"AAC" (space) message & send to 7575

ڈنکا بجانے سے بغلیں بجانے تک

رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کا مہینہ رخصت ہو چکا ہے۔ ملک میں کہیں 28تو کہیں 29 (پورے) روزے رکھے گئے۔ دو دو عیدیں منائی جا چکی ہیں۔ کے پی کے حکومت کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ 28 روزوں کے بعد عید کا اعلان وزیر اعظم کے مشورے سے کیا گیا جبکہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کا مطالبہ ہے کہ کے پی کے میں عید کے چاند کی جھوٹی گواہیاں دینے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔ اس طرح تحریک انصاف کے وزراء کی آپس میں ٹھن چکی ہے۔ کے پی کے حکومت سے نالاں فواد چودھری نے تو عیدالاضحی اور یکم محرم کی قمری تواریخ کا اعلان بھی کر ڈالا ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اس معاملہ کو ثانوی حیثیت بھی نہیںدی‘ اور کے پی کے حکومت کے وزیر اطلاعات کے بیان کی تائید کی اور نہ ہی تردید۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب روز اول سے ہی Divide & Rule کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اپنے ہی وزیروں اور مشیروں کو آپس میں الجھا کر مزہ لیتے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی رحمتوں، برکتوں اور بخششوں والے مہینے کے رخصت ہونے کی۔ کے پی کے عوام کا ایک روزہ کھایا جا چکا ہے۔ اس کا ازالہ یا کفارہ کب اور کیسے ادا ہوتا ہے‘ یہ عید منانے والے حکمران ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ برکتوں، رحمتوں اور بخششوں کا مہینہ تو خیر جیسے تیسے حکومت نے گزار لیا‘ اب جون کا مہینہ ہے۔ بلا کی گرمی... اور بجٹ کا کٹھن مرحلہ حکومت کے لیے کڑی آزمائش بننے کو ہے۔ مہنگائی ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کو نڈھال اور بے حال کیے ہوئے ہے۔ اس پر بجٹ کا تڑکا مسائل بڑھانے کے لیے کافی ہو گا۔ بجٹ کا پاس ہونا ایک علیحدہ کٹھن مرحلہ ہو گا۔ تیل کی قیمتیں عوام کا تیل نکالنے کے درپے ہیں‘ جبکہ بجلی اور گیس کے بلوں سے عوام بلبلائے جا رہے ہیں... آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
بجٹ کے بعد کا منظر نامہ اگر چشمِ تصور میں لایا جائے تو کم و بیش کچھ ایسا ہی ہو گا۔ بلا کی جھلسا دینے والی گرمی‘ قوت خرید سے کہیں دور اشیائے ضروریہ‘ بساط اور اوقات سے باہر یوٹیلٹی بلز... اور پھر زمینی حقائق کے برعکس حکومتی چیمپئنز کے بیانات۔ جھوٹے وعدے۔ دلاسے اور تسلیاں۔ یو ٹرن۔ بلکہ راؤنڈ اباؤٹ۔ ایسے میں عوام سراپا احتجاج ہیں۔ اور بس ماتم کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر چند مہینے اور اسی طرح گزر گئے اور سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو ستمبر کا مہینہ حکمرانوں کے لیے ستمگر بن سکتا ہے۔ اور پھر اس ٹکراؤ میں کیا بچتا ہے اور کیا نہیں‘ یہ بھی سامنے آ جائے گا۔
وطنِ عزیز یقینا انتہائی مشکل حالات بلکہ کڑی آزمائشوں کے نرغے میں ہے۔ عوام سمیت نہ جانے کون کون اپنے فیصلوں پر پچھتانے اور نظر ثانی پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ حکمرانوں کی علمی قابلیت اور انتظامی مہارت کا ڈنکا بجانے والے اب بغلیں بجاتے دکھائی دیتے ہیں۔ بنیادی علوم سے نا بلد اور زمینی حقائق سے بے نیاز حکمران پہلے دن سے ہی صبح، دوپہر، شام یہ ثابت کیے چلے جا رہے ہیں کہ کھیل اناڑیوں کے ہاتھ آ چکا ہے۔ اب دیکھیں مزید کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں۔ گورننس اور میرٹ تو ویسے ہی بے معنی اور غیر متعلقہ الفاظ بن کر رہ گئے ہیں۔ ایمنسٹی سکیم سے مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکامی کے بعد اب ٹیکس چوروں کے خلاف طبلِ جنگ بجایا جانے والا ہے۔ فریجوں، الماریوں، لحافوں، تکیوں اور دیگر پوشیدہ خانوں میں بھرے کرنسی نوٹ برآمد کرنے کے لیے حکمتِ عملی تیار کی جا رہی ہے‘ جبکہ باخبر ذرائع کالے دھن کے حوالے سے بینک لاکرز کو بھی غیر محفوظ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کسی بھی وقت بینک لاکرز سربمہر کر کے پوشیدہ ملکی و غیر ملکی کرنسی نوٹ برآمد کر سکتی ہے۔
تقریباً ایک سال سے معیشت کی گتھی سلجھائی جا رہی ہے۔ ابھی کتنی گرہیں باقی ہیں اور حکومت یہ گرہیںکھولنے میں کب تک اور کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ کہنا انتہائی مشکل اور قبل از وقت ہو گا۔ بعض اوقات یہ تاثر نہ جانے کیوں کنفیوژن کا باعث بنتا ہے کہ ٹیکس چوروں اور کالا دھن رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کا شور مچانے والے اس کام میں سنجیدہ اور مخلص ہی نہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں‘ کالا دھن برآمد کرنے کے کئی مفید اور کارآمد نسخے موجود ہیں‘ لیکن کہیں ضرورت ہے تو صرف اخلاص اور نیت کی۔ بلا امتیاز اور بے رحمانہ احتساب ہی واحد حل ہے‘ لیکن ہمارے ہاں چوروں کو تحفظ دینے، نجات اور فرار کے راستے بتانے والے سہولت کاروں کی کمی نہیں۔ کارروائی پر مامور افسران اور اہلکار ہی یہ فریضہ انتہائی جانفشانی اور دیانتداری سے ادا کر دیتے ہیں؛ تاہم اگر حکومت واقعی اس کام میں سنجیدہ ہے تو اس کے لیے چند دہائیاں پیچھے جا کر کالا دھن رکھنے والے ارب پتی شرفاء کے ماضی پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔ اس سے اس کارِ بد کی ابتدا اور مخصوص عوامل کی نشاندہی بہ آسانی ہو سکتی ہے۔
کالے دھن کی ان بہتی گنگا نے کس کس کو سیراب کیا اور کس نے ڈبکیاں لگائیں‘ یہ بھی ریکارڈ اور تاریخ کا حصہ ہے۔ پھر ہوا یوں کہ مذکورہ ناجائز ذرائع سے کمایا کالا دھن چھپانے اور لگانے کیلئے رئیل اسٹیٹ ایک محفوظ اور پوشیدہ سرمایہ کاری ثابت ہوئی‘ اور پھر بتدریج اپنا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی رہائشی علاقوں کے خیرباد کہہ کر پوش علاقوں میں رہائش اختیار کر لی اور یوں اُن کی ''کلاس‘‘ تبدیل ہو گئی۔ اور پھر کاروبار شروع کیا‘ فیکٹریاں لگائیں اور اس طرح ان کا شمار شہر کے متمول اور کھاتے پیتے گھرانوں میں ہونے لگا۔ رقوم کی محفوظ اور پوشیدہ ترسیل کو یقینی بنانے کیلئے اپنے قریبی اور قابل اعتماد عزیزوں اور اپنے منشیوں، ڈرائیوروں اور دوسرے ملازموں کے نام پر اکائونٹ کھول کر ''کالے دھن‘‘ کو فروغ دیتے رہے۔ اور آج وہ اپنے اپنے شہروں کی اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں۔ جائیدادوں کی خرید و فروخت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ اپنے با اعتماد دوستوں، عزیزوں اور ملازموں کے نام پر جائیدادیں بنا کر حکومتی اداروں کی پکڑ اور لوگوں کی نظروں سے محفوظ رہے۔
اگر نواز شریف اور اُن کے خاندان سے منی ٹریل طلب کی جا سکتی ہے اور آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکتا ہے تو معاشرے میں چلتے پھرتے ہزاروں، لاکھوں ''ننھے منے شریف زرداریوں‘‘ سے بھی پوچھا جانا ''عین منطقی‘‘ ہے کہ یہ ساری جائیدادیں، کاروبار، عیش و آرام، نوکر چاکر، گاڑیاں کوٹھیاں، ریل پیل اور تام جھام کیسے آیا؟
ایک انتہائی مفید اور کار آمد نسخہ نما مشورہ حکومت کیلئے حاضر ہے۔ ملک بھر کے پٹواریوں کو پابند کیا جائے کہ ایک خاص حد سے زیادہ اراضی اور جائیداد رکھنے والے افراد کی فہرست مرتب کرکے ڈپٹی کمشنرز کو فراہم کریں۔ مثلاً 15 یا 20 ایکڑ سے زائد اراضی رکھنے والے افراد کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ان جائیدادوں کی وضاحت کریں کہ کہاں سے حاصل کیں۔ پٹواری ان سرمایہ داروں کی ''دائی‘‘ ہوتا ہے۔ اسے خوب معلوم ہوتا ہے کہ جائیداد کس نام پر ہے۔ اس کی رکھوالی کون کرتا ہے۔ جائیدادوں کی فرد کون نکلواتا ہے۔ اور اس کی گرداوری کون کرواتا ہے۔ اور اسے عید، شب برات پر تحفے کون بھجواتا ہے۔ جائیدادوں کی فہرست مکمل ہونے کے بعد صاحب جائیداد کو بڑی عزت اور احترام سے ڈپٹی کمشنر کے آفس بلوایا جائے اور اُن سے کہا جائے کہ وہ اپنی ان جائیدادوں کی تفصیل فراہم کریں۔ اگر وہ ان سوالات کے جواب دستاویزی ثبوت کے ساتھ فراہم کر دیں تو انہیں چائے پلا کر رخصت کیا جائے۔ بصورت دیگر ان کی جائیدادیں بحق سرکار ضبط کر لینی چاہیے اور قانون کے مطابق کارروائی بھی ہونی چاہیے۔ بعد ازاں اُن جائیدادوں کو فروخت کرکے اُن سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں جمع کروائی جائے۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ایف بی آر‘ ایف آئی اے اور ریونیو پر مشتمل ایک مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی جائے‘ جو بے رحمانہ اور بلا امتیاز کارروائی کرکے ٹیکس چوری سے لے کر تجوریوں اور بے نامی اکائونٹس میں پوشیدہ اربوں روپے کا کالا دھن برآمد کر سکے۔ حکومت کے پاس وسائل موجود ہیں‘ کمی ہے تو ویژن اور اہداف کے تعین کی۔ اس طرح پکڑا جانے والا ''کالا دھن‘‘ قومی خزانے کا حصہ بن سکتا ہے اور اس طرح ہماری قومی معیشت جو اس وقت ''وینٹیلیٹر‘‘ پر ہے‘ اُسے نہ صرف سنبھالا مل سکتا ہے بلکہ مستحکم بھی کیا جا سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں