بجٹ اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ آنے کو تیا رہے۔ عوام کا خون خشک اور رنگ پیلا ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ ماہرین کے مطابق چھ افراد پر مشتمل گھرانے کو ٹیکسز سمیت بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں چالیس ہزار روپے کا اضافی ٹیکہ لگایا جائے گا۔ جبکہ آمدن میں چالیس روپے کے اضافے کا بھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ''احساس عوام‘‘سے سرشار تحریک انصاف کی حکومت کو ہی یہ اعزازحاصل ہے کہ اس نے ریکارڈ مدت میں وہ سارے کام از خودہی کر ڈالے‘جو کسی حکومت کو غیر مقبول اور غیر فعال کرنے کیلئے کئے جا سکتے ہیں۔ کپتان کے کھلاڑی اناڑی ثابت ہو چکے ہیں۔ بجٹ کے ساتھ ہی مہنگائی اور گرانی کا عذاب آفتِ ناگہانی بن کر عوام کو مزید ہلکان اور نڈھال کرنے جار ہا ہے۔ عوام کے دلوں میں رہنے کیلئے آنے والے حکمران اب عوام کے دلوں سے اترتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی احساس عوام کے ہاتھوں مجبور ہو کر 177ریسٹ ہائوسز عوام کیلئے کھول دئیے ہیں جن کی آمدنی سے صوبے میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ عوام کی زندگیاں آسان اور خوشحال ہو جائیں گی‘ سنہری دور کا آغاز ہو گا‘ دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی‘ خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ اور نجانے کیا کیا ہو گا‘ یہ تو حکمران ہی بتا سکتے ہیں۔ اف خدایا...! اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘ دو وقت کی روٹی اور یوٹیلٹی بلز کے شکنجے میں جکڑے عوام کی اکثریت کی جانے بلا کہ سرکار نے ریسٹ ہائوسز عوام کے لئے کھول دئیے ہیں۔ جن کی زندگیاں اپنے ہی گھروں میں اجیرن اور جنجال بن کر رہ گئی ہوں انہیں سرکاری ریسٹ ہائوسز سے کیا لینا دینا۔
بد قسمتی سے ہمارے حکمران ہر دور میں اقلیتی طبقے کا نمائندہ ثابت ہوتے ہیں۔ روٹی اور یوٹیلٹی بلوں سے بے نیاز طبقے کی نمائندگی کرنے والے حکمرانوں کو کیا معلوم کہ گرانی اور بدحالی کے اس دور میں عوام کو ریسٹ ہائوسز کی خوشخبری دینا ایسا ہی ہے جیسے روٹی سے مجبور کسی لاچار اور بے کس کو کیک اور پیسٹری کھانے کا مشورہ دینا۔ بزدار صاحب مزید فرماتے ہیں کہ خرابیاں دور کرنے کیلئے نظام درست کریں گے۔ نظام کی درستی کی باتیں کرنے والے وزیر اعلیٰ اگر اپنی حکومت کی سمت ہی درست کر لیں تو منظر نامہ بدل سکتا ہے۔ نظام درست کرنے کیلئے سمت کا درست ہونا ضروری ہے۔ جس طرح اسلام آباد جانے کیلئے جی ٹی روڈیا موٹر وے پر سفر کرنا ضروری ہے اسی طرح اہداف کے حصول کیلئے درست سمت اور منزل کا تعین بھی ناگزیر ہے‘ جبکہ بزدار سرکارسفرتو ملتان روڈ اور فیروزپور روڈپرکر رہی ہے لیکن جانا اسلام آباد چاہتی ہے ۔ ایسے میں نہ سفر ختم ہو گا اور نہ ہی منزل کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ اور ایک نہ ختم ہونے والا بے مقصد سفر اسی طرح جاری رہے گا۔
بات ہور ہی تھی ٹیکسز کی تو ایک ایسی خبر شیئر کرتا چلوں جو یقینا عوام کی اکثریت کیلئے بریکنگ نیوز ہی ہو گی۔ ''احساس عوام‘‘سے سرشار حکومت پوش علاقوں اور ہائوسنگ سوسائٹیوں میں واقع بڑی اور وسیع و عریض کوٹھیوں ‘ بڑے گھروں‘ حویلیوں اور عمارتوں کے مکینوں سے صرف گیارہ ارب روپے پراپرٹی ٹیکس کی مد میں اکٹھا کر رہی ہے۔ جبکہ اس ٹیکس میں مزید کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ یہاں بھی حکمران عوام کے اقلیتی طبقے کی نمائندگی کرتے صاف نظر آتے ہیں جبکہ بے کس اور لاچار عوام پٹرول‘ یوٹیلٹی بلز اور اشیائے ضروریہ کے ہاتھوں عاجز آئے ہوئے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت تو دور کی بات علاج معالجہ بھی محال ہے۔
شہباز کی پرواز لاہور ایئر پورٹ پر اتر چکی ہے ۔ حالیہ چند کالموں میں سے کسی ایک میں ذکر کیا تھا کہ شہباز شریف کو بھگوڑا کہنے والے حکومتی وزرا اور مشیر خاطر جمع رکھیں‘ اور کسی بھول میں نہ رہیں‘ شہباز شریف جلد وطن واپس آئیں گے ۔ وہ لندن کسی سیر سپاٹے کیلئے نہیں گئے‘ جونہی ان کا کام مکمل ہو گا وہ لوٹ آئیں گے۔ آگ برساتے سورج کی گرمی اپنی جگہ ‘ سال بھر کے حکومتی اقدامات کے نتائج اور کارکردگی کے علاوہ مزاحمت پر آمادہ اپوزیشن کا ''تڑکا‘‘ سیاسی منظر نامے پر ہلچل مچانے کیلئے کافی ہے۔ شہباز شریف کی واپسی عین اس وقت ہوئی ہے جب بجٹ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے حکومت دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور نظر آتی ہے جبکہ بجٹ سیشن کے دوران سپیکر قومی اسمبلی اپوزیشن سے تعاون اور ہنگامہ نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرتے نظر آئیں گے۔ یہ حالات شہباز شریف اور ان کی سیاست کیلئے موافق ہو سکتے ہیں۔
''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘کے تصور کی نفی حکومت کے گلے پڑ چکی ہے۔ پروفیشنلز کے بجائے ذاتی رفقا اور مصاحبین کو شریک اقتدار کرنے کا تجربہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ بلکہ یہ مصاحبین مسلسل حکومتی سبکی اور بدنامی کا باعث بننے کے باوجود بدستور بااختیار‘ براجمان اور منتخب وزرا پر حاوی نظر آتے ہیں۔22 سال سے جدوجہد میں مصروف سابق حکمرانوں کی لوٹ مار اور بدعنوانیوںپر سیاست کرنے والی تحریک انصاف یہ تاثر کیوں دے رہی ہے کہ وطن عزیز کی معاشی بدحالی ان کے لئے غیر متوقع اور سرپرائز ہے؟ اور یہ کہ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ معاشی صورتحال اتنی نازک اور تشویشناک ہے۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ وہ کون سے حالات اور معاملات تھے جو ان سے پوشیدہ تھے۔ وہ کون سے اندرونی حقائق تھے جن سے وہ لاعلم تھے۔ معیشت سے لے کر گورننس تک ‘ امن و امان سے لے کر اپنی نیت تک سبھی کچھ تو یہ دھرنوں میں چیخ چیخ کر عوام کو بتاتے رہے ہیں۔ ملکی خزانے سے لے کر حکمرانوں کی املاک اور ملکی و غیر ملکی اکائونٹس تک‘ ساری خبریں تو یہ خود عوام کو دیتے تھے۔ تو پھر انہیں کیا نہیں پتہ تھا؟ اور کیوں نہیں پتہ تھا؟ تحریک انصاف اگر اپنے دعووں اور وعدوں کا نصف بھی سچ کر دکھاتی تو بخداپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت کئی سیاسی جماعتوں کی سیاست تو کیا ان کی سیاست کا بیج بھی مر جاتا۔
سالِ رواں کے آخری چھ ماہ کا کائونٹ ڈائون شروع ہونے والا ہے۔ یہ چھ ماہ انتہائی اہم قرار دئیے جار ہے ہیں۔ اپوزیشن مہنگائی سمیت دیگر ایشوز پر اکٹھی ہو رہی ہے۔ بجٹ اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال حکومت کیلئے کڑی آزمائش بننے کو ہے۔ جبکہ آصف علی زرداری کی گرفتاری کی باتیں بھی زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ ججز کے خلاف ریفرنس بنانے پر ملک بھر کے وکلانے 14 جون کو ہڑتال کی کال دے دی ہے اور نوازشریف نے بھی مریم نواز کو ججز سے یکجہتی کی تحریک میں شریک رہنے کی ہدایت کی ہے۔ وکلا کی اس احتجاجی تحریک میں سیاسی جماعتوں کی شمولیت اور یکجہتی سیاسی ٹمپریچر کو انتہائی درجہ پر لے جاتی نظر آتی ہے۔ ادھر کراچی بار ایسوسی ایشن نے ریفرنس بھجوانے پر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور کی رکنیت منسوخ کر دی ہے جبکہ وزیر قانون کا کہنا ہے کہ ریفرنس بھجوانے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ ایف بی آر ذمہ دار ہے۔
چلتے چلتے یہ خبر بھی شیئر کرتا چلوں کے تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد کے پودے کو طویل عرصہ بھر بھر مشکیں ڈالنے والے عبدالعلیم خان کو دوبارہ پنجاب کابینہ کا حصہ بنایا جا رہاہے۔ ان کی حیثیت ڈپٹی چیف منسٹر کی ہو گی اور ان کی سابقہ وزارتوں کا قلم دان بھی انہیں سونپا جا رہا ہے۔تحریک انصاف میں عبدالعلیم خان کے کردار اور جدوجہد کو موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہو گا کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔