"AAC" (space) message & send to 7575

اگلا ایڈیشن… میثاقِ مصیبت؟

وزیر اعظم کے دو ٹوک اور واضح انکار کے باوجود سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن کا حصہ بن چکے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے یا قسمت کی ستم ظریفی کہ اِدھر وزیر ِاعظم نے منہ سے بات نکالی‘ اُدھر اُلٹی پڑی۔ شیخ رشید سے لے کر ایم کیو ایم تک... چوہدری برادران سے لے کر دیگر سمجھوتوں تک۔ معاشی پالیسیوں سے لے کر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے تک درجنوں مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں کہ وزیر اعظم نے جن کے بارے میں بھی دوٹوک اور سخت مؤقف اپنایا پھر انہیں ہی گلے لگایا۔
جس طرح غزلوں، کالموں، سفرناموں، افسانوں اور خطوط وغیرہ کا مجموعہ شائع کرنے کا رواج تو ہمارے ہاں عام ہے‘ اسی طرح وزیراعظم کی تضاد بیانیوں کا مجموعہ بھی شائع کرنے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے جو انتہائی مقبول اور مشہور ہو کر ریکارڈ سیل حاصل کر سکتا ہے۔ ان کا حالیہ اور تازہ ترین بیان تو پانی کا بُلبلہ بھی ثابت نہ ہُوا۔ سننے میں یہ بھی آیا کہ مجرم کے جیل سے آ کر پارلیمنٹ سے خطاب نہ کر سکنے کی بات بھی کی گئی‘ لیکن 48 گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ پروڈکشن آرڈر بھی جاری ہوئے‘ اور آصف علی زرداری نے بجٹ سیشن سے خطاب بھی کیا‘ جسے حکومتی بنچوں نے ''اچھے بچوں‘‘ کی طرح پوری توجہ سے سنا۔
اسی طرح کراچی میں بھتہ خوری اور قتل و غارت کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو ٹھہرانے والے عمران خان صاحب کی کابینہ کے وزیر قانون کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے ہی ہے اور ''نظریہ مجبوری‘‘ کے تحت اس پارٹی کو ایک اور وزارت دی جا رہی ہے۔ جبکہ زرداری کو پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی لانے کے لئے جن ارکان نے حکومت اور سپیکر پر دبائو ڈالے رکھا‘ اُن میں ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی پیش پیش رہے۔ اسی طرح چوہدری پرویز الٰہی کو 'سب سے بڑا چور‘ کہنے والے عمران خان آج انہیں پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنائے بیٹھے ہیں۔ شیخ رشید کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کہا کرتے تھے کہ میری دعا ہے کہ اللہ مجھے شیخ رشید جیسا سیاستدان نہ بنائے اور میں تو شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔ آج وہی شیخ رشید اُن کے قریبی حلیف اور شریک اقتدار ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے چیمپئنز کے تضادات پر مبنی درجنوں مثالیں مزید دی جا سکتی ہیں۔ فی الحال نمونے کی چند موٹی موٹی مثالوں پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا... بجٹ بھی تو منظور کروانا ہے۔
میثاقِ جمہوریت ہو یا میثاق معیشت گٹھ جوڑ اور مُک مُکا کی صورتیں ہیں۔ ایک دوسرے کے بد ترین مخالف اور باہم دست و گریباں بھی مشترکہ مفادات کے لئے منٹوں سیکنڈوں میں ایک اور شیروشکر ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک کہنے والے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو حصولِ اقتدار کے لئے میثاق جمہوریت کے نام پر بالآخر ایک ہو گئے تھے۔ پھر آصف علی زرداری اور نواز شریف نے کس طرح بڑا بھائی اور چھوٹا بھائی بن کر اقتدار کا بٹوارہ کیا اور چند ماہ بعد ہی یہ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کس طرح ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارا کرتے تھے۔
یہ سیاست ہے پیارے اس میں کوئی کسی کا کوئی بھائی ہے نہ بہن‘ کوئی دوست ہے نہ رفیق‘ ہمنوا ہے نہ کوئی ہمراز۔ ان کے درمیان بس ایک ہی رشتہ ہوتا ہے۔ وہ ہے مفادات کا۔ جب تک مفادات چلتے رہیں گے‘ یہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے شیروشکر ایک دوسرے پر واری واری جاتے رہیں گے۔ جہاں مفادات کو خطرہ لاحق ہُوا وہاں ''اصولی سیاست‘‘ کا بخار اور عوام کا درد جاگ جاتا ہے۔ ایک دوسرے پر ''واری واری‘‘ جانے والے ایک دوسرے کو گھسیٹنے، چور، ڈاکو اور لٹیرا سمیت کچھ بھی کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ آف دی ریکارڈ رازونیاز پَل بھر میں وائٹ پیپر بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اس قدر گندا اور ننگا کیا جاتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔
کھال بچائو پروگرام کے تحت شہباز شریف نے حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کی ہے۔ معیشت کے نام پر مفاہمتی گٹھ جوڑ کیا کیا گُل کھلاتا ہے۔ میرٹ اور قانون کے دلدادہ وزیر اعظم شہباز شریف کے قائد حزب اختلاف اور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی ہونے کا مزا تو چکھ چکے ہیں‘ اب میثاق معیشت کا ذائقہ چکھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ عوام کا کیا ہے؟ اُن کی حیثیت ہی کیا ہے۔
عوام تو اس سیاسی سرکس کے تماشائی ہیں۔ سیاستدان اپنی اپنی باری پر اپنا اپنا آئٹم پیش کرکے آتے جاتے رہیں گے۔ عوام اِن کے ''کرتبوں‘‘ پر تالیاں بجاتے رہیں گے۔ امن و امان سے لے کر حب الوطنی تک‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ ملکی دولت اور وسائل کی بندر بانٹ سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک ہر سطح پر ہر کسی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا‘ جس میں اِن کی اپنی غرض اور مفاد غالب نہ رہا ہو۔
ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا حکمران آج تک نہیں آیا‘ جس نے قانون، ضابطے، میرٹ اور گورننس کو اپنے تابع فرمان نہیں بنایا۔ اپنے کاروبار اور مالی ذخائر میں ہوشربا اضافے سے لے کر اقتدار کے حصول اور طول تک ہر جائز و ناجائز حد تک جانے والے حکمرانوں نے کب اور کون سا گُل نہیں کھلایا؟ اس کی تفصیل میں اگر جائیں تو ممکن ہے پوری کتاب لکھنا پڑ جائے۔
ماضی کے حکمرانوں کا رونا روئیں یا موجودہ چیمپئنز کا۔ ماضی کے چند ادوارکا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ صاحبِ اقتدار و اختیار طبقہ کرپشن اور لوٹ مار کے کارِ بد پر اس طرح نازاں رہا کہ گویا کوئی بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہا ہو۔ ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن، لوٹ مار، دھونس، دھاندلی اور اقربا پروری کے خلاف تحریک انصاف نے آواز بلند کی تو ابتدا میں یہ آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز محسوس ہوئی اور پھر بتدریج یہ آواز ''آواز خلق‘‘ سے ہوتی ہوئی نقارہ خدا بن گئی۔ اب یہ عالم ہے کہ ماضی کے با اثر اور طاقت ور ترین حکمران آج عبرت اور مکافات عمل کی چلتی پھرتی تصویریں بن چکے ہیں۔
تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو وزیر اعظم کی تقریر سنتے ہی عوام جھوم اُٹھے۔ گویا... آ گیا وہ شاہکار جس کا تھا انتظار۔ اب راج کرے گی خلق خدا۔ اور اب کرپشن‘ لوٹ مار اور اقربا پروری کے سیاہ دور کا خاتمہ ہوگا۔ وزیر اعظم کی خوش گمانی پر مبنی اس تقریر کو عوام اُس خواب کی تعبیر سمجھ بیٹھے جو تحریک انصاف نے دھرنوں اور انتخابی مہم کے دوران تواتر سے دکھایا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ عوام کو دکھایا جانے والا وہ خواب بتدریج جھانسہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ گُڈ گورننس اور بہترین طرز حکمرانی کے دعویداروں نے اپنے اقتدار کے ابتدائی چند ماہ میں ہی عوام کی خوش گمانیوں کا سارا نشہ ہوا کر دیا اور دکھائے جانے والے تمام سنہری خواب چکنا چور کر ڈالے۔ جس دور میں خلق خدا نے راج کرنا تھا‘ اسی دور میں تھانہ، پٹوار اور ہسپتال سے لے کر ایوان اقتدار تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ عوام کے لئے ذلت، دھتکار اور پھٹکار کے سارے منظر جوں کے توں ہیں۔
بے نظیر تو اس دنیا میں نہیں رہیں۔ نواز شریف، زرداری اور شہباز شریف کے بعد اب عمران خان صاحب بھی ''میثاق سیریز‘‘ میں شامل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ میثاق جمہوریت کے بعد میثاق معیشت کا تازہ ایڈیشن آ چکا ہے۔ اس تناظر میں مستقبل کا منظرنامہ اگر چشم تصور میں لایا جائے تو شوق اقتدار کے ہاتھوں مجبور یہ سارے سیاستدان ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، ایک دوسرے کی ڈھال بنے یک زبان ہو کر ''میثاق مصیبت‘‘ کے نام پر اکٹھے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ مصیبت ہے جو عوام سے تغافل، بد عہدی اور بے وفائی کے نتیجے میں ان سب پر نازل ہونے والی ہے اور یہ سب مل کر اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے ''میثاق مصیبت‘‘ کرتے نظر آئیں گے۔ ویسے بھی زلفی بخاری، ارشد خان اور احسان مانی سمیت تمام ''دل کے جانی‘‘ وزیر اعظم کے لئے کڑی آزمائش بن سکتے ہیں۔ ایسے میں ماضی کے حکمرانوں سے عبرت اور سبق حاصل کرنا ہی بہترین راستہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں