"AAC" (space) message & send to 7575

اَب وہ روتا ہے… چُپ نہیں ہوتا

وزیراعظم عمران خان وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ دورہ امریکہ کے دوران انہوں نے پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ وطن واپس جا کر نواز شریف اور زرداری سے ایئرکنڈیشنر سمیت دیگر تمام سہولیات واپس لے لیں گے۔ دو سابق وزرائے اعظم اور ایک سابق صدر مملکت سمیت دیگر اسیران اپنی بے گناہی اور حکومت کی طرف سے انتقامی کارروائی کی دہائی دے رہے ہیں جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ احتسابی ادارے خود مختار ہیں اور حکومتی مداخلت کے بغیر اپنی کارروائی کر رہے ہیں۔
نواز شریف اور زرداری سے ایئرکنڈیشنر واپس لے لیں یا ایک اور لگوا دیں۔ ملک و قوم کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ عوام کا مسئلہ صرف لوٹی ہوئی دولت کی واپسی اور معاشی استحکام ہے۔ ''ابنِ مریم ہوا کرے کوئی... میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی‘‘ کے مصداق قوم کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نواز شریف جیل میں آلو گوشت کھا رہے ہیں یا دلیہ‘ عوام کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ وطنِ عزیز کو دیوالیہ کرکے اُنہیں بد حالی، مہنگائی اور گرانی کے کنویں میں دھکیلنے والوں کے پیٹ پھاڑ کر ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت وصول کی جائے اور بس!!! سیاستدانوں پر بنائے گئے کیسوں کی تفتیش اور ٹرائل پر کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں اور مزید اخراجات جاری ہیں لیکن بدقسمتی سے تاحال ان سابق حکمرانوں سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی جا سکی ہے۔
وطن عزیز پر بیرونی قرضوں کا پہاڑ بنانے والے حکمران اپنی دنیا سنوارنے کے لیے بے تحاشا قرضے تو لیتے ہی رہے لیکن جن منصوبوں کے لیے یہ قرضے حاصل کیے گئے ان منصوبوں کو بھی اپنے مفادات کے گرد ہی گھماتے رہے‘ یعنی ''آم کے آم... گٹھلیوں کے دام‘‘۔ وزیر اعظم نے بیرونی قرضوں پر کمیشن بنانے کا اعلان کرکے سابق حکمرانوں کی کس دکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے جو وہ بلبلا اُٹھے ہیں۔ ان کے اس تلملانے کی وجہ جاننے کے لیے چند ہوش اُڑا دینے والے چشم کشا حقائق پیش نظر ہیں۔
1988ء تک وطن عزیز پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کا حجم 13 ارب ڈالر تھا۔ جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں نے 1999ء تک یعنی صرف دس سال کے دوران اِن قرضوں کا حجم 39 ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔ یاد رہے کہ ان دس سالوں کے دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو، دو مرتبہ وزارتِ عظمی کے بھرپور مزے لیتے رہے تھے۔ صرف دس سالوں میں 26 ارب ڈالر کہاں لگائے اور کہاں اُڑائے؟ یہ سبھی کچھ تو عیاں ہو ہی چکا ہے۔ اسی طرح 1999ء سے 2008ء جنرل مشرف کے عرصۂ اقتدار میں 39 اَرب ڈالر کا قرضہ 40.6 اَرب ڈالر تک ہی بڑھا۔ بیرونی قرضوں پر جنرل مشرف کا یہ کنٹرول قابلِ تعریف و تقلید تھا۔
2008ء میں میثاقِ جمہوریت کے نام پر بننے والے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں نواز، زرداری بھائی بھائی بن کر شہر اقتدار میں داخل ہوئے۔ 2008ء سے 2013ء تک زرداری نے اپنا سِکّہ چلایا تو اگلے پانچ سال 2013ء سے 2018ء تک وطن عزیز میں ''نواز راج‘‘ رہا۔ اِن دس سالوں میں بیرونی قرضوں کا حجم 40.6 اَرب ڈالر سے بڑھا کر 96 اَرب ڈالر تک پہنچا دیا گیا۔ گزشتہ تیس سالوں کے دوران لیے جانے والے قرضوں کے حجم سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیرونی قرضوں پر کمیشن بنانے کے اعلان پر اَپوزیشن کی نیندیں کیوں اُڑی ہوئی ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان کی نیندوں کے ساتھ ساتھ اُن کا چین بھی لُٹتا دِکھائی دیتا ہے۔
جمہوریت کے علمبردار اور عوام کے غم میں مرے جانے والے یہ حکمران 13 اَرب ڈالر کا قرضہ 96 اَرب ڈالر تک پہنچانے کے بعد خود تو محلات، اَن گنت فیکٹریوں، خفیہ اور ظاہری اثاثوں، وسیع و عریض کاروباروں، اندرون و بیرون ملک جائیدادوں اور بیش قیمت گاڑیوں سمیت ناجانے کس کس کے مالک بن چکے ہیں‘ لیکن انہوں نے عوام کو کس حال میں پہنچا ڈالا؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ پوری واردات ہے۔ کس ڈھٹائی سے دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت کر دے تو سیاست چھوڑ دیں گے۔ ''کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟‘‘ اِن کی سیاست تو کب کی گئی‘ اب تو عزتِ سادات بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔ اب ثابت کرنے کے لئے کیا رہ گیا ہے؟ اِن کی سیاست کی چھٹی تو مکافاتِ عمل اور عوام نے ہی کرا دی ہے۔
آمدن سے زائد اثاثوں میں رقوم کی بذریعہ T.T کو کون اور کتنا جھٹلا سکتا ہے اور کب تک جھٹلا سکتا ہے۔ جتنا مرضی واویلا کر لیں شریف برادران اور زرداری اینڈ کمپنی سارے ہی رقوم کی ٹیلی گرافک ٹرانسفر (T.T) کے پھندے میں فٹ ہو چکے ہیں جبکہ بوئے سلطانی سے مجبور ہو کر کی جانے والی مار دھاڑ‘ میرٹ اور گورننس کی دھجیاں اُڑا کر بنائے گئے مال اسباب کا تو شمار اور گمان ہی محال ہے۔
نواز شریف نے سیاسی مخالفین اور حریفوں کو زیر عتاب رکھنے کے لیے احتساب بیورو بنایا اور اس کا چیئرمین اُس سیف الرحمن کو بنا ڈالا جس کے ایک قریبی عزیز کا لاہور میں واقع میڈیکل سٹور ممنوعہ، سمگل شدہ اور نشہ آور ادویات کی خریدوفروخت کی وجہ سے اکثر سربمہر رہتا تھا۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ سیف الرحمن کو نیب کا سربراہ کیوں بنایا گیا تھا۔ انہوں نے سیاسی مخالفین اور حریفوں سے لے کر میڈیا تک سبھی کو خوب رگڑا لگایا۔ میڈیا کو لگایا جانے والا رگڑا ان کی سیاست اور اقتدار کا بد ترین اور سیاہ باب تھا اور آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
ماضی کے سبھی نیب سربراہان حکمرانوں کی کٹھ پتلی بن کر اِن کے اشارے پہ کام کرتے رہے۔ سیاسی مخالفین کو زیر عتاب رکھنے کے لیے ریاستی جبر کا برے سے برا نمونہ بن کر نیب نے حکمرانوں کی خواہشات اور توقعات کے مطابق ادارے کو چلائے رکھا۔ موجودہ چیئرمین نے پہلی مرتبہ نیب کو خود مختار ادارے کے طور پر متعارف کروایا۔ کیا حکومت‘ کیا اَپوزیشن‘ کیا اَفسر شاہی‘ کیا سہولتکار سبھی کو احتساب کی چکی میں برابر کا پیس ڈالا۔ شریف برادران ہوں یا زرداری اینڈ کمپنی یا دیگر اسیران سبھی کے بارے میں سب ہی بخوبی جانتے ہیں۔ نیب اپنا کام کر چکا ہے۔ اَب عوام انصاف ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے منصب سنبھالتے ہی سب سے پہلے جھوٹی گواہی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور 4 مارچ کو سچ کے سفر کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''اب جھوٹ نہیں چلے گا... جھوٹی گواہی پر سزا ملے گی... اگر انصاف چاہیے تو سچ بولنا پڑے گا... جھوٹے گواہوں نے نظام عدل تباہ کر کے رکھ دیا ہے‘‘۔ اس کے بعد ماڈل کورٹس بنا کر جوڈیشری کی تاریخ میں ایک اور سنگِ میل کی بنیاد رکھ دی۔ ملک کے بارہ اضلاع میں بنائی گئی ماڈل کورٹس میں قتل کا کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں۔ فوجداری نظام میں جھوٹی گواہی اور تاخیری حربے ہی انصاف سے دوری کی وجہ بنتے ہیں اور انصاف سے دوری ہی مایوسی کو جنم دیتی ہے اور مایوسی سماجی برائیوں کی ماں ہے۔
ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وطنِ عزیز کے معاشی اور اقتصادی استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ ملک و قوم کی دولت اور وسائل کو باپ دادا کی جاگیر سمجھنے والے حکمرانوں سے فوری ریکوری کے لیے قانون اور انصاف کے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ جس طرح ملک کے بارہ اضلاع کے ماڈل کورٹس میں قتل کا کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں۔ اسی ماڈل کو ملکی وسائل کو بے دریغ لوٹنے اور قومی خزانے کو کنبہ پروری اور اللوں تللوں پر اُڑانے والوں پر بھی لاگو کیا جانا چاہئے۔
نیب اسیران کے مقدمات کی سماعت کے لیے بھی ایسی ماڈل کورٹس تشکیل دی جائیں جو روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے جزا اور سزا کے تصور کی عملی تصویر نظر آئیں۔ بلا امتیاز اور بے رحم احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اب ان ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانا یقینا قومی فریضہ ہے۔ اس قومی فریضے کی ادائیگی میں تاخیر، انصاف سے دوری کے باعث ہے اور انصاف سے دوری قوم کو مایوسی کی طرف لے جا رہی ہے۔ قوم پہلے ہی یقین اور بے یقینی کی فضا میں معلق ہے۔ قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ملک و قوم کے لٹیروں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔ تب کہیں جاکر اس کارِ بد کا بیج مرے گا۔ ویسے بھی ملکی وسائل اور دولت لوٹنے والوں کی حالت زار کچھ اس طرح ہے: ؎
وہ جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا
اب وہ روتا ہے چُپ نہیں ہوتا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں