بعد وہی روایتی بیانات... وہی اقدامات... وہی حکمرانوں اور افسران کی دوڑیں... لمبے چوڑے دعوے... مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے سے لے کر آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے دعووں تک... سبھی کچھ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔ اعلیٰ پولیس افسران کے درشن... ناکوں کی چیکنگ اور پیٹرولنگ سمیت آنیوں جانیوں میں بھی خاصی تیزی آ چکی ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبائی دارالحکومت کے پولیس سربراہ بھی اس سانحہ کے بعد آرام دہ دفتر سے باہر نکل آئے۔ اِن کا اس طرح شہریوں کے درمیان کھلے عام آ جانا یقینا شہر لاہور کے باسیوں کے لیے ''باعثِ اعزاز‘‘ ہے کہ شہر میں معصوم شہریوں کے خون کی ہولی کے بعد عوام کے جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار خود چل کر جائے وقوعہ پر آ گئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ مذکورہ اَفسر کے دروازے عام آدمی کی داد رسی کے لیے بند ہیں‘ حالانکہ وہ اپنے دفتر کے دروازے کھول کر ہی عوام کے درمیان آئے تھے۔ اس سے زیادہ وہ عوام کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ اور وہ تو ویسے بھی نگران دورِ حکومت میں حالیہ عام انتخابات کروانے آئے تھے۔ نگران دورِ حکومت میں تعینات ہونے والی دیگر تمام افسران تو تبدیل ہو چکے ہیں‘ لیکن موجودہ حکمرانوں کو لاہور پولیس کے سربراہ ایسے بھائے کہ تا حال بھائے چلے جا رہے ہیں۔
خود کش حملہ یقینا ایک ایسی ٹیکنالوجی بن چکی ہے جس کا توڑ تاحال دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ سر پر کفن باندھ کر نکلنے والا جان دے کر ہی اپنا ٹارگٹ پورا کرتا ہے اور جو جان دینے پر بضد اور آمادہ ہو اس کا کیا کیا جا سکتا ہے؟ جانی و مالی نقصان زیادہ نہ سہی کم ہی سہی... وہ اپنا ٹارگٹ پورا کر ہی لیتا ہے۔ ایسے میں مذکورہ پولیس اَفسران کو کیا دوش دینا؟ اِن افسران کی فیلڈ فورس ہو یا معصوم عوام‘ یہ پہلی بار دہشت گردی کی بھینٹ نہیں چڑھے۔ انہوں نے ہمیشہ ہی اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ خیر سی سی پی او لاہور کی شہر میں پیٹرولنگ دیکھ کر تقریباً بیس سال پرانا ایک واقعہ بطور استعارہ یاد آ گیا۔
1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سرکاری محکموں کی مانیٹرنگ کے لئے فوجی افسران کو تعینات کیا گیا تھا۔ ان دنوں ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل انتہائی رعب و دبدبے کے حامل بیوروکریٹ سبطین فضلِ حلیم ہوا کرتے تھے۔ ان کے دروازے بھی میڈیا سے لے کر عوام الناس تک سب پر یکساں بند ہی رہتے تھے۔ اِن کی مانیٹرنگ پر مامور پاک فوج کے افسران نے ایک پریس بریفنگ کا اہتمام کیا‘ جس میں ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے بھی ان کے پہلو میں ہی براجمان تھے۔ بریفنگ شروع ہوتے ہی ہمارے ہردلعزیز دوست اور باکمال شخصیت مرحوم صحافی دوست اختر حیات نے اپنا مائیک آن کیا اور بولے ''ہم سب صحافی پاک فوج کے شکر گزار ہیں کہ جن کے توسط سے ہم نے ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے کا دیدار کر لیا‘ ورنہ ہم سب تو ترس گئے تھے کہ کبھی ان سے کوئی ملاقات کی صورت بنے اور اِن سے ایل ڈی اے کے بارے میں کوئی بات چیت ہو سکے‘‘۔ برادرم اختر حیات کی گفتگو ختم ہونے کے بعد ایک کرنل صاحب نے گردن گھما کر جس انداز سے ڈی جی ایل ڈی اے کی طرف دیکھا وہ نظارہ میری یادداشت پر آج بھی نقش ہے۔ گویا کہہ رہے ہوں ''You are no more‘‘۔ پھر ایسا ہی ہوا‘ وہ صاحب اپنے عہدے پر نہیں رہے۔ رہے نام اﷲ کا... سانحہ داتا دربار کے بہانے ہی سہی‘ سی سی پی او لاہور نے عوام کو اپنے درشن تو دئیے۔ باقی انہوں نے عوام کو کیا دینا ہے... اور عوام نے اُن سے کیا لے لینا ہے؟
شہر میں اَمن و اَمان کا خیر اﷲ ہی حافظ ہے لیکن دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کے حوالے سے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور مسلسل رابطے کے ساتھ ساتھ مؤثر اطلاعی نظام پر توجہ دی جائے جبکہ پولیس افسران کے سماجی رابطے اور میل جول بھی دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی نشاندہی میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں ان خطوط پر پولیسنگ اور گورننس کے کامیاب تجربات پنجاب پولیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
اب چلتے ہیں (ن) لیگ میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور شہباز شریف کی ملک میں طویل عدم موجودگی کے امکانات پر شادیانے بجانے والوں کی طرف۔ مسلم لیگ ن میں تنظیم نو اور شہباز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کو تحریک انصاف کے لیے آکسیجن قرار دیا جا رہا ہے جبکہ شہباز شریف چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے عہدے سے دستبردار ہوتے دِکھائی نہیں دے رہے۔ اس حوالے سے بلاول بھٹو نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے کہ اگر وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہوئے تو وہ پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر نیا چیئرمین منتخب نہیں کروا پائیں گے؛ تاہم شہباز شریف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ مؤخر کر دیا ہے۔
دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف محض آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے بیرونِ ملک نہیں گئے اور نہ ہی وہاں اُن کا طویل قیام بلا جواز ہے اور رہی بات (ن) لیگ کی قیادت اور انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی کی، یہ پارٹی میں توڑ پھوڑ نہیں بلکہ حکمتِ عملی ہے جوآئندہ چند روز میں سب پر عیاں ہو جائے گی‘ اور جو یہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف لمبے عرصے کے لیے سیاسی منظر نامے سے دور جا چکے ہیں وہ بھی ''خوش گمانی‘‘ کا شکار ہیں۔ ان کی یہ خوش گمانی زیادہ دیر قائم رہنے والی نہیں۔ ماہِ رواں کے وسط میں شہباز شریف وطن واپس آ جائیں گے۔ ان کا لندن میں قیام تبدیلیٔ آب و ہوا کے لیے نہیں... تبدیلیٔ حالات کے لیے ہے۔ بہرحال کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے لیکن یہ پردہ جلد ہی چاک ہونے کو ہے۔ ڈیل ہے یا ڈھیل... عوام جلد ہی دیکھ لیں گے۔ حکومتی استحکام اور گورننس کے لیے بعض اوقات ''ڈھیل‘‘ کا مظاہرہ مجبوری بن جاتی ہے‘ جبکہ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف بھی جلد واپس آنے کے لیے جیل سدھار چکے ہیں۔
آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ملازم کو گورنر سٹیٹ بینک لگانا بڑی حماقت ثابت ہو گی جبکہ وہ عدالت سے عبوری ریلیف لے کر وقت کو دھکا لگانے کے ساتھ ساتھ متوقع گرفتاری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ عبوری ریلیف کب تک؟ بالآخر انہیں بھی اُس مقام پر جانا ہی ہے جہاں مکافات کی کھیتی اُن کی منتظر ہے۔ ویسے بھی وقت کا ہونا مہلت کی ضمانت ہرگز نہیں۔