بدقسمتی سے ہر دور میں وطنِ عزیز کے حکمرانوں کے بعض رفقاء اور مصاحبین ان کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے چلے آئے ہیں۔ چند روز قبل ایک اور سقراط‘ بقراط ٹائپ ''کردار‘‘ نے وزیر اعظم سمیت پوری حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ ان کی برطرفی کرکے ''فیس سیونگ‘‘ کرنا پڑی۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک ویڈیو کو وائرل کرنے کا اصل مقصد احتساب کے عمل کو سبوتاژ کرنا اور ان شخصیات کو احتساب کی پکڑ سے بچانا ہے جو اہم مقام اور کردار رکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بعض معاونینِِِ خصوصی اور وزرا سمیت کئی اہم شخصیات نیب کے ریڈار پر ہیں اور اب انہیں خطرہ لاحق تھا کہ احتساب ان کے لئے پھندہ بن سکتا ہے۔ اس خطرے کو ٹالنے اور ''رَدِّ بَلا‘‘ کے لیے یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا ہے‘ جس کا بنیادی مقصد چیئرمین نیب کو اُن کے عہدے سے فارغ کروانا تھا۔ اُنہیں معلوم ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں نئے چیئرمین کی تقرری کوئی آسان مرحلہ نہیں ہو گا۔ موجودہ سیاسی حالات کی گرمی حکومت اور اپوزیشن کے اتفاقِ رائے سے نیا چیئرمین منتخب کرنے کی راہ میں حائل رہے گی۔ ایسی صورتحال میں قائم مقام چیئرمین کے ذریعے معاملات کافی حد تک کنٹرول میں آسکیں گے اور اس طرح نا صرف احتساب کا متوقع خطرہ با آسانی ٹالا جا سکتا ہے بلکہ ''من مرضی‘‘ کے فیصلے بھی کیے جا سکے گے۔
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے بھی اس صورتحال کی نزاکت کو بھانپ لیا ہے۔ انہیں بھی معلوم ہے کہ چیئرمین نیب کی تبدیلی کی صورت میں معاملات کسی حد تک حکومتی کنٹرول میں جا سکتے ہیں اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں دونوں پارٹیوں نے اس ویڈیو کی مذمت اور اس سارے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے‘ جبکہ چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے والے جوڑے کے خلاف ریفرنس دائر کیا جا چکا ہے اور چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر احتساب کا عمل جاری رکھیں گے۔
کچھ وزارتوں میں بے جا مداخلت اور متعلقہ وزیر یا انچارج کو ''بائی پاس‘‘ کرنے سے کنفیوژن اور ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ جو نہ صرف وزارتوں میں گروپنگ کا باعث بن رہا ہے‘ بلکہ اہداف کی حصول میں رکاوٹ کا موجب بھی ہے۔ کئی ایسی وزارتیں ہیں جن میں وزیر ایک اور چلانے والے کئی ہیں‘ جبکہ مشیروں کا کام مشورے اور فیڈ بیک تک محدود ہونا چاہیے نہ کہ وزارت کے افسران کو براہِ راست ہدایت دینا اور وزارت کے معاملات میں مداخلت کرنا۔ ایسے میں وزارتوں میں تعینات افسران غیر اعلانیہ گروپ بندی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ اور ساری توانائیاں اور صلاحیتیں ''پوائنٹ سکورنگ‘‘ کی نذر ہو جاتی ہیں۔
مردم شناسی ایک ایسا ہنر اور صلاحیت ہے جو انسان کی سو خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے۔ کسی حکمران میں اگر سو خوبیاں ہوں لیکن مردم شناسی نہ ہو تو ساری خوبیاں کس کام کی؟ کسی لیڈر یا حکمران کا اصل کام اہداف کے حصول کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب ہے یعنی ''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے تصور کو قائم رکھنا ہی کسی لیڈر کی کامیاب حکمتِ عملی ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی شخص‘ چاہے وہ حکمران ہو یا لیڈر‘ سارے کام خود نہیں کر سکتا‘ ہر کام میں اس کی مہارت ممکن نہیں۔ اس کی اصل کامیابی اُس ٹیم کی تشکیل ہے جو اپنے لیڈر کے ویژن اور ایجنڈے کی عملی تصویر بن کر آ سکے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز کو آج تک ایسا کوئی حکمران نصیب نہیں ہوا جو مردم شناسی کے ہنر سے آشنا ہو۔ ذاتی مفادات اور خواہشات کے گرد گھومتی پالیسیوں کی تشکیل اور تکمیل کے لیے انہیں ذاتی رفقا اور مصاحبین کے سوا کچھ دِکھائی نہیں دیتا۔
بات ہو رہی تھی ایک ویڈیو کی۔ یہ ویڈیو ''ٹریپ گیم‘‘ ہے یا بشری کمزوری‘ لیکن ہچکولے کھاتی احتساب کی کشتی بھنور میں پھنسی دِکھائی دیتی ہے۔ وطن عزیز کی تاریخ میں کسی ادارے کی ساکھ اور رِٹ کی بدولت چشمِ فلک نے پہلی بار یہ نظارہ دیکھا کہ حاکمِ وقت ہو یا انتہائی با اثر شخصیت‘ اعلیٰ سرکاری افسر ہو یا بزنس ٹائیکون‘ سبھی کو احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا۔ کیسا کیسا شجر ممنوعہ جڑ سے اُکھاڑ پھینکا گیا اور ہر مقدس گائے کو احتساب کے عمل سے گزار ڈالا گیا۔ اب اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد کئی سوالیہ نشان سامنے آ رہے ہیں۔ دوسروں کا احتساب کرنے والے کی اہلیت اور دیانت پر حرف آ جائے تو احتساب غیر جانبدارانہ اور شفاف نہیں رہتا۔ جواب لینے والا ہی جب جوابدہ بن کر رہ جائے تو کیسا احتساب؟ اس لئے اس ادارے کی ساکھ کو بچانا وقت اور ملک کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس ملک میں احتساب مذاق بن کر رہ جائے گا۔ نیب میں زیر التوا کیسوں میں کمزور استغاثہ، ناقص تفتیش، پراسیکیوشن پر ثانوی سے کم توجہ، غیر ضروری التوا پہلے ہی ابہام اور فیصلوں میں تاخیر کا باعث بن رہا ہے‘ جو ادارے کی کارکردگی پر پہلے ہی کئی سوالیہ نشان اُٹھا چکا ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ ایک اور معاونِ خصوصی بھی ریڈار کی زَد میں ہیں اور سرکاری نشریاتی ادارے میں من مانی اور من مرضی میں ناکامی کے بعد ایک اور سرکاری نشریاتی ادارے پر گھات لگائے بیٹھے ہیں اور اسے ''سِک یونٹ‘‘ ثابت کر کے اس کے وسائل اور آمدنی سے اپنی اور اپنے حواریوں کی دنیا ایک بار پھر سنوارنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے حواری پہلے ہی مذکورہ ادارے کے واجبات اور سرکاری محصولات کی مد میں تقریباً پچاس کروڑ روپے کے ڈیفالٹر ہیں۔ وہی تاریخ اور موجیں دہرانے کے لیے دِن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور اگر یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تو ایک اور بڑا سکینڈل سُبکی کا باعث بن سکتا ہے۔
وزیر اعظم کو تو یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ انہیں چیمپئنز نے آج تک وزیر اعظم کے پریس سیکرٹری کی آسامی پر پروفیشنل افسر کی تعیناتی نہیں ہونے دی۔ اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ پروفیشنل پریس سیکرٹری کی موجودگی میں ان چیمپئنز کا سِکہ نہیں چل سکے گا‘ اور انہیں کھل کھیلنے اور من مانی کرنے کی آزادی بھی نہیں ہو گی۔ ان چیمپئنز کو یہ خطرہ بھی ہے کہ وہ وزیر اعظم کو جن زمینی حقائق اور تلخ حقیقتوں سے تاحال بے خبر اور لا علم رکھے ہوئے ہیں‘ پریس سیکرٹری آنے کی صورت میں وہ تمام وزیر اعظم کے علم میں آ جائیں گی۔ پریس سیکرٹری ریاست کا نمائندہ اور کئی حوالوں سے پل کا کردار ادا کرتا ہے اور بے شمار معاملات میں پیچیدگیوں اور نقائص کی بروقت پیش بندی کی اہلیت کا حامل ہوتا ہے۔ غیر سیاسی اور قطعی پروفیشنل ہونے کی وجہ سے وہ وزیر اعظم کو حالات سے آگاہی اور بروقت اقدامات کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا اور پریس سیکرٹری کی یہی خصوصیات ان چیمپئنز اور معاونینِ خصوصی کے ایجنڈے اور عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ کنفیوژن اور ابہام سے بچنے کے لیے میڈیا سے بہترین ورکنگ ریلیشن شپ اس کی ٹریننگ کا حصہ ہے۔ پریس سیکرٹری ریاست اور وزیر اعظم سمیت دیگر مقتدر اداروں کے وقار اور مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے جبکہ یہ چیمپئنز ان احتیاطوں اور قومی وقار اور مفادات سے بے نیاز اپنے ایجنڈے پر گامزن رہتے ہیں۔
یہی ساری وجوہ ہیں کہ ان سقراطوں اور بقراطوں نے روزِ اوّل سے ہی حکومت کو کسی نہ کسی آزمائش، سُبکی اور بدنامی سے دوچار رکھا ہے۔ بڑے بولوں اور بلند بانگ دعووں پر مبنی سارے بیانیے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یہ مصاحبین اور رفقا کسی صورت امورِ حکومت اور حکمرانوں کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوئے۔ اب مزید تجربات میں وقت ضائع کیے بغیر اس حوالے سے مناسب اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکے ہیں۔ یہ معاونت اور رہنمائی کے بجائے حکمرانوں سے تعلق کی قیمت وصول کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں۔ یعنی ع
ہوئے تم دوست جس کے دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو