کل ہی چین سے لوٹا ہوں‘آج ہم ہمالیہ سے اونچی ‘ سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی پاک چین دوستی کے مختلف پہلوؤں پر بات کریں گے۔اور ان پہلوؤں پر بھی غور کریں گے کہ ہمالیہ سے اونچی اس دوستی میں ہم کہاں کھڑے ہیں‘ سمندر کی گہرائیوں میں ہم کس تہہ پر اور شہد سے زیادہ میٹھی اس دوستی میں ہماری مٹھاس کی مقدار کیا ہے؟
انتہائی دکھ بھری اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاک چین دوستی کے اس سفر میں ہماری حیثیت مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کا منظر نامہ پیش کرتی نظرآتی ہے۔علم وہنر سے لے کر جدید ترین ٹیکنالوجی تک ‘ معاشی استحکام سے لے کر عالمی منڈیوں میں اجارہ داری تک ‘ محنت کی عظمت سے لے کرذہانت اور دیانت تک وہ سبھی شعبوں میں ممتاز‘ معتبر اور ثابت قدم ہی نظرآتے ہیں۔دوستیاں تو برابری اور مشترک قدروں کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ہم چین سے دوستی کا دم تو بھرتے ہیں لیکن بھرم نہیں رکھ پاتے۔چین کی یہ غیرمعمولی ترقی اور اجارہ داریاں کسی نے انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیں۔ اس کے لیے انہوں نے مسلسل محنت‘ دیانت اور ذہانت کو اپنا شعار بنایا ہے اور شارٹ کٹ کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی مفادات سے ہم آہنگ مستقل پالیسیاں ‘ سماجی و معاشرتی انصاف اور بے رحم احتساب کو نصب العین بنا کر ہی اقوام ِعالم میں ممتاز ترین مقام حاصل کیا ہے۔
بدقسمتی سے ہم پاک چین دوستی کا جھنڈا اٹھائے توپھرتے ہیں لیکن ہم نے کبھی ان کی ترقی کا راز جاننے کے باوجود اسے اپنانے کی کوشش تو درکنار نیت بھی نہیں کی۔اس پر مزید بات کرنے سے پہلے چین کے پانچ روزہ دورے کے مشاہدات ‘ تجربات اور تاثرات شیئر کرتا چلوں۔اندرون چین سفر اور صبح سے لے کر دن ڈھلے تک ''انڈرسٹینڈنگ چائنہ‘‘ کے روحِ رواں برادرم ظفر محمود الدین کے دیے گئے مصروف ترین شیڈول پر چل چل کر اس قدر تھکن ہوجاتی تھی کہ وہاں سے کالم لکھ کر آپ لوگوں سے ہم کلام ہونے کا موقع ہی نہ مل سکا؛ البتہ دن بھر کی مصروفیت کے بعد ہوٹل واپس آکر تازہ دم ہوکر ہوٹل کی لابی یا کسی ایک ہم سفر کے کمرے میں اکٹھے ہوکر خوش گپیوں اور رات گئے لگنے والی محفلوں میں بیتایا وقت زندگی کے یادگار اور انمول لمحات ضرور قرار پائے۔
فی البدیہہ اور برجستہ جملہ بازی میں میرا ساتھ دینے والے میاں سیف الرحمان نے محفل کو کشتِ زعفران بنائے رکھا۔ اسی طرح محسن گورائیہ‘ مظہر برلاس‘ صغریٰ صدف ‘ سجاد جہانیاں اور کومل سلیم نے ان محفلوں میں رنگ جمانے کے لیے اپنا اپنا رنگ بھی ڈالے رکھا۔ دیگر ہم سفر ساتھیوں میں یاسر حبیب‘ محمدمہدی‘ عامر خان اور ملک سلمان کی سنگت بھی خوب رہی۔ 23 جون کو وقت مقرر پر لاہور ائیرپورٹ پر اکٹھے ہوئے اور بذریعہ قومی ائیر لائن اسلام آباد پہنچے۔ وہاں پر برادرم مظہر برلاس نے چین روانگی کے لیے ہمیں جوائن کیا۔ شیڈول کے مطابق بیجنگ روانہ ہوئے ۔ طیارے نے ہمیں چین کے معیاری وقت کے مطابق تقریباً صبح7 بجے بیجنگ ائیرپورٹ پر پہنچادیا۔ائیر پورٹ پر برادرم ظفر محمود نے ایلی اور ایگنس نامی دو چینی خواتین سے تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ یہ آپ لوگوںکے دورے کی کوارڈینیٹر اور مترجم ہیں۔ ہم سب ان خواتین کی رہنمائی میں ہوٹل پہنچے تو اپنے اپنے کمروں میں جانے سے پہلے ہماری کوارڈینیٹرز نے اعلامیہ جاری کیا کہ ابھی آپ لوگ تھکے ہوئے ہیں تھوڑا آرام کرلیں اور ٹھیک دو بجے سارے مہمان تیار ہوکر نیچے آجائیں ۔ لنچ کے بعد ہم نے چائنہ ریلوے انٹرنیشنل کمپنی لمیٹڈ کی اتھارٹیز سے ملنے جانا ہے۔ لنچ کے بعد حسب پروگرام چائنہ ریلوے کمپنی پہنچے تو ہمارا پرتپاک استقبال کیا گیا ۔دورانِ بریفنگ ہمیں بتایا گیا کہ یہی کمپنی ہمارے ہاں اورنج لائن منصوبے پر کام کررہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت چائنہ میں ٹرین کی سپیڈ 350کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ یہ سپیڈ بتدریج بڑھا کر 800 کلومیٹر فی گھنٹہ کرنے پر کام تیزی سے جاری ہے۔چین میں ریلوے ٹیکنالوجی اور عوام کو دی جانے والی سہولیات کے حوالے سے جو کچھ انہوںنے ہمیں بتایا اس بارے میں صر ف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''سنتا جا‘ شرماتا جا‘‘کے مصداق ہم سب سنتے ہی چلے گئے کیونکہ وطنِ عزیز میں تو محکمہ ریل کو ہمیشہ ہی پیسے کی ''ریل پیل‘‘ کا ذریعہ ہی سمجھا گیا ہے۔ ہمارے ہاں تو ابھی پھاٹک والا ہی جان نہیں چھوڑرہا اور اس پھاٹک والے کی غفلت کا خمیازہ ہم آج بھی قیمتی جانیں گنوا کر بھگت رہے ہیں۔
جوں جوں چائنہ ریلوے اتھارٹیز کی بریفنگ سنتا جا رہا تھا توں توں میرے چشمِ تصور میں پاکستان ریلوے اور اس کی بربادی کے مناظر ایک فلم کی طرح چلتے چلے جارہے تھے۔ رائل پام کلب پاکستان ریلوے کو واپس ملنے کے عدالتی حکم پر وزیراعظم کو مٹھائی کھلانے والے وزیر ریلوے شیخ رشید نے اس وقت اپنے منہ میں کون سے بتاشے رکھے ہوئے تھے جب مشرف دور میںریلوے اراضی اونے پونے ایک پرائیویٹ پارٹی کورائل پام بنانے کے لیے دی جارہی تھی۔حالانکہ وزیر موصوف اس وقت شریک اقتدار اور وفاقی وزیر تھے۔ بعد ازاں قلمدان تبدیل ہونے پر وہ خود بھی وزیر ریلوے رہ چکے ہیں۔ اس وقت انہیں یہ کلمۂ حق کیوں یاد نہ آیا؟ ہاں البتہ ایک کریڈٹ خواجہ سعد رفیق کو ضرور جاتا ہے کہ انہوںنے بطور وزیر ریلوے رائل پام کلب واگزارکروانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن عدالتی حکم کے آگے مجبور رہے۔چائنہ ریلوے کمپنی نے اپنے دیگر پروجیکٹس سے متعلق دفاتر کا معلوماتی دورہ کروایا اورپاک چائنہ اقتصادی راہداری سے متعلق خدشات اور تحفظات دور کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ بعدازاں انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ ڈنر کے لیے ایک ریستوران میں چلنے کی دعوت دی۔
اگلے روز ہم صبح چائنہ فوڈ ایکسپو گئے جہاں ہمارے لیے خصوصی طور پرویجیٹیبل پیزا تیار کروایاگیا ‘ آئسکریم اورکیوی پھل سے تواضع کی گئی۔بعدازاں بریفنگ کے بعد چائے کی تیاری اور پیش کرنے کے حوالے سے ایک ڈرامائی خاکہ پیش کیا گیا جس کے سارے مناظر قابل دید اور قابل تعریف تھے۔اس کے بعد ہم اس چائنہ پاور کمپنی کے وسیع و عریض دفتر گئے جو ساہیوال میں پاور پروجیکٹ پر کام کررہی ہے۔ وہاں بھی ہمیںاہم منصوبوں سے متعلق کنٹرول رومز ‘ دفاتر اور ماڈلز دکھائے گئے۔ بعدازاں انہوں نے اپنے ہی میس میں تیار کی گئی مسلم فوڈ سے ہماری تواضع کی۔ اس کے بعد ہم نے چینی اخبار ''چائنہ اکنامک ڈیلی‘‘کے مختلف دفاترکا دورہ کیا اورا دارتی ٹیم سے معلوماتی گپ شپ کی۔ بعدازاں چینی سٹیٹ کونسل آف انفارمیشن کی دعوت پران کے دفتر گئے وہاں چینی سٹیٹ کونسل کے ترجمان نے ہمیں خوش آمدید کہا اور سی پیک کو دونوں ملکوں کے لیے قومی مفاد کا عظیم ترین منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستانی صحافیوں کو یہ وفد پاک چین دوستی اور اقتصادی راہداری کے منصوبے کے حوالے سے تحفظات اور خدشات کے بارے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے گا۔ بعدازاں ان کی دعوت پر ڈنر کے لیے گئے جہاں بیجنگ میں تعینات پاکستانی خاتون پریس کونسلر حنا فردوس نے ہمیں جوائن کیا اور ہمیں کھانے کی علیحدہ دعوت بھی دی جو ہم وقت کی کمی اور شیڈول کے پیش نظر قبول نہ کرسکے۔
اگلے روز ہم دیوارِ چین گئے جسے چینی ''چائنہ گریٹ وال‘‘کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک شاہکار عجوبہ ہے جس کی دفاعی اہمیت تو اپنی جگہ سیاحتی اعتبار سے بھی قابل دید ہے۔یہاں ایک انتہائی اہم بات بھی آپ سے شیئر کرتاچلوںکہ ایک زمانے میں یہی چائنہ گریٹ وال ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی کا شکار ہوگئی تھی جس کی بحالی اور تعمیر کے لیے چینی حکومت نے اپنے عوام سے تعاون کی اپیل کی جس میں چینی عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستانی سفارتخانے بھی اس وقت ایک معقول رقم دنیاکے اس عجوبے کی حفاظت اور بحالی کے لیے چینی حکومت کو پیش کی تھی۔اور اب یہ عالم ہے کہ ہم وطنِ عزیز کے معاملات اور منصوبے چلانے کے لیے چین سمیت اپنے دیگر دوست ممالک کے دست نگر دکھائی دیتے ہیں۔ (جاری )