"AAC" (space) message & send to 7575

شٹر پاور سے پاور کوریڈور تک …(2)

ہوسِ زر کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتاہے کہ شیر خوار بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ ان کی اوّلین اور بنیادی خوراک دودھ بھی انہیں پلانے کے قابل نہیں۔ بیرون ممالک سے بین الاقوامی برانڈز کے زائد المیعاد خشک دودھ کے ڈبے سکریپ کے نام پر منگوائے جاتے ہیں‘ جس کی تاریخِ میعاد دوبارہ پرنٹ کر کے انہیں تازہ اور قابلِ استعمال ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ٹِن پیک مشروبات‘ چاکلیٹ‘ بسکٹ سمیت دیگر اشیائے خوردونوش کے حوالے سے سوچ اور اَپروچ یہی ہے کہ بس دھندا چلنا چاہیے... کوئی جیئے یا مرے ان کی بلا سے۔ جبکہ زیادہ کمانے کی دھن میں کاسمیٹکس سے لے کر ملکی و غیر ملکی برانڈ کے جعلی سگریٹ تک ملک بھر میں یہاں سے سپلائی کیے جاتے ہیںجو بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل سٹورز سے لے کرگلی محلے کی دکانوں تک فروخت ہو رہے ہیں۔ 
اسی طرح چائے کی پتی سے لے کر اسپغول کے چھلکے تک‘ مرچ مصالحوں سے لے کربیسن تک‘ دالوں اور خوردنی تیل سے لے کر گھی سمیت نجانے کس کس چیز میں کیا کیا زہر کس دیدہ دلیری اور سفاکی سے ملایا اور عوام کو کھلایا جارہا ہے۔ کاروبار اور روزگار کے نام پر ان غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث تاجر حضرات عوام کو موذی بیماریوں اورموت سے دوچار کر کے اپنی اپنی دنیا سنوارنے میں مگن ہیں۔ ان چشم کشا حقائق کی تصدیق کے لیے کسی راکٹ سائنس یا ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ والڈ سٹی کے اندر بھول بھلیوں کا منظر پیش کرنے والی یہ چور مارکیٹیں ان سبھی اشیا کے سٹاک سے بھری پڑی ہیں۔ جب جب ان سفاک اور جعلساز تاجروں پر کڑا وقت آیا ان کے سماج سیوک تاجر رہنما ان کی امداد اور پشت پناہی کے لیے آن کھڑے ہوئے۔
کارروائی کرنے والے سرکاری ادارے کو مجبور اور قائل کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے باز رہے بصورت دیگر مزاحمت اور ہڑتال کی دھمکی دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ سمگل شدہ آئٹم میں کپڑے سے لے کر ضروریاتِ زندگی کی سبھی اشیا کی کھلے عام فروخت حکومتی اداروں اور تاجر رہنماؤں کے گٹھ جوڑ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جعلی اور ممنوعہ ادویات کی پیکنگ‘ پرنٹنگ اور سٹوریج پر بھی ان مارکیٹوں میں کوئی ممانعت نہیں۔ انسانی جانوں سے کھیلنے کے سبھی لائسنس یہاں باآسانی دستیاب ہیں۔ ان تمام لائسنسوں کے حصول کے لیے بس شٹرپاور کا حصہ بننا ضروری ہے۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ والڈ سٹی کے حوالے سے ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو یہاں پر فروخت ہونے والی مصنوعات کے معیار سے لے کر گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ہونے والی تعمیرات خصوصاً پلازوں‘ مارکیٹوں کا جائزہ لے۔ سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ زمین کی ملکیت سے لے کرنقشوں کی منظوری تک ہر معاملے میں دھونس‘ دھاندلی اور داداگیری کا عنصر نمایاں نظر آئے گا۔ راہداریوں سے لے کر گلیوں تک‘ گندے نالوں سے لے کر سرکاری اراضی تک‘ سبھی پر برابر ہاتھ صاف کیا گیا ہے اور رہا تعمیرات کا معاملہ تو نقشہ تو درکنار تہ خانوں کی تعمیر پر پابندی کے باوجود تعمیر شدہ پلازوں میں تہ خانے نکالے گئے۔ جس کے نتیجے میں ہونے والے حادثات میں عوام کے مالی نقصان کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کا ضیاع آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس کارِ بد میں ملوث تاجر رہنماؤں کو نہ تو کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی روکنے والا سامنے آیا ہے۔ سبھی حکمرانوں نے ان سماج سیوک رہنماؤں کو من مانی اور داداگیری کا لائسنس جاری کر کے شٹرپاور کا تعاون طلب کر کے انہیں مال بنانے کی کھلی چھٹی دئیے رکھی ہے۔ 
یہ سارا کچھ ان تاجر رہنماؤں کی آشیرباد اور پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں۔ معاشی بدحالی کا رونا رونے والے کاروباری اداروں‘ ڈپارٹمنٹل سٹورز اور فوڈ چینز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد‘ ان کی برانچوں کی بھرمار اور ان سٹورز پر گاہکوں کا ہجوم دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ حالیہ بجٹ نے ان کی چیخیں نکلوا دیں۔ اسی طرح پوش علاقوں میں واقع ریسٹورنٹس میں ہاؤس فل اور باہر کھڑی بیش قیمت گاڑیوں کی قطاریں اس واویلے اور سیاپے کی چغلی کھاتے دکھائی دیتی ہیں۔ ثانوی سے بھی کم سماجی اور مالی پس منظر رکھنے والے بیشتر کردار شٹرپاور کی آڑ میں کئی پلازوں‘جائیدادوںاور بیش قیمت گاڑیوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور ان کے کاروبار کا ہوشربا حجم ہی ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ آج یہ سب شٹرپاور کو ڈھال بنائے ہوئے ہیں‘ کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر دکاندار قابو آگیا تو پھر وہ بھی نہیں بچیں گے۔ خود کو حکومتی پکڑ اور ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچانے کے لیے یہ تاجررہنما شٹرپاور کو دفاعی لائن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جعلسازی‘ چور بازاری‘ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی لت میں مبتلا دکانداروں کو ان تاجر رہنماؤں نے ''ٹیکس خوری‘‘ کا بھی عادی بنا ڈالا ہے۔ 
اپنے محبوب تاجر رہنماؤں کے مفادات کے تحفظ کی بھینٹ چڑھنے کو تیار یہ سارے دکاندار جانتے ہی نہیں کہ کس کس طرح اور کہاں کہاں استعمال ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تاجر رہنماؤں کے اثاثوں‘ کاروبار‘ لگژری گاڑیوں اور غیر معمولی ترقی کی منی ٹریل طلب کی جائے اور ان سے یہ بھی پوچھا جائے کہ ان کا شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ان کے ماضی سے متصادم کیوں ہے۔ راتوںرات اور قلیل ترین عرصے میں کونسا تیل نکلا ہے... ہیرے جواہرات کی کونسی دیگ اُن کے ہاتھ لگ گئی ہے؟ جس دن ان تاجر رہنماؤں سے ان کی ترقی خوشحالی اور ٹھاٹھ باٹھ کا حساب طلب کر لیا گیا وہ ہڑتال تو درکنار جان خلاصی کے عوض ہمیشہ کے لیے لیڈری سے بھی توبہ کر لیں گے۔ 
حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ دکانداروں کو اعتماد دلائے کہ ٹیکس نیٹ میں آنے کا مقصد صرف ملکی معیشت کو استحکام دینا ہے۔ کوئی انہیں ہراساں اور پریشان نہیں کرے گا۔ یہ سارے محب وطن پاکستانی اور تاجر ہیں۔ اگر انہیں یہ یقین ہو جائے کہ ان کا دیا ہوا ٹیکس صرف اسی مقصد کے لیے خرچ کیا جائے گا جس مد میں ان سے وصول کیا جارہا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملک و قوم کے معاشی استحکام میں اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ یہ وہی تاجر برادری ہے جو قرض اتارو ملک سنوارو تحریک سے لے کر کینسر ہسپتال تک‘سیلاب زدگان سے لے کر زلزلہ متاثرین تک ‘سبھی مواقع پر دل کھول کر انتہائی فراخدلی سے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالتی رہی ہے۔ 
تاجر تنظیموں کی ڈوریاں کہاں سے اور کیسے ہلائی جاتی ہیں اور اس حوالے سے واقفانِ حال بخوبی آگاہ ہیں۔ ان تنظیموں کو کامیاب اور مؤثر بنانے کے لیے حکمرانوں نے اپنا حصہ ڈالا اور انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال بھی کیا ہے۔ حکمرانوں کی سہولت کاری کے عوض تاجر رہنماؤں کو لمبا مال بنانے سے لے کراثر و رسوخ تک‘ سبھی مراعات اور اختیارات حاصل رہے ہیں اور مقتدر حلقوں تک رسائی بھی حاصل رہی ہے۔ 
تعجب ہے کہ موجودہ حکمران بھی اس روش کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مال روڈ سے ملحقہ ایک بڑی مارکیٹ کے تاجر کو ایوانِ وزیر اعلیٰ میں اہم عہدے سے اس لیے نوازا گیا ہے کہ وہ تاجر پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما اور وزیراعظم کے انتہائی معتمد معاون خصوصی کے بیرونِ ملک دوروں کے دوران ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کھاتے میں ایوانِ وزیراعلیٰ میں یہ اہم عہدہ حاصل کرنے والے تاجر حالیہ ہڑتال میں شامل اور پیش پیش تھے۔ انہوں نے ہڑتال رکوانے یا ناکام بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ یہ تو وزیراعلیٰ ہی بتاسکتے ہیں کہ وزیراعظم کے معتمد اور معاونِ خصوصی کے یہ قریبی تاجر وزیراعلیٰ ہاؤس میں کیا قومی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ مذکورہ تاجر کو ایک بڑا تاجر رہنما بننے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی خاطر داری اور میزبانی کر کے سرکاری مراعات اور عہدے حاصل کرنے والوں کی فہرست میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جس پر آئندہ کسی کالم میں بات کریں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں