"AAC" (space) message & send to 7575

پڑا ہے پاؤں جب، الٹا پڑا ہے

تحریک انصاف کو برسر اقتدار آئے سال ہونے کو ہے لیکن روز اول سے ہی بلنڈرز کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ کپتان کے بیشتر ''چیمپئنز‘‘ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پلے کچھ ہو نہ ہو Confidence کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اکثر مقامات پر تو Over Confidence کے نتیجے میں ایسا ایسا منظر دیکھنے کو ملا کہ صاف نظر آتا‘ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے‘ ایک مقابلہ جاری ہے‘ اور یہ مقابلہ تحریک انصاف کے اندر ہے۔ کوئی منتخب عوامی نمائندہ ہے تو کوئی غیر منتخب مصاحب۔ دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ کیا وزیر‘ کیا مشیر‘ سبھی خود کو وزیر اعظم کا قریبی اور زیادہ با اعتماد ثابت کرنے پر بضد اور سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وزیر اعظم کو خواہ کتنی ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے‘ ان کی بلا سے۔
ڈی پی او پاکپتن کو معافی مانگنے پر مجبور کرکے ان کا رات گئے تبادلہ کرنے کا معاملہ ہو یا اعظم سواتی کی غریب ماری کا ایشو‘ گیس کے بلوں کے ذریعے عوام کی جیبیں کاٹنے پر وزیر اعظم کے نوٹس کے باوجود وزیر پٹرولیم کی خاموشی کا معاملہ ہو یا صوبائی اینٹی کرپشن کے قوانین میں سول سروس کے افسران کو مقدس گائے قرار دینے کی کوشش‘ پولیس ریفارمز کے دعووں کا حشر نشر اور پی ٹی وی میں نالائقوں کی تقرریوں کا معاملہ ہو یا غیر منتخب رفقا اور مصاحبین کے توسیع پسندانہ عزائم‘ اسد عمر کی رخصتی ہو یا عامر کیانی کی برطرفی‘ پنجاب اسمبلی کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے پر بزدار حکومت کی جواب طلبی ہو یا فیاض الحسن چوہان کی شعلہ بیانیاں... ان سبھی واقعات میں پسپائی، جگ ہنسائی اور سبکی حکومت کا مقدر بنتی رہی۔ چند واقعات بطور حوالہ نمونے کے طور پر پیش خدمت ہیں‘ حالانکہ نالائقیوں، نااہلیوں اور غیرسنجیدگی کی داستان بہت طویل ہے۔
حال ہی میں وزیر اعظم کے نوٹس اور ناراضی کے نتیجے میں وفاقی وزیر مملکت زرتاج گل کی بہن کو نیکٹا کا ڈائریکٹر لگانے کی تمام کوششیں اور تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ یہ ''کھڑکی توڑ‘‘ واقعہ سوشل اور نیشنل میڈیا پر کافی رش لے رہا تھا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے انتیسویں روزے کو صوبہ بھر میں سرکاری سطح پر عیدالفطر منانے کا اعلان کر ڈالا۔ کوئی تماشا سا تماشا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک بلنڈر۔ ایک سے بڑھ کر ایک جگ ہنسائی اور پسپائی۔ مذکورہ واقعات میں باہر سے کوئی افتاد نہیں آئی۔ اپوزیشن نے کوئی سازش نہیں کی بلکہ کپتان کے چیمپئنزخود ہی کلہاڑے پر لات مارے چلے جا رہے ہیںگویا ؎
زمین ناراض ہے کچھ ہم سے شاید
پڑا ہے پاؤں جب، الٹا پڑا ہے
خیبر پختونخوا حکومت نے 28 روزوں کے بعد عید کا اعلان کرکے تحریک انصاف کے لیے ایک ''نیا چاند‘‘ چڑھا دیا ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے چاند کی جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہیں خیبر پختونخوا حکومت نے رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین مفتی منیب الرحمٰن صاحب سے چاند کی لڑائی بھلا ڈالی۔ وہ قمری کیلنڈر کے مطابق 5 جون کو عید منانے کا اعلان کر چکے تھے جبکہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا موقف تھا کہ چاند اور عید کا اعلان رویت ہلال کمیٹی ہی کرے گی۔ فواد چودھری کو کیا معلوم کہ انہیں مفتی صاحب کے بجائے تحریکِ انصاف کے اندر ہی مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 28 روزوں کے بعد عید منانا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب تو یقینا وزیر اعظم کے پاس بھی نہ ہو گا۔
خیبر پختونخوا میں کہیں عید تو کہیں روزہ ہے۔ کوئی عید منا رہا ہے تو کوئی روزے سے ہے۔ حکومت اس معاملے میں بٹ کر رہ گئی ہے‘ اور دنیا بھر میں ہمارا مقدس تہوار تماشا بن کر رہ گیا ہے۔ سوائے فواد چودھری کے ساری وفاقی حکومت نہ جانے کہاں جا سوئی ہے۔ نہ کہیں حکومت نظر آتی ہے نہ اس کی کوئی رٹ۔ تحریک انصاف ویسے بھی روز اول سے ہی انتشار کا شکار اور مختلف الخیال لوگوں کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ رنگ برنگی اور بھانت بھانت کی بولیاں۔ جس کے جو جی میں آتا ہے بیان دے ڈالتا ہے۔ جو من چاہتا ہے کر ڈالتا ہے۔ بعد میں وزیر اعظم نوٹس لیتے رہتے ہیں اور بیان جاری کیا جاتا ہے کہ کوئی قانون اور آئین سے بالاتر نہیں۔
یہ کوئی سیاسی اور معمول کا معاملہ نہیں بلکہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس پر بیان بازی اور سیاست کے بجائے حکومت عوام کو یہ بتائے کہ کے پی کے میں انتیسویں روزے کا کیا ہو گا؟ ان کے روزے کیسے پورے ہوں گے۔ اس حوالے سے ہمارا مذہب کیا کہتا ہے۔ ریاست کہاں ہے؟ اور اس کا کردار کیا ہے؟ کے پی کے حکومت کے اس اقدام نے ان سوالات کو مزید اہمیت اور تقویت دے ڈالی ہے۔ اس معاملے میں ثانوی سے بھی کم توجہ حکومت کے لئے مزید مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ ریاست کا قانون جب فیصلوں سے عاری، خاموش اور سویا پڑا ہوتا ہے تو ایسے میں قانونِ فطرت کا حرکت میں آنا عین منطقی ہے۔ اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بس سمجھنے کی بات ہے۔
دو روز قبل ہی ساہیوال کے سرکاری ہسپتال میں ائیرکنڈیشنر خراب ہونے کی وجہ سے آٹھ نومولود جاں بحق ہو گئے، وہی نمائشی بیانات، وہی انکوائریاں، وہی معطلیاں اور بس۔ نہ کسی وزیر اعلیٰ کو اندازہ ہے اور نہ ہی وزیر صحت کو کچھ احساس کہ جیتے جاگتے معصوم بچے مر گئے۔ کتنے خاندانوں میں کہرام مچا اور کتنے خاندانوں میں صف ماتم بچھی۔ کتنے خاندانوں کی امیدوں کے چراغ جلنے سے پہلے ہی گل ہو گئے۔ بے حسی کا اس سے شرمناک نمونہ اور کیا ہو گا۔ غضب خدا کا۔ ہمارے ہاں آج بھی ریلوے حادثات میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی صوبائی دارالحکومت میں شہر کے گنجان ترین اور پُر ہجوم علاقہ میں پھاٹک بند نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے۔ لیکن یہاں بھی وہی انکوائریاں، معطلیاں اور بس۔ نمائشی بیانات۔ کھیل ختم‘ پیسہ ہضم۔ وزیر ریلوے تو ویسے بھی بیانات اور اعلانات کے بادشاہ ہیں۔
ایک تازہ ترین اور انتہائی تشویش کا باعث خبر شیئر کرنا بھی ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے پاکستان میں انسدادِ پولیو پروگرام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سرخ نشان لگا دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو بیرون ممالک سفر کے دوران مشکلات اور کئی پابندیوں کا سامناکرنا پڑے گا۔ اس کے تحت آمد او روانگی کے وقت پولیو ویکسی نیشن اور اس کا سرٹیفکیٹ لازمی ہو گا۔ صوبائی دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں ماحولیاتی نمونوں میں آلودگی ثابت ہونے پرعالمی ادارہ صحت نے پاکستان بھر میں جاری انسداد پولیو پروگرام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ پولیو کے 21 کیسز رپورٹ ہونے کے بعد پاکستان میں پولیو کو الارمنگ قرار دے دیا ہے۔ 
یا اللہ! رحم‘ اے ربِ کعبہ! رحم۔ اس ملک کے عوام پر رحم فرما‘ ان حاکموں‘ ان حکمرانوں کو توفیق عطا فرما‘ انہیں شعور دے‘ انھیں احساس دے کہ یہ جس مقصد کے لیے ہم پر مسلط کیے گئے ہیں‘ وہ پورا نہ سہی اس کا آدھا پونا ہی عملی مظاہرہ کر دکھائیں۔ کہیں جھوٹے وعدوں اور طفل تسلیوں کے نتیجے میں تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچے مر رہے ہیں تو کہیں ہسپتالوں میں نومولود چند سانسیں لے کر جاں بحق ہو رہے ہیں۔ کہیں پولیو اپاہج کیے ہوئے ہے تو کہیں ٹی بی لوٹ آئی ہے۔ کہیں ہیپاٹائٹس موت بن کر لمحہ لمحہ، قطرہ قطرہ رگ و جاں میں اتر رہا ہے تو کہیں بے بسی اور بے کسی کا ایسا ایسا غیر انسانی اور رلا دینے والا منظر حکومتی دعووں اور سنجیدگی کی قلعی کھولتا نظر آتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ کہیں علاج معالجہ دسترس سے باہر ہے تو کہیں بھوک و افلاس کا ننگا ناچ جاری ہے۔ روزوں اور عیدوں کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ نہ منصب کا احترام باقی رہا اور نہ ہی منصب دار کا لحاظ۔ دکھوں کے مارے اور سابقہ حکمرانوں کے ستائے ہوئے بے کس اور لاچار عوام نے تحریک انصاف کو کیا اسی لیے موقع دیا تھا کہ ان کی زندگیاں پہلے سے کہیں زیادہ مشکل بنا دے۔ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے عوام کی حالت زار کچھ یوں ہے ؎
سنبھلنے کے لیے گرنا پڑا ہے
ہمیں جینا بہت مہنگا پڑا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں