لندن والی ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین برطانوی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر ضمانت پر رہائی پا چکے ہیں۔ پولیس نے ان کے گھر اور پارٹی سیکرٹریٹ کی تلاشی اور پوچھ گچھ کے بعد انہیں چھوڑ دیا ہے۔ وطنِ عزیز میں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر بڑے آدمی کے خلاف‘ بڑی سے بڑی واردات کے خلاف‘ ثبوتوں کے حوالے سے ہمیشہ قحط کا ہی سامنا رہا ہے۔ لندن پولیس بھی ثبوت جیسی ''جنس‘‘ کی کمیابی کا ہی شکار دِکھائی دیتی ہے۔ بلا شبہ ثبوت ایک ایسی چیز ہے جس کی بنیاد پر کسی کو گنہگار یا بے گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ تعجب ہے! ملک لوٹنے والوں کے ہاتھ بھی صاف ہیں اور ملکی خزانہ بھی صاف... ڈھونڈتے پھرو ثبوت اور کرتے رہو احتساب۔
شہر قائد میں ایک ڈی ٹائپ کوارٹر میں پیدا ہونے والا الطاف حسین اس ملک کی سیاست اور حکمرانوں پر ناگزیر ترین حیثیت کے ساتھ اس طرح مسلّط رہا‘ گویا ریاست اور سیاست‘ دونوں اسی کے سہارے کے مرہون منت اور محتاج ہیں۔ جنرل ضیاالحق کے ہاتھوں لگنے والے اس زہریلے اور جان لیوا پودے کو بھر بھر مشکیں ڈالنے والے سبھی حکمران ''کوڑھ‘‘ کاشت کرتے رہے ہیں۔ ان کی نیتوں اور اعمال کے بیجوں سے پیدا ہونے والی فصل ''کوڑھ زدہ‘‘ نکلی۔ اس کوڑھ نے ملکی سیاست کے ساتھ جو کیا سو کیا‘ اَمن و اَمان سے لے کر معیشت تک‘ ملکی وسائل سے لے کر حب الوطنی تک جو تباہی اور بربادی پھیلائی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
کوڑھ کی اس فصل کی آبیاری کرکے پروان چڑھانے والے سیاست دان اور حکمران آج مکافاتِ عمل اور بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ جنرل ضیاالحق اور بے نظیر بھٹو تو اس دنیا میں نہیں رہے؛ البتہ اس کارِ بد کے دیگر ذمہ داران اپنا درد ناک انجام اپنی زندگی میں ہی دیکھ رہے ہیں۔
سلام ہے شہر قائد کے عوام کو جنہوں نے کئی دہائیوں تک اس عذاب مسلسل کو جھیلا۔ سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدار کی بھوک‘ ہر حکمران نے اس ناسور کو گلے سے لگایا اور جو ظلم کمایا آج سب کے سامنے ہے۔ میرے خیال میں ماضی کے سارے حکمران بھائی کے شریک جرم رہے‘ جس کا ایک ایک نوالہ کراچی کے معصوم عوام کے خون کے چھینٹوں سے تر ہے۔ کتنا خون بہایا گیا؟ کتنی ماؤں کی گود اُجاڑی گئی؟ کتنے سہاگ دن دیہاڑے خون میں نہلائے گئے؟ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے؟ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا گیا؟ 'بھائی‘ کا دانستہ و نا دانستہ ساتھ دینے والے سبھی لوگوں کے ہاتھ کراچی کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔
جنرل آصف نواز جنجوعہ نے جب کراچی میں آپریشن شروع کیا تو ''حاکمِ وقت‘‘ کو اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے تھے۔ عقوبت خانوں کی دلخراش داستانیں جب منظرِ عام پر آئیں تو ہر دردِ دل رکھنے والا لرز کر رہ گیا تھا۔ نہیں لرزے تو مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے سیاستدان نہیں لرزے۔ کیسا کیسا انمول ہیرا 'بھائی‘ کے غضب کا نشانہ بنا؟ کیسی کیسی قدآور شخصیات کی آواز ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی اور پھر ''جعلی بیمار‘‘ اور وطن دشمن کو کس طرح ملک سے فرار کروایا گیا۔ اس درد ناک ماضی کو کون جھٹلا سکتا ہے۔
چشم فلک گواہ ہے کہ مملکتِ خداداد کے طول و عرض میں کوئی ایسا قابلِ ذکر سیاستدان نہیں جو اپنی مجبوریوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس وطن دشمن کے در پر نہیں گیا۔ بڑے بڑے جمہوریت کے علمبردار اور عوام کے غم میں مرے جانے والے سیاستدان اپنے وسیع تر مفاد میں مفاہمت اور تعاون کی بھیک کے لیے سوالی بن کر اس کے در پر حاضری دیتے رہے‘ اور اس تعاون کے عوض شہر قائد میں چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس نے آنکھ اٹھائی‘ وہ پھر سر اُٹھا کر نہ چل سکا۔ سیاسی مفاہمت اور تعاون کے نتیجے میں ہونے والا یہ گٹھ جوڑ کراچی کے عوام کے لیے عذاب مسلسل ہی بنا رہا۔ حکمرانوں نے 'بھائی‘ کو سیاسی تعاون کے عوض ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دیے رکھا۔ شہر قائد کے عوام وطن دشمن کے رحم و کرم پر ہی رہے۔
کراچی کے عوام 'بھائی‘ کے ہاتھوں اپنے ہی شہر میں محصور ہوکر رہ گئے تھے۔ کسی بڑے سے بڑے کاروباری کی مجال نہ تھی کہ وہ بھتے کی پرچی پر مطلوبہ رقم بروقت نہ پہنچائے۔ جس نے مزاحمت کا سوچا بھی وہ اگلے جہان بھیج دیا گیا۔ کسی سرکاری افسر یا اہلکار کی کیا حیثیت تھی کہ وہ 'بھائی‘ کی منشا کے مطابق کام نہ کرے۔ 'بھائی‘ والی ایم کیو ایم کے مدِ مقابل الیکشن لڑنا تو موت کو کھلی دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ماسوائے بڑی سیاسی جماعتوں کے‘ کوئی عام شہری الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اُسے سیدھا سیدھا پیغام بھیجا جاتا کہ ''بیٹھنا ہے یا لیٹنا ہے‘‘؟ مطلب ہمارے حق میں بیٹھ جاؤ ورنہ قبر میں لٹا دئیے جاؤ گے۔ نشانہ بننے والوں کے پاس اپنی اپنی توجیہات اور وضاحتیں ہیں۔
چندوں، بھتوں، لوٹ مار، دادا گیری، قتل و غارت اور دیگر ذرائع سے سمیٹے ہوئے حرام مال سے وطن دشمن کو پالنے والے احتساب کے ریڈار کی زد میں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مکافاتِ عمل کا یہ گھیرا کب اِن کے گرد تنگ ہوتا ہے۔ آج نہیں تو کل وہ اپنے اعمال کی کھیتی ضرور کاٹتے نظر آئیں گے۔
شہرِ قائد کی بربادی اور وہاں ہونے والی لوٹ مار میں مبینہ طور پر ان کے اپنے ہی شہر کا میئر بھی ''رنگے ہاتھ‘‘ لیے پھر رہا ہے۔ اس نے بھی اپنے قائد کی تابعداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اسی طرح 'بھائی‘ والی ایم کیو ایم کے دیگر قائدین بھی جھوٹے سچے جواز تراشے پھر رہے ہیں۔ کچھ با آسانی فرار ہو چکے ہیں تو کچھ یہاں رہ کر نیا جال اور نیا بیانیہ لیے سرگرم ہیں۔ جب قانونِ فطرت حرکت میں آتا ہے تو ساری احتیاطیں، پیش بندیاں، حکمتِ عملیاں، چالاکیاں اور ہوشیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ ریاست کے قانون کو گھر کی باندی سمجھنے والوں کے لئے وہی قانون گلے کا پھندہ بن جاتا ہے۔ پھر وکالتیں اور عدالتیں بھی پناہ دینے سے انکاری ہو جاتی ہیں کیونکہ ''آسمانی فیصلوںکے آگے... زمینی وکالتیں نہیں چلتیں‘‘۔
12 مئی 2007ء کا وہ دِن کسی کے بھی ذہن سے محو نہ ہوا ہو گا‘ جب دِن دیہاڑے کراچی کی سڑکوں پر ''خون کی ہولی‘‘ کھیلی گئی۔ حکمرانوں کو بھی یہ یاد ہو گا کیونکہ وہ خود اِس خون ریزی کی انکوائری اور ذمہ داروں کے تعین کا مطالبہ کرتے نہ تھکتے تھے... الطاف حسین کے پیروکار اور قانونی مشیر آج ان کے ساتھی ہیں۔ تاریخ کا پہیہ گواہ ہے کہ جس نے بھی اس مٹی سے غداری کی... جس نے بھی وطنِ عزیز کے عوام کے خون کو پانی سے بھی ارزاں جانا... نہ وہ رہا اور نہ ہی اُس کا اقتدار۔ مُکّے لہرا لہرا کر بات کرنے والا مطلق العنان حکمران جنرل پرویز مشرف ہو یا مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری‘ نواز شریف ہوں یا الطاف حسین کون کہاں کس حال میں ہے؟ سب جانتے ہیں۔
پورا ملک بالخصوص کراچی کے عوام 12 مئی 2007ء کو ہونے والی قتل و غارت گری کی انکوائری کے منتظر ہیں۔ اس کے ذمہ داروں سے لے کر سہولت کاروں تک سب کو‘ سبھی جانتے ہیں۔ قوم حکمرانوں سے بے تحاشا اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ کیا فیصلے کرتے ہیں؟ اس خون آلود اور بدبودار روایت اور مفاہمت کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دیں۔ تمام مجبوریوں اور سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہو کر فیصلے کریں اور 'بھائی‘ کو پروان چڑھانے اور اس کے ہاتھوں بلیک میل ہونے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں سے سبق حاصل کریں۔ یہ قوم آپ سے کچھ نہیں مانگتی... بس! تھوڑی سی وفا چاہتی ہے۔ اس ملک کی مٹی کے ساتھ... اس کے ملک کے عوام کے ساتھ...بس! تھوڑی سی وفا چاہیے۔