کہاں دیوارِ چین جیسے شاہکار عجوبہ کی مرمت و بحالی کے لیے مالی معاونت کرنے والا پاکستان اور کہاں وطنِ عزیز کی موجودہ صورتحال۔ یقینا مقامِ ماتم ہے۔ ڈالر گیم کے نجانے کتنے راؤنڈ ابھی باقی ہیں اور ہمارے روپے کو ابھی کتنی قلابازیاں مزید کھانا ہوں گی؟ روپیہ تو ٹکے ٹوکری ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں انڈسٹری سے لے کر اشیائے ضروریہ تک‘یوٹیلٹی بلوں سے لے کر سی این جی تک‘ علاج معالجہ سے لے کر تعلیمی اخراجات تک‘ پٹرول سے لے کر مہنگائی اور گرانی کی چھترول تک‘ ہر طرف آگ ہی لگی ہوئی ہے۔ جہاں اچھے بھلے آدمی کے لیے گھر چلانا مشکل ہو وہاں ملک چلانا اور باتیں بنانا ایک جیسا ہی ہے۔
اگلے روز ناشتے کے بعد ہماری کوآرڈینیٹر اور مترجم ایلی اور ایگنس نے اعلان کیا کہ آج ہم چائینہ کلچرل ایکسچینج سنٹر کے مہمان ہوں گے۔ وقتِ مقررہ پر وہاں پہنچے تو موقع محل اور سبجیکٹ کی مناسبت سے ہم سب نے اپنی ہمسفر اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئجز اینڈ کلچر کی ڈائریکٹر جنرل صغریٰ صدف کو کہا کہ یہ آپ کا شعبہ ہے اس میٹنگ کے لیے وفد کی قیادت آپ کے ذمے ہے۔ بریفنگ کے بعد چائینہ کلچرل ایکسچینج سنٹر کے سربراہ نے کہا کہ دونوں ممالک کی ثقافت اور کلچر کے تبادلے کے لیے باہمی رابطے ضروری ہیں‘ اس موقع پر صغریٰ صدف نے اپنے ہم منصب کو وفد لے کر لاہور آنے کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کیا اور کہا کہ ہم جلد ہی اپنے پروگرام سے مطلع کریں گے۔ رخصت ہونے سے قبل انہوں نے ہمیں تحائف دئیے اور لنچ پر ریسٹورنٹ چلنے کی دعوت دی۔
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک زمانے میں چین میں پاکستانی سفارتخانہ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ پاکستان سے ادیبوں‘ شاعروں اور فنونِ لطیفہ سے متعلق دیگر شخصیات کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اکثر تو پاکستانی سفیر اپنی رہائشگاہ بھی ان مہمانوں کے طعام و قیام کے لیے پیش کر دیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے سابق سفیر اکرم زذکی کا نام قابلِ ذکر اور سرفہرست ہے۔ انہوں نے اپنی سفارتکاری کے ایام میں ان سرگرمیوں اور تقریبات کے انعقاد کے لیے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں پاکستانی ادب‘ ثقافت‘ فلم اور ڈرامہ سبھی چین میں بھر پور متعارف ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں پاکستانی فلمیں بھی انتہائی پسند کی جاتی تھیں۔ ہمارے ماضی کے کئی اداکار چین میں جانے مانے جاتے تھے۔ آج یہ عالم ہے کہ انڈیا کلچر سے لے کر دیگر تمام شعبوں کو چین میں فروغ دے رہا ہے اور اس کا امیج بتدریج مستحکم اور ناقابلِ تردید ہوتا چلا جا رہا ہے ۔بھارتی اداکار سلمان خان چین میں انتہائی مقبول اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ بھارتی سرکار اپنے سرکاری اور غیر سرکاری تمام شعبوں کی سرپرستی اور خبرگیری کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا چائینہ میں بطور برانڈ اپنے قدم دن بہ دن مضبوط کر رہا ہے۔ اس محاذ پر پاکستانی سفارتخانے کی کارکردگی صفر بھی نہیں ہے جبکہ ہم بات کرتے ہیں ہمالیہ سے اونچی‘ سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی پاک چین دوستی کی۔
چائینہ کلچرل ایکسچینج سنٹر سے فارغ ہوکر ہمیں بذریعہ ٹرین چین کے شہر ہنجو جانا تھا لیکن اس دوران تین گھنٹے کا وقفہ بھی تھا۔ طے یہ پایا کہ تین گھنٹے گزارنے کے لیے کسی شاپنگ مال کا رخ کیا جائے۔ ابھی دو ہی گھنٹے گزرے تھے کہ قائدِ وفد اور انڈرسٹینڈنگ چائینہ کے روحِ رواں برادرم ظفر محمود آگئے اور بولے: ہم نے سفر پہ جانا ہے اس لیے کچھ پیٹ پوجا کر لیں۔ ایک دوسرے کو اکٹھا کر کے ریفریشمینٹ کی اور بیجنگ ریلوے سٹیشن کا رخ کیا۔ ابھی ریلوے سٹیشن پہنچے ہی تھے کہ ہردلعزیز دوست محمود بٹ کا ساؤتھ افریقہ سے فون آگیا کہ میں نے بیجنگ میں تمہارے وفد کے لیے روایتی دیسی اور مسلم فوڈ کا انتظام کروا دیا ہے۔ آج رات کو تیار کھانا تمہارے ہوٹل پہنچ جائے گا۔ محمود بٹ کھانا کھلا کر بہت خوش ہونے والے اور انتہائی پر خلوص انسان ہیں۔ انتہائی پرجوش انداز میں بات کچھ اس طرح کر رہے تھے گویا انہوں نے ہمارا کوئی بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا ہو۔ چین جیسے ملک میں محمود بٹ کی یہ آفر انتہائی پرکشش اور قابلِ قدر تھی لیکن جیسے ہی میں نے انہیں بتایا کہ ہم تو تھوڑی دیر میں بیجنگ چھوڑ دیں گے تو انہیںدھچکا لگا اور بولے یار مجھے پتہ ہے تمہاری خوش خوراکی کا... تم کھابے کے شوقین ہو یقینا تمہارے دوسرے ساتھی بھی یہاں آکر کم خوراکی کا شکار ہو گئے ہوں گے۔ بڑی محنت اور مشکل سے یہ سارا انتظام کروایا ہے۔ میں نے جواباً کہا: بٹ صاحب آپ کی یہ پیش کش یقینا اندھیرے میں جگنو کے مترادف ہے‘آئندہ کبھی ضرورت پڑی تو آپ کو زحمت دوں گا۔ محمود بٹ کی پرخلوص پیش کش سے مستفید نہ ہونے کے احساس اور بوجھل دل کے ساتھ ریلوے سٹیشن میں داخل ہوئے۔
ٹرین ہماری منتظر تھی۔ کچھ ہی دیر میں ٹرین اپنے وقتِ مقررہ پر چل پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین کی سپیڈ 300کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز کر گئی اور پھر یہ ٹرین 330 اور 350کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی رہی۔ دورانِ سفر مظہر برلاس‘ محسن گورایہ‘ کومل سلیم‘ سیف الرحمن‘ صغری صدف‘ عامر خان‘ یاسر حبیب اور محمد مہدی سے چھیڑ چھاڑ اور گپ شپ میں پتہ ہی نہ چلا کہ یہ سفر کب اور کیسے کٹا اور ہنجو ریلوے سٹیشن آگیا۔ ریلوے سٹیشن سے باہر نکل کر جب شہر میں داخل ہوئے تو اپنے اسلام آباد کا گماں ہوا۔ بیجنگ اور ہنجو میں ہریالی بھی قدرِ مشترک تھی۔ سڑکوں کے اطراف سے لے کر گرین بیلٹوں تک جا بجا ہرے بھرے درخت ہی درخت طبیعت پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب کر رہے تھے۔ اتنی بڑی آبادیوں والے ان شہروں میں اگر یہ ہریالی اور سبزہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ انہیں معلوم ہے کہ یہ درخت ان کے لیے کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ درخت لگانے سے لے کر ان کی آبیاری تک پورا پہرہ دیتے ہیں۔
ہر سو درختوں کی بہار دیکھ کر مجھے بے اختیار اپنا وطن یاد آگیا جہاں کس بے دردی سے درختوں کا قتلِ عام کیا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر گھر بنانا ہو یا ہاؤسنگ سوسائٹی کا منصوبہ ہو... سڑکوں کی توسیع ہو یا نئی آبادکاری... شامت درختوں کی ہی آتی ہے‘ لیکن چین میں سڑکیں بھی چوڑی ہیں اور درخت بھی پورے ہیں۔ کسی زمانے میں شہر لاہور میں مال روڈ اور کنال روڈ دونوں اطراف سے درختوں میں ڈھکے ہوتے تھے لیکن کیا کریں نہ کوئی پلاننگ ہے اور نہ ہی سبزے کی اہمیت کا احساس... شہروں کی وسعت ان درختوں کو کھا گئی۔ جنگل میں منگل بنانے کی دھن میں ہم نے اس سبزے کو ہی ایندھن بنا ڈالا۔ اس کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور بربادیاں ہمارا مقدر بن چکی ہیں۔
خیر رات دس بجے کے بعد ہوٹل لیک ویو پہنچے۔سب تھکے ہوئے تھے‘ اپنے اپنے کمروں کی چابیاں لیں‘ ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور اگلے روز صبح 9بجے تیار ہوکر سب ناشتے پر پھر اکٹھے تھے۔ اس روز ہمیں علی بابا گروپ کے مرکزی دفتر جانا تھا۔ وقتِ مقررہ پر وہاں پہنچے اُن کی گائیڈز نے ہمیں تمام دفاتر کا دورہ کروایا اور علی بابا گروپ کے تمام منصوبوں کے حوالے سے بھرپور بریفنگ اور تحائف دیے۔ بعد ازاں لنچ پر وہ ہمارے میزبان تھے۔ پرتکلف کھانے سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم ہوٹل آگئے۔ اگلے روز وطن واپسی کا سفرتھا اس لیے طے یہ پایا کہ آج شہر کی گشت کی جائے۔ رات گئے تک مظہر برلاس کے کمرے میں کومل سلیم اور محسن گورایہ کے ساتھ خوش گپیاں چلتی رہیں۔ اگلے روز صبح واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ ہنجو ایئرپورٹ سے بیجنگ کی فلائٹ لی جہاں قومی ایئرلائن کے طیارے نے ہمیں اسلام آباد لے کر آنا تھا۔ قومی ایئرلائن کے باکمال عملے کی لاجواب سروس نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا اس کے نتیجے میں مجھ خاکسار سمیت مظہر برلاس‘ سجاد جہانیاں اور محمد مہدی ہی واپس آسکے جبکہ ہمارے سات ساتھی ہمارے ساتھ سفر نہ کر سکے وہ بیجنگ میں تین دن کی خواری کے بعد گزشتہ رات وطن واپس پہنچے ہیں‘ جبکہ ہم سب کا سامان تاحال قومی ایئرلائن کے قبضے ہی میں ہے۔ دیکھیں وہ کب ملتا ہے... ملتا بھی ہے کہ نہیں؟