اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور نیب کی مجال کو للکارنے والے مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری بالآخر گرفتار ہو چکے ہیں۔ اگلا ہدف حمزہ شہباز بنے۔ وہ بھی گزشتہ روز سے نیب کے مہمان بن چکے ہیں۔ افطاریاں ختم ہوتے ہی گرفتاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ یہ معاملہ اب کہیں رکتا نظر نہیں آ رہا۔ احتساب کا یہ دائرہ بتدریج اپنے آخری ہدف تک پہنچ کر ہی رہے گا۔ نیب کے دائرے کے حوالے سے کوئی پیش گوئی یا دعویٰ نہیں کر رہا بلکہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عبوری ضمانتوں میں توسیع پر توسیع اور دیگر تاخیری حربے مکافات اور انجام سے بھلا کب بچا سکتے ہیں۔ زرداری صاحب کی گرفتاری کے بعد وہی روایتی واویلا اور پریس کانفرنسیں جاری ہیں۔ سندھ کے کئی شہروں میں چند موٹر سائیکل سوار زبردستی دکانیں بند کرواتے رہے۔ اکثر لوگوں نے زرداری سے یکجہتی کے بجائے حفظِ ماتقدم کے طور پر دکانیں وقتی طور پر بند کر دیں۔ الغرض پیپلز پارٹی والے زرداری کی گرفتاری کے ردِ عمل میں یومِ سیاہ منانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ زرداری کی گرفتاری کے فوری بعد پریس کانفرنس کرنے والے بلاول بھٹو انتہائی ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں مار بھی رہے ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے... بلاول کا یہ بیان انتہائی دلچسپ اور مضحکہ خیز ہے۔ یعنی: ؎
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ مفاہمت کے بادشاہ نے اس گرفتاری کو ٹالنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ سیاسی تعاون کی عملی خدمات سے لے کر مفاہمت کی پیشکش تک سبھی کچھ تو کر ڈالا۔ پانچ بار ضمانت میں توسیع کے بعد جس سے ڈر رہے تھے‘ بالآخر وہی بات ہو گئی۔ عزیر بلوچ سے لے کر راؤ انوار تک... انور مجید سے لے کر مراد علی شاہ تک... نا جانے کس کس نے... کہاں کہاں... اور کیا کیا اگل دیا ہو گا؟ گرفتاری کے اگلے روز ریمانڈ کے لیے جب زرداری کو عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ پہلے سے زیادہ با اعتماد‘ پُر سکون اور اپنے مخصوص لب و لہجے میں خوش گپیاں کرتے نظر آئے۔ گویا گرفتاری اُن کا آخری ڈر ہو اور وہ ڈر نکلتے ہی اُن کی ''باڈی لینگوئج‘‘ ہی بدل گئی۔
یوں تو وطنِ عزیز کے حکمرانوں‘ اعلیٰ حکام اور اشرافیہ کی بد اعمالیوں‘ لوٹ مار اور اقربا پروری کی چونکا دینے والے اَن گنت داستانیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ کسی منصب دار نے کوئی شرم کی۔ ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب صاف صاف نظر آرہا تھا۔ سربراہِ حکومت سے لے کر پٹواری تک کسی پر کوئی الزام لگا دیجئے کلک کر کے فٹ بیٹھ جائے گا۔ جب معاشرے میں احترام سے دیکھے جانے والوں کی قیادت اور دیانت سوالیہ نشان بن جائے تو پھر کیسی حکومتیں اور کیسی قیادتیں؟
تاریخ میں پہلی بار چشمِ فلک نے دیکھا کہ حکمرانوں سے احتساب شروع کیا گیا ہے‘ کئی دہائیوں پر محیط انتظامی سسٹم پر مضبوط گرفت رکھنے والے حکمران احتساب کی پکڑ سے نہ بچ سکے۔ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو اپنے ہی دور اقتدار میں کرپشن‘ بد عنوانی اور ندامت کے داغ لے کر اقتدار سے علیحدہ ہو کر نا صرف احتسابی عمل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سزاوار قرار دیے جانے کے بعد آج وہ پابندِ سلاسل ہیں۔ اس احتسابی عمل کا شکار وہ خود ہی نہیں بلکہ بیٹی‘ داماد‘ بھائی سمیت دیگر قریبی رفقا بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر اسیری کے بعد ضمانت پر رہائی پا چکے ہیں‘ جبکہ بھائی شہباز شریف بھی ضمانت پر رہائی پا کر کھلے عام پھر رہے ہیں۔ اور اب نواز شریف کی طبی بنیادوں پر چھ ہفتے کی ریلیف کے بعد دوبارہ جیل پہنچ چکے ہیں۔ کرپشن کہانی کا انجام... حکمران ''در بدر‘‘... یعنی شریف خاندان...پسِ زندان۔
آصف علی زرداری نے بڑی احتیاط اور کمال مہارت سے خود کو نواز شریف کے خلاف ہونے والی احتسابی کارروائیوں سے لاتعلق رکھا۔ بلوچستان کی حکومت سازی ہو یا سینیٹ کا انتخاب‘ انہوں نے مفاہمت اور تعاون کی آخری حدوں تک جا کر دیکھا کہ ان خدمات اور سہولت کاری کے عوض شاید جان خلاصی ہو جائے‘ ان کے خاندان اور قریبی ساتھیوں کے خلاف جاری تحقیقات میں کچھ رعایت اور سہولت مل جائے... لیکن ایسا ہو نہ سکا... مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ سہولت کاری اور مفاہمت کے سارے فارمولے آزمانے کے باوجود احتسابی گھیرا دن بدن ان کی ہمشیرہ‘ قریبی ساتھیوں اور خود ان کے گرد تنگ ہوتا چلا گیا۔ نیب نے ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی گرفتاری کو مؤخر کرکے انہیں گرفتار کر لیا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی مزاحمت اور مظاہروں کے حوالے سے ''حدّ برداشت‘‘ سے آگے گئی تو فریال تالپور صاحبہ کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
پانچ سال بلا شرکت غیرے اقتدار کے دوران آصف علی زرداری نے سیاسی رواداری اور مفاہمت کے نام پر ایک نیا کلچر متعارف کروایا تھا۔ سرنگوں... سربلند‘ مجرم...معتبر‘ لوٹ مار...حلال‘ تو بھی کھا... مجھے بھی کھلا‘ بلے بلے...چل سو چل‘ ''جھاکا اترے‘‘ حکمران کی مفاہمت کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے... لوٹو اور لوٹنے دو۔ ا س کے بعد خود بھی بھاگو... اور مجھے بھی بھاگنے دو۔ بس یہی ایک مفاہمت فارمولا ہے جو آصف علی زرداری نے نہ صرف خود پرلاگو کیا بلکہ اپنے سیاسی حریفوں کو بھی اس کارِ بد میں شرکت کا بھرپور موقع دیا تاکہ بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو سکیں۔
خیر بات ہو رہی تھی احتساب کے دائرے اور اہداف کی۔ نیب کو مطلوب افراد کا تعلق صرف اپوزیشن سے ہی نہیں ہے‘ بلکہ حکومتِ وقت بھی اس حوالے سے ''خود کفیل‘‘ ہے۔ کوئی وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھا ہوا ہے تو کوئی وزیر اعظم کا انتہائی قریبی اور معتمد تصور کیا جاتا ہے۔ آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد اپوزیشن اور عوامی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑ چکا ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے نیب زدگان گرفتاریوں اور اپنے انجام سے دور کیوں ہیں؟ احتساب کا عمل اگر بلا لحاظ و تمیز اپنے آخری ہدف تک نہ پہنچا تو ابہام پیدا ہو سکتے ہیں۔ لٹی پٹی اس قوم کے لیے یہ مقامِ شکر ہے کہ حکمرانوں‘ اشرافیہ اور اعلیٰ حکام سے بھی کوئی جواب طلب کرنے والا ادارہ موجود ہے۔اس قوم کے لیے اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو گی کہ اقتدار اور اختیار کے نشے میں دھت ہو کر فیصلے اور ''ایڈونچرز‘‘ کرنے والوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ تم نے یہ فیصلے کس قانون اور ضابطے کے تحت کیے؟ ملکی وسائل اور معیشت کو بھنبھوڑ کر رکھ دیا۔ کس کھاتے میں؟ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا‘ کس بل بوتے پر؟ سب کو یکساں طور پر جواب دہ بنا دیا گیا ہے... اب وقت آن پہنچا ہے کہ احتساب کا یہ گھیرا اپنے آخری ہدف تک بھی ضرور پہنچے گا۔ اور کرپشن کو موت دے کر ہی اس ملک کی معیشت اور اخلاقی اقدار کو بچایا جا سکتا ہے‘ جو پہلے ہی ''وینٹی لیٹر‘‘ پر ہیں۔
قانون اور ضابطے عوام اور مملکت کی سہولت اور آسانیوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اور جب آئین کی کتاب کو حکمران الٹی تسبیح کی طرح پڑھنا شروع کرتے ہیں تو یہی قانون اور ضابطے ثواب کے بجائے عذاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ بد قسمتی سے ملک و ملت کی پاسداری و خدمت کا حلف اٹھانے والے ہی اس کی بربادی اور بد حالی کے ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں۔ احتساب سے لے کر تجاوزات تک ہر جگہ تجاوز ہی تجاوز نمایاں ہے۔ سالِ رواں کے آخری چھ ماہ کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ سال کسی ایک پارٹی کے حوالے سے نہیں بلکہ وطنِ عزیز کے سارے سیاستدانوں کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے مستقبل کا اہم ترین فیصلہ اسی سال آنے کو ہے۔ عوام سے تغافل‘ بے وفائی اور بد عہدی کے مرتکب سیاستدانوں سے چھٹکارے میں ہی اس ملک و قوم کی بقا ہے۔ خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہوا اور یہ قانون اور ضابطے کی پکڑ سے بچ نکلے تو قانونِ فطرت ضرور حرکت میں آئے گا۔ قانونِ فطرت کے آگے مزاحمتیں‘ مظاہرے‘ تقریریں اور پریس کانفرنسیں سبھی بے معانی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی۔ تدبیریں اور ترکیبیں سب کی سب دھری رہ جاتی ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مکافاتِ عمل کا ایک اور نمونہ الطاف حسین کو لندن میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جس پر اگلے کالم میں تفصیل سے بات کریں گے۔