قارئین گزشتہ تین کالم تاجروں کی حالیہ ہڑتال اور سماج سیوک تاجر رہنماؤں کے گورکھ دھندوں کی نذر ہو گئے۔ اس دوران طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ شہر کی سڑکیں اور آبادیاں سیلاب کا منظر پیش کرتی رہیں۔ جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے اور بنوانے والوں کے خلاف مقدمات اور ان کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے بھارتی جاسوس کلبھوشن کیس کا فیصلہ پاکستان کے حق میں دے دیا ہے۔ ان سب موضوعات پر بات کرنا ضروری ہے لیکن کیا کریں وزیر اعظم کے دوٹوک اور واضح بیان کے بعد لگتا ہے کہ یہ کالم بھی ہڑتالی تاجروں اور اُن کے نیتاؤں کی نذر ہی ہو جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ہڑتالی تاجروں اور سماج سیوک تاجر رہنماؤں پر واضح کر دیا ہے کہ تاجروں کی ہڑتال سے ڈر کر پیچھے ہٹنا غداری کے زمرے میں آتا ہے اور وہ اس غداری کے مرتکب ہونے والے نہیں... بھلے یہ تاجر کچھ بھی کر لیں اور کسی بھی حد تک چلے جائیں۔ عمران خان صاحب کا یہ کھلا اور دوٹوک پیغام تاجروں کے لیے تو پریشانی کا باعث ہے ہی لیکن یہ بیان تاجر رہنماؤں کی نیندیں اُڑانے کے لیے بھی کافی ہے۔ جبکہ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے افسران کو بھی چھاپوں کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ ایس ای سی پی کے افسران کو یہ اختیار ملنے کے بعد تاجروں کے سماج سیوک نیتاؤں کی راتوں کی نیندوں کے ساتھ ساتھ دِن کا چین بھی لُٹتا دِکھائی دیتا ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ انڈسٹری کے استحکام اور اس کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کے لئے سمگلنگ روکنا ہو گی اور شناختی کارڈ کی شرط پر شور مچانے والے صرف وہی لوگ ہیں جو سمگلنگ کے مال کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ انسداد سمگلنگ کے لیے وزیر اعظم نے آرمی چیف سمیت دیگر متعلقہ اداروں سے بات کی ہے کہ وہ اس اہم ٹاسک کے حصول کے سلسلے میں حکومت کی معاونت کریں۔ یہ اَمر انتہائی باعث تشویش ہے کہ دس سال پہلے کاروبار کے لیے سازگار ماحول اور آسانیاں فراہم کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 77واں ہوا کرتا تھا۔ اب پاکستان اس حوالے سے 147ویں نمبر پر ہے۔ وزیر اعظم نے ایف بی آر میں سات سو ارب کی چوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ہمیں سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ تبھی جا کر معاشی معاملات کو استحکام دیا جا سکے گا۔
وزیر اعظم کا کہنا بجا ہے کہ ملک اب اس طرح نہیں چل سکتا۔ تاجروں کی ہڑتال پر وزیر اعظم کا ردّ عمل عین منطقی ہے۔ شٹر پاور کو ڈھال بنا کر حکومتوں کو بلیک میل کرنے والے تاجر اتحاد ہوں یا انجمن تاجران، فیڈریشن ہوں یا چیمبرز سبھی اپنے اپنے مفادات اور ایجنڈے پر گامزن محسوس ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں مشورہ دیا تھا کہ شٹر پاور کا دَم خم جانچنے کے لیے صرف اِن کے ''نیتاؤں‘‘ سے حساب طلب کر لیا جائے تو یہ ہڑتالیئے آناً فاناً تتر بتر ہوتے نظر آئیں گے۔
تجاوزات کی کمائی کھانے سے لے کر دھونس اور اثرورسوخ کے زور پر سرکاری گلیوں اور راہداریوں سے لے کر کونے کھدروں تک دوکانیں مارکیٹیں اور پلازے بنا کر‘ حکمرانوں کی تصاویر والے بورڈ نصب کر کے کھلے عام پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم شجر ممنوعہ اور مقدس گائے ہیں۔ ہم کسی قانون، ضابطے اور اخلاقی قدروں کو نہیں مانتے، ہماری رسائی چمچوں، چیلوں سے لے کر حکمرانوں تک ہے۔ وزیروں، مشیروں اور دیگر اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ بغل گیر اور پُر جوش مصافحوں کی تصاویر انتہائی فخریہ انداز میں جا بجا لگائی جاتی ہیں۔ ان تصاویر کو آویزاں کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ کارپوریشنز سے ڈویلپمنٹ اتھارٹیز تک... تھانے‘ پولیس سے لے کر دیگر حکومتی اداروں تک‘ اہلکار اور افسران سبھی ان سے پَرے اور ٹلے رہیں۔
شہرِ لاہور کے دِل مال روڈ سے ملحقہ تاریخی اور مشہور علاقے لکشمی مینشن کو ہی لے لیجئے۔ اس کی خوبصورتی اور تاریخی پسِ منظر کو کس بے دردی سے برباد کر کے کس کس نے اپنی دنیا آباد کی‘ یہ سب کچھ سبھی جانتے ہیں۔ کس کس ادارے نے آنکھیں بند کیے رکھیں اور کیوں کیے رکھیں۔ حکومتی اداروں کے اہلکار جب حکمرانوں کے ساتھ ان ''سماج سیوک نیتاؤں‘‘ کے مراسم دیکھتے ہیں تو اُن کی کیا مجال کہ وہ اُن کی غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کا نوٹس لے سکیں۔ اپنی بے بسی اور مجبوری کا احساس ہوتے ہی یہ حکومتی اہلکار اور افسران ان نیتاؤں کے کنسلٹنٹ اور معاون بننے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ یہ رونا کسی ایک لکشمی مینشن کا نہیں شہر کی کوئی قابلِ ذکر مارکیٹ ایسی نہیں جہاں ''لکشمی‘‘ کے زور پر من مانیوں اور دھونس و دھاندلی کا راج نہ ہو۔ سرکاری راہداری یا اراضی اگر کسی تاجر رہنما کو بھا گئی تو سمجھیں اسے اُن کی نظرِ بد کھا گئی۔
بڑے نامی گرامی وزیر‘ مشیر‘ سیاسی رہنما اور دیگر اہم شخصیات بڑے فخر سے ان ناجائز پلازوں اور مارکیٹوں کے افتتاحی فیتے کاٹتے ہیں۔ ان پلازوں کے مالک انتہائی ڈھٹائی اور بے حیائی سے اپنی اس کامیابی اور خوشحالی کو ''ھذا من فضلِ ربی‘‘ سے منسوب کرتے نظر آتے ہیں۔ اس شٹر پاور کو من مرضی کے مطابق چلانے کے لیے تاجروں کی طلبیاں ان کے ڈیروں پر کروائی جاتی ہیں۔ اطاعت اور وفاداری کے لیے کس کس طرح مجبور کیا جاتا ہے۔ سر بلند کس طرح سر نگوں دِکھائی دیتے ہیں یہ سبھی واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں۔
وزیر اعظم کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ ماضی کے سبھی ادوار میں یہ سبھی کچھ انتہائی دیدہ دلیری اور سینہ زوری کے ساتھ جاری رہا۔ باعث تشویش اَمر یہ ہے کہ اس کارِ بد کا وائرس تحریک انصاف میں بھی داخل ہو چکا ہے۔ مفادِ عامہ سے مشروط اہم سرکاری عہدوں پر مفادات کے ماروں کو لگایا جا رہا ہے۔ ماضی قریب میں چھوٹے موٹے کام کاج اور دوکانوں پر کام کرنے والے آج تحریکِ انصاف کے کھاتے میں تاجر رہنما بنے پھر رہے ہیں۔ کسی بھائی کو تحریک انصاف کے اہم شخصیات کی خاطر داری پر لگایا ہوا ہے تو کوئی بھائی ایوانِ وزیر اعلیٰ میں داد رسی کے منصب پر فائز ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے بینی فشری تاجر رہنما حالیہ ہڑتال میں ہڑتالی تاجروں کے شانہ بشانہ اور ہم قدم دِکھائی دیتے تھے۔
ایک طرف وزیر اعظم سابق حکمرانوں سے ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں جبکہ دوسری طرف ''ٹیکس خور‘‘ تاجروں کو رعایت اور چھوٹ دینے کو غداری قرار دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں ایسے لوگوں کی نشاندہی ہونی چاہیے جو وزیر اعظم کے عزم اور ارادوں کے متصادم سابق حکمرانوں کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے ذوق و شوق‘ تام جھام‘ سیر سپاٹوں اور دیگر ضروریات کی تکمیل کے عوض اسی کارِ بد کے وائرس کو پھیلا رہے ہیں‘ جس کی بنیاد ماضی کے حکمرانوں نے رکھی تھی اور اس کارِ بد کے پودے کو بھربھر مشکیں ڈالنے والے ہر دور میں باآسانی میسر آتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ایسے لوگ وزیر اعظم کے عزم کی تکمیل اور اہداف کے حصول میں کہیں رکاوٹ تو نہیں ڈال رہے۔ شٹر پاور کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے ان سماج سیوک نیتاؤں کی دادا گیری اور اعلیٰ حکام تک رسائی بھی شٹر پاور میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ سبھی تاجر ہڑتال کے حق میں نہیں... کوئی مجبوراً ہڑتال کرتا ہے تو کوئی احتیاطً... مفاد پرست اور ٹیکس خور تاجروں کا تو معاملہ ہی اور ہے۔ وہ اپنے ان نیتاؤں کو ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیتے ہیں‘ جس کے عوض انہیں چور بازاری سے لے کر جعلسازی تک اور ذخیرہ اندوزی سے لے کر منافع خوری تک... سبھی معاملات میں آشیرباد اور پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔
وزیر اعظم کا عزم بجا سہی... دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما اور شریک اقتدار وزیر اعظم کے اہداف کے حصول اور عزم کی تکمیل میں کس حد تک اُن کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ سب اُسی صورت ممکن ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کی روایات اور کارِ بد کے وائرس کا خاتمہ کر کے وزیر اعظم کے ویژن اور عزم کے مطابق پالیسیاں اور اقدامات کیے جائیں۔ تب کہیں جا کر کرپشن کا یہ وائرس مرے گا۔