"AAC" (space) message & send to 7575

جاں نشینوں سے پردہ نشینوں تک…

مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زداری کا کہنا ہے کہ حکومت نومبر سے پہلے گھر چلی جائے گی جبکہ مستقبل صرف بلاول اور مریم کا ہے۔ اندازہ لگائیں زرداری اور نواز شریف کو صر ف ایک ہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ کسی بھی طرح اور کسی بھی قیمت پر وطنِ عزیز کا اقتدار ان کی اولادوں کو مل جائے۔ ملک نہ ہو گیا ان کی کوئی ذاتی کالونی ہو گئی۔ نواز شریف نے تو اپنی بیٹی کو برسرِ اقتدار دیکھنے کی خواہش میں وہ سب کچھ دیکھ لیا جس کے بعد صرف استغفار ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح زرداری بھی اپنا استحقاق سمجھتے ہیں کہ ان کا بیٹا اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے اور پھلے پھولے۔ عین اسی طرح جیسے وہ خود صدر بن کر پھولے نہ سماتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں اسیران اپنی اپنی اولادوں کے سیاسی استحکام اور اقتدار کی تمنا کی قیمت ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔ گویا دونوں قید و بند کی صعوبتیں صرف اس لیے برداشت کر رہے ہیں کہ ان کی اولادیں اس ''لا زوال قربانی‘‘ کو کیش کروا سکیں یا کوئی سیاسی فائدہ اُٹھا سکیں۔ 
حکومت چند دن میں جا رہی ہے یا مہینوں میں‘ یا جا ہی نہیں رہی۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ سیاسی پنڈت اپنی اپنی ہانک رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت جائے یا نہ جائے احتساب کا دائرہ بتدریج بڑھتے ہوئے انتہائی وسیع ہونے والا ہے۔ ماضی میں زیر عتاب رہنے والے سیاسی اُفق پر آفتاب بن کر چمکتے دِکھائی دے سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور خصوصاً پیپلز پارٹی میں جن سیاسی شخصیات اور خاندانوں کو طاقت اور جبر کے زور پر دبایا جاتا رہا ہے‘ اب وہ ہر قسم کے دباؤ اور جبر سے آزاد دِکھائی دیتے ہیں۔ کوئے سیاست سے لے کر بیوروکریسی اور ریاست کے دیگر اہم کرداروں سے لے کر صحافت تک کئی کردار احتساب کے اس دائرے اور گھیرے کی زد میں آتے دِکھائی دیتے ہیں۔ 
چار دہائیاں ہونے کو آئیں... اس طویل عرصے کے دوران وطنِ عزیز میں دو پارٹی نظام ہی چلتا رہا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ''میوزیکل چیئر‘‘ کا کھیل جاری رہا۔ ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار دونوں پارٹیوں کے درمیان بیان بازی سے لے کر الزام تراشی تک اور بہتان سے لے کر جھوٹے سچے مقدمات تک سبھی کچھ چلتا رہا۔ اس دو پارٹی نظام کی چکی میں عوام برابر پستے رہے اور یہ دونوں پارٹیاں عوام کو بیوقوف بنا کر اپنے اپنے ایجنڈے پر گامزن رہیں۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری صاحب نے اپنے اہداف کے حصول کے لیے مفاہمت کے ساتھ ساتھ جیو اور جینے دو‘ کھاؤ اور کھانے دو‘ لوٹو اور لوٹنے دو کی پالیسیاں بھی متعارف کروائیں۔ اقتدار کی تڑپ اور طلب میں اس قتدر بے تاب اور بے چین تھے کہ اپنی مرحومہ بیوی کا سوگ تک نہ ٹھیک سے منا سکے۔ سمجھوتوں اور مصلحتوں کے سارے ریکارڈ ہی توڑ ڈالے۔ حتیٰ کہ بے نظیر نے اپنے متوقع قتل کے حوالے سے جن شخصیات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا تھا‘ ان سبھی کو نہ صرف زرداری نے گلے لگایا بلکہ ایک کردار کو گارڈ آف آنر دے کر ایوانِ صدر سے رخصت کیا‘ جبکہ دوسرے کردار کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنا کر بے نظیر بھٹو کی لا زوال قربانی کو اَمر کر کے مفاہمت اور مصلحتوں کا قلعہ سر کر لیا۔ 
اس کے بعد دونوں پارٹیوں کے سربراہوں نے ملک و قوم کی دولت سے لے کر اقتدار کے بٹوارے تک اور ایک دوسرے کو تحفظ دینے سے لے کر دیگر تمام معاملات تک نیا گٹھ جوڑ بنا ڈالا‘ جس کے تحت زرداری اور نواز شریف بھائی بھائی بن گئے... ایک دوسرے پر واری واری اور فدا ہوتے رہے... پُر تکلف ضیافتوں میں ایک دوسرے کے من پسند پکوان پیش کرتے رہے۔ 'پہلے آپ پہلے آپ‘ اور شیروشکر ہو جانے کا منظر دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ اب وطنِ عزیز کے دِن پھرنے کا وقت آ گیا ہے۔ عوام کے یہ لیڈر ماضی کی طرزِ حکمرانی اور غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں‘ اور مل کر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا سفر شروع کریں گے۔ 
لیکن عوام کی یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ جوں جوں اقتدار اور معاملات پر آصف زرداری کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی‘ توں توں اُن کے دعوے اور وعدے کمزور پڑتے رہے۔ بالآخر وہ اپنے وعدوں سے منحرف ہو گئے اور یوں یہ دونوں بھائی چارے سے نکل کر ایک بار پھر ایک دوسرے کے روایتی سیاسی حریف بن کر مدِّ مقابل آ گئے اور پھر وہی مشقِ ستم دہرائی گئی جس کے اثرات اور نتائج عوام آج بھی بھگت رہے ہیں۔ 
ماضی کے یہی حکمران سونے کے کشکول لیے چارٹرڈ طیاروں پر سوٹڈ بوٹڈ آئی ایم ایف سمیت دیگر تمام مالیاتی اداروں کی زیارت کے لیے نکلتے تھے‘ اور انتہائی تکلیف دہ اور ذلت آمیز شرائط پر ملنے والوں قرضوں سے سابقہ قرضوں کی قسطیں اُتار کر عوام کو معاشی استحکام کا جھانسہ اور خوشحالی کی نوید دے کر بہلاتے رہے۔ انہی دونوں پارٹیوں کے چھ ادوار اور جنرل مشرف کا 9 سالہ اقتدار ملا کر‘ ان کل 7 ادوار میں لوٹ مار اور اقرباء پروری سے لے کر ملکی دولت اور وسائل کی بندر بانٹ تک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا گیا۔ دن دیہاڑے ایسا ایسا اندھیر مچایا گیا کہ بند آنکھ سے بھی صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ عوام کو سبز باغ دِکھانے والے حکمران رنگے ہاتھوں کے ساتھ اپنی اپنی باریاں لگاتے رہے۔ مشرف دور میں صفِ اوّل کے بیشتر شریک اقتدار آج بھی برسرِ اقتدار اور معتبر نظر آتے ہیں۔ 
خیر بات ہو رہی تھے بلاول اور مریم کے اس مستقبل کی جس کی اُمید زرداری لگائے بیٹھے ہیں اور نواز شریف تو اپنی بیٹی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دِکھائی دیتے ہیں۔ ان دونوں کا مستقبل تو خیر کیا ہو گا... ہو گا بھی یا نہیں ہو گا؟ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہی ہو گا... ابھی تو فی الحال بلاول اور مریم کو اپنے اپنے والد کے ماضی اور طرزِ حکمرانی کی قیمت چکانا ہے۔ 
ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے... ابھی تو مکافات کی بھٹی گرم ہو کر دہکی ہے... دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں کون کون اس بھٹی کا ایندھن بنتا ہے۔ لگتا ہے جاں نشینوں سے لے کر پردہ نشینوں تک... نمبرداروں سے سہولت کاروں تک سبھی اس بھٹی کا ایندھن بننے والے ہیں۔ اِن دونوں کے لیے سوچنے والے بات یہ ہے کہ اس بھٹی کی گرمائش اور تپش سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اقتدار اور اختیار کا مزہ تو دونوں ہی بھرپور چکھ چکے ہیں۔ اب مکافات کی اس بھٹی کا مزہ بھی لینا ہو گا۔ 
آخر میں عوام کے دیرینہ مطالبے اور تحریک انصاف کے انتخابی نعرے ''پولیس ریفارمز‘‘ کے حوالے سے سٹریٹیجک ڈویلپمنٹ پلان کا ذکر کرتا چلوں۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اس ڈویلپمنٹ پلان پر عمل درآمد کر کے تھانوں سے لے کر ناکوں تک عوام کو ملنے والی ذلت اور دھتکار کا خاتمہ کرکے ایک باعزت اور باوقار پولیس کلچر فراہم کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے چند مزید معلومات شیئر کرتا چلوں کہ ایس او پیز کے مطابق تھانوں میں تعینات تفتیشی افسران کو فی کس سالانہ تیس کیسوں کی تفتیش کرنا چاہیے جو کہ اڑھائی کیس ماہانہ بنتی ہے جبکہ ہر تفتیشی افسر سالانہ ایک سو نو کیسوں کی تفتیش کرتا ہے جبکہ عدالتی اور انتظامی ڈیوٹی اس کے علاوہ ہے۔ اس تناظر میں انصاف اور شفافیت کی توقع ہی غیر منطقی ہے۔ 
اس حوالے سے لاہور پولیس نے افسران و جوانوں کی استعدادِ کار سے لے کر رہائشی، طبی و انتظامی سہولیات تک سبھی میں بہتری لانے کے لیے مزید قانون سازی اور فوری نوعیت کے اقتدامات کرنے کی سفارشات مرتب کرکے آئی جی پنجاب کو بھجوا دی ہیں یہ سفارشات دنیا کے بڑے، اہم ترین اور ترقی یافتہ شہروں کو بطور ماڈل رکھ کر مرتب کی گئی ہیں۔ اس تناظر میں توقع کی جا سکتی ہے کہ افسران کے ساتھ ساتھ فیلڈ فورس کے مالی حالات کے ساتھ ساتھ سماجی تشخص بھی بہتر ہو گا۔ لاہور پولیس کے سربراہ انسانی حقوق کے داعی اور وہ ملازمت کا بیشتر عرصہ یو این مشن اور اہم ترین بین الاقوامی شہروں میں پاکستان پولیس سروس کی نمائندگی کر چکے ہیں اس تناظر میں ان کا ویژن بین الاقوامی پولیسنگ سے ہم آہنگ ہے۔ لاہور پولیس کے اس سٹریٹیجک ڈویلپمنٹ پلان کے حوالے سے جو کچھ میرے علم میں ہے اگر اس کے نصف پر بھی عملدرآمد ہو گیا تو بخدا عوام کا اعتماد اور عزت نفس کی بحالی کے ساتھ ساتھ پولیس کا مورال اور ساکھ بھی حکومت کیلئے اثاثہ ثابت ہو گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں