جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور نتائج حکمرانوں کی نیتوں اور ارادوں کا پتہ دیتے ہیں۔بد قسمتی سے وطن عزیز کے سبھی حکمرانوں نے آئین سے قوانین تک ‘نیت سے معیشت تک ‘بد انتظامی سے بد عنوانی تک‘ بدعہدی سے خود غرضی تک ‘ وسائل کی بربادی سے ذخائر کی بندر بانٹ تک کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ذاتی خواہشات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں اورغیر منصفانہ اور غیر منطقی فیصلوں کے ــ اثراتِ بدملک کے طول و عرض میں جابجا‘ ہر سو ناچتے نظر آتے ہیں۔ماضی کے حکمران تو کل کا بویا آج کاٹ ہی رہے ہیں اور ان کے اعمالِ بدکا شکار عوام ان کی نیتوں اور طر ز حکمرانی کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہیں۔اسی طرح موجودہ حکمران آج جو کچھ بو رہے ہیں اس کی کھیتی کل ضرور کاٹیں گے۔ یہی مکافات عمل اور یہی قانون فطرت ہے۔
ہر دورمیں عوام کو گمراہ کُن اعدادو شمار اور دل فریب وعدوں سے خوشحالی کی نوید دے کر حکمران اپنی اپنی باریاں لگا کر آتے جاتے رہے۔ اقتدار میں آنے والے حکمران سابقہ حکمرانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے اور عوام کو جھوٹے وعدوں‘ دلاسوں اور جھانسوں سے بہلا کر معاشی انقلاب کی خوش خبریاں سناتے رہے ۔خوش کن اعدادو شمار اور زبانی جمع خرچ کا یہ گورکھ دھندا چلتا رہا اور عوام بے وقوف بنتے رہے۔ الغرض دھوکہ اور جھانسہ ہر حکومت کا نصب العین رہا ۔ یہ گورکھ دھندا آج بھی جاری ہے حکومتی چیمپئنزکی انقلابی اور معاشی پالیسیوں نے بادلوں میں پہلے سے چھپے اور آنکھ مچولی کھیلتے معیشت کے چاند کو گرہن ہی لگا ڈالا ۔نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل حکومتی چیمپئنز عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ تا حدِنظر اُجاڑے ہی اُجاڑے ... مہنگائی اور گرانی... تباہی اور بر بادی کا ایسا ایسا منظر کہ الامان والحفیظ۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ چہ مگوئیاں اور بحث زور پکڑتی چلی جارہی ہے کیا یہ طرز حکومت اور موجودہ حکمران ڈیلیور کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں یا انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا ؟ ان سوالات کی شدت اور تقویت میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے کہ سیاستدانوں کو کہیں ناکام اور نا اہل قرار دے کر آئین کو ریسٹ پر تو نہیں بھیجا جا رہا ؟ کیا صدارتی نظام یا کوئی اور متبادل نظام آنے والا ہے اور اگر ایسا ہے تو آنے والا طرز حکمرانی کیسا ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو گزشتہ کئی ماہ سے ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت اور اہمیت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ رہی بات پارلیمنٹ اور اس کی کارکردگی کی تو وہ سب کے سامنے ہے۔ سرکاری خرچ پر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے نکلنے والے رُکن اسمبلی کی گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی اس کااپنا میٹر ڈائون ہوجاتا ہے۔ پھر اجلاس میں شرکت سے لے کر کھانے اور پینے تک جتنے دن بھی وہ قیام کرے اخراجات کا سارا بوجھ قومی خزانے پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے بدلے ارکان اسمبلی نے آج تک اس ملک و قوم کو کیا دیا؟ اس کا جواب اسمبلی کا کوئی بھی اجلاس اور اس کا منظر دیکھ کر مل سکتا ہے۔ ماسوائے قانون سازی اور مفاد عامہ کے وہ سب کچھ ہوتا ہے جسے دیکھ کر ہر پاکستانی جلتا ‘ کڑہتا اور شرمسار ہوتاہے کہ انہیں اسی لئے ووٹ دیا تھا کہ ان کے نمائندے ذاتی مفادات اور تحفظ کے لئے ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالیں اور دست و گریباں ہونے سے بھی گریز نہ کریں ؟ مزے کی بات یہ کہ مشترکہ مفادات کو جہاں خطرہ لاحق ہوا وہاں آن کی آن میں سب ہی اکٹھے‘ یکجا اور یک زبان نظر آتے ہیں ۔ کیا حریف کیا حلیف مفادات کے جھنڈے تلے سب ہی ایک ہوجاتے ہیں۔ اس تناظر میں عوام کے غم میں مرے جانے والے سیاستدانوں کی ناکامی کہیں نظام کی ناکامی نہ بن جائے ؟
ان کی ناکامی کی قیمت کہیں عمران خان صاحب کو ادا نہ کرنی پڑ جائے اور یہ نظام کہیں عمران خان صاحب پر نہ آ گرے ۔ وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا منظر نامہ بنا ہے کہ کسی منتخب حکومت کی ناکامی کی صور ت میں کوئی متبادل قیادت یا سیاسی پارٹی اس پوزیشن میں نہیں رہی کہ وہ کسی بحرانی کیفیت میں صورتحال کو سنبھالادینے کیلئے شریک اقتدار ہوکر معاملات سنبھال سکے۔ ایسے حالات میں غیر منتخب چیمپئنز کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے ویسے بھی وفاقی کابینہ میں غیر منتخب چیمپئنز کی تعداد 16 ہوچکی ہے۔ اور یہ غیر منتخب چیمپئنزمنتخب چیمپئنز کے مقابلے میں زیادہ بااثر اور با اختیار تصور کیے جاتے ہیں ۔
بتدریج یہ تاثر بھی تقویت حاصل کرتا جا رہا ہے کہ دھرنے اور طویل سیاسی جدوجہد کرنے والی تحریک انصاف کہیں بکھرتی چلی جارہی ہے۔ اس کا اصل چہرہ پس منظر میں اور قصہ پارینہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال تحریک انصاف کے اندر بے چینی اور بد دلی کا باعث بھی ہے۔ تحریک انصاف کے دیرینہ قائدین اپنی اپنی نجی محفلوں میں اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔
وزیر اعظم عمران خان کی نیت اور عزم بجا سہی ‘اگر کہیں کوئی کمی ہے تو مردم شناسی کی۔ وہ عوام کی تقدیر بدلنے اور کچھ کر گزرنے کے لئے بے تاب اور بے چین نظر آتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چارا بو کر کپاس یا گندم کی فصل کیسے کاٹی جا سکتی ہے؟ وزیر اعظم نے آصف علی زرداری سمیت نیب کے دیگر اسیران کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مجرمان جیل سے آکر پارلیمنٹ میں خطاب نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم احتساب اور لوٹی گئی ملکی دولت کی ریکوری کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیا ر دکھائی دیتے ہیں‘بھلے اُن کی حکومت رہے نہ رہے‘ کوئی اتحادی ساتھ رہے نہ رہے‘ وہ اپنا موقف دو ٹوک الفاظ میں واضح کرچکے ہیں۔جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پروڈکشن آرڈر پر اسیر ارکان اسمبلی کا ا یوان میں آنا ان کا استحقاق ہے اور حکومت اس خوف کی وجہ سے آصف علی زرداری اور دیگر اسیر ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کر رہی تاکہ وہ پارلیمنٹ میں آکر عوام دشمن بجٹ کے خلاف اپنا ووٹ کاسٹ نہ کردیں۔
آخر میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کا ذکر بھی ضروری ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب سے زیادتیوں کے ازالے کا وقت آگیا ہے۔ عرض ہے کہ انہیں برسر اقتدار آئے سال بھر ہونے کو آیا ‘لیکن انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیںکہ جنوبی پنجاب میں تھیلیسیمیا اور ہیپاٹائٹس جیسے جان لیوا امراض عوام کو زندہ درگور کئے ہوئے ہیں لیکن جنوبی پنجاب میں اس حوالے سے حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔ ابھی چند روز قبل ہی جنوبی پنجاب کے ایک گھرانے کا چوتھا بچہ تھیلیسیمیا کے ہاتھوں مارا گیا۔ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے اس فیصلے کی البتہ داد دینی چاہیے کہ لاہور میں پولیو کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے انہوں نے شہر میں جا بجا اشتہار آویزاں کروادیئے ہیں جن کا متن کچھ یوں ہے '' آپ کے علاقے میں پولیو کا وائرس پایا جاتاہے‘‘ ۔ اس اشتہار کو اگر لاہور کے مختلف علاقوں کے سیوریج میں پولیو وائرس کی موجودگی کے حوالے تازہ رپورٹس کے تناظر میں دیکھیں تو اس کی افادیت کا پتہ چلتا ہے کہ عوام کو حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے ‘ اندھیرے میں نہیں رکھا گیا۔ امکان ہے کہ اس سے عوام کو پولیو وائرس کے خطرے کا احساس ہو گا اور لوگ انسداد پولیو قطروں کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے۔ تاہم ہیپا ٹائٹس پروگرام پانچ ماہ سے عملاً غیر فعال ہو چکا ہے۔ ہیپا ٹائٹس پروگرام کے پاس ہیپاٹائٹس بی اور سی کی تشخیص کے لئے کٹس ختم ہو چکی ہیں اور اس حوالے سے مریضوں کو حیلوں بہانوں سے ٹالا جا رہا ہے۔کیا حکام کو علم نہیں کہ ان کے ماتحت ہسپتالوں میں بیماروں پہ کیا گزرتی ہے؟ آخر میں پھر عرض کرتا چلوں کہ نسبتیں نسلوں اور نیتیں حکمرانوں کا پتہ دیتی ہیں۔