"AAC" (space) message & send to 7575

کیا یہی بڑی خبر تھی؟

امریکہ کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو ہمارے ہاں بڑی خبر قرار دیا گیا تھا۔ جشن کا سماں تھا۔ تحریک انصاف کے متوالے تو پھولے نہ سماتے تھے۔ ٹرمپ عمران ملاقات پر ڈھول ڈھمکے سے لے کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ تک سبھی کچھ بڑے جوش و خروش سے کیا گیا۔ پاک امریکہ تعلقات کو مثالی ثابت کرنے کے لیے کیسے کیسے دلائل اور توجیحات سننے کو ملتی رہیں۔ ٹاک شوز میں وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کو تاریخی ثابت کرنے کے لیے سابق حکمرانوں کے دوروں سے موازنہ کر کے تمسخر بھی اُڑایا جاتا رہا۔ جوشِ خطابت اور شعلہ بیانی کا کیسا کیسا منظر دیکھنے کو نہیں ملا اور قوم کو یہ اُمید دلائی گئی کہ اَب ہم امریکہ بہادر کے ساتھ باوقار تعلقات برابری کی سطح پر استوار کریں گے۔ 
قارئین! آپ کو یاد ہوگا میں نے اُس وقت بھی کم و بیش یہی کہا تھا کہ ''خدارا ہوش کے ناخن لیں‘‘ اور امریکی رومانس کا نشہ اپنے حواسوں پر سوار نہ کریں۔ وزیراعظم کے دورۂ امریکہ پر شادیانے ضرور بجائیں لیکن پاک امریکہ تعلقات کا تاریخی پس منظر اور فلسطین پر امریکی ثالثی بھی یاد رکھیں۔ وہ لطیفہ تو سبھی نے سنا ہی ہوگا کہ ''ایک شخص انتہائی پرجوش اور مستی میں لہرا لہرا کر بڑھکیں مار رہا تھا تو کسی نے آگے بڑھ کر پوچھا: میاں کیا تم نے پی رکھی ہے؟ جواباً وہ شخص بولا: ابھی تک تو نہیں پی کسی کو لینے بھیجا ہوا ہے‘‘۔ کشمیر پر امریکی ثالثی کی پیشکش پر کچھ اسی قسم کا منظرنامہ وطنِ عزیز میں بھی دیکھنے کو ملا تھا۔ 
ثالثی کی پیشکش کو بڑی خبر قرار دینے والوں کو اس وقت بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ اس پیشکش کو اتنی بڑی خبر بنا کر پیش نہ کریں اور نہ ہی کسی خوش فہمی کا شکار ہوں۔ دورہ امریکہ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ بڑی خبر وہ ہو گی جو اس دورے کے بعد سامنے آئے گی۔ قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ عمران خان صاحب امریکہ سے کیا لے کر آئے ہیں اور کیا دے آئے ہیں۔ دور کی کوڑی لانے والے تو ثالثی کی اس پیشکش کو پیشگی اطلاع سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پیشکش نہیں بلکہ عمران خان صاحب کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی‘ جسے عمران خان ثالثی سمجھ بیٹھے۔ وہ پیشگی اطلاع یہ تھی کہ اب مسئلہ کشمیر پر مزید انتظار نہیں کرنا پڑے گا‘ اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے جا رہے ہیں‘ بھارت آرٹیکل 370 سے منحرف ہونے جا رہا ہے‘ کشمیر کو واپس 1947ء کی پوزیشن پر لا کھڑا کریں گے۔ 
لاٹھی گولی کی بھارتی سرکار طاقت کے زور پر کشمیریوں سے کیے گئے آئینی معاہدوں کی تنسیخ کے ساتھ ساتھ تمام اخلاقی قدروں اور انسانی حقوق کو پامال کرنے کے سارے ریکارڈ بھی توڑنے جا رہی ہے۔ اپوزیشن نے تو حکومت کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بھارتی اقدام کا ہمارے حکمرانوں کو پہلے سے معلوم تھا‘ اب یہ فیس سیونگ کے لیے یکجہتی کا ڈرامہ کر رہے ہیں۔ جبکہ بھارت کے حالیہ انتخابات کے دوران تو مودی نے بے حد ڈھٹائی کے ساتھ کشمیر کے بارے میں اپنے سارے مکروہ عزائم کا کھل کر اظہار کیا تھا۔ ہمارے حکمران مودی کے دعوؤں اور بڑھکوں کو انتخابی نعرے ہی سمجھتے رہے لیکن اس موذی مودی نے وہ کر دکھایا جو اس نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا۔
قوتِ فیصلہ اور ویژن سے عاری ہمارے حکمران امریکی دورے اور ثالثی کی پیشکش کے نشے میں اس قدر بے خود تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب ''دشمن چال قیامت کی چل گیا‘‘۔ اس پر ستم یہ کہ انتہائی نازک حالات اور جنگ کے دہانے پہ کھڑے وطنِ عزیز کے سیاست دان (بشمول حکومت اور اَپوزیشن) پوائنٹ سکورنگ سے باز نہیں آ رہے۔ ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے لے کر الزام تراشیوں تک سبھی کچھ اسی طرح کر رہے ہیں جو بد قسمتی سے ہماری پارلیمانی روایت کا حصہ ہے۔ دنیا بھر کو تماشا دکھایا جا رہا ہے کہ حالتِ جنگ میں بھی پاکستان کے سارے سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے باز نہیں آ رہے اور باتیں کرتے ہیں سرینگر میں پاکستانی پرچم لہرانے کی۔ ایک دوسرے کو نیچا دِکھانے کی دھن میں مگن اور پارلیمان میں آپس میں لڑنے والے سیاستدان خاک دشمن سے لڑیں گے۔ 
وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران انہیں ثالثی کا جھانسہ دے کر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی کھچڑی بھارت میں پکائی جا رہی رہی تھی جبکہ امریکہ میں موجود وزیر اعظم عمران خان سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ایئرکنڈیشنر اور ٹیلی ویژن کی سہولت واپس لینے کی باتیں کر رہے تھے۔ آفرین ہے ان حکمرانوں کے ویژن اور طرزِ حکمرانی پر... یہ اَمر بھی تشویشناک ہے کہ پاک بھارت کشیدگی اور شدید جنگی خطرات کے باوجود ہمارے دوست ممالک بھی اس سطح پر یکجہتی کا اظہار نہیں کر رہے جس کی ان سے توقع تھی۔ سی پیک معاہدے کی دستاویزات آئی ایم ایف کو فراہم کرنے پر ہمارا دیرینہ ہمدرد اور دوست ملک چین بھی تذبذب کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ہاتھوں کی چھوڑ کر اُڑتی پکڑنے کے شوق میں ہمارے حکمران کیا کچھ گنواتے چلے جا رہے ہیں؟
ضرورت اس اَمر کی ہے کہ بین الاقوامی طور پر اس احساس کو اجاگر کیا جائے کہ جنگ کی صورت میں پاک بھارت تو اس جنگ کا ایندھن بنیں گے ہی لیکن خطے کے دوسرے ممالک بھی اس آگ کی تپش سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس کے لیے اعلیٰ سفارتکاری اور ویژن کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز آصف علی زرداری نے حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ خاصے کی باتیں کی ہیں جبکہ کچھ باتوں پر اظہار خیال کرنے سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ''کچھ باتیں کہنے والی نہیں ہوتیں‘‘۔ آصف علی زرداری کا یہ کہنا بالکل درست ہے۔ یقینا کچھ باتیں کہنے والی نہیں ہوتیں بلکہ سمجھنے والی ہوتی ہیں۔ اب سمجھنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ کس بات کو کس طرح سمجھتے ہیں۔ 
کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرنے والا امریکہ بہادر تاحال صورتحال کا جائزہ لینے میں مصروف ہے‘ جبکہ یہ عقدہ تو کھل ہی چکا ہے کہ امریکہ کہاں مصروف ہے۔ ہمیں اپنی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ ان پہلوؤں کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران اکثر دوست ممالک سرد مہری کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں۔ ان فکر انگیز پہلوؤں پر غور کرنے کے بجائے آپس میں تقریری مقابلے جاری ہیں۔ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے سے لے کر کردار کشی تک سبھی کچھ جاری و ساری ہے۔ بھاشن پہ بھاشن ایسے دیا جا رہا ہے جیسے یکجہتیٔ کشمیر کی ریلی سے خطاب کر رہے ہوں۔ ان سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی نمائشی ریلی یا مقابلہ نہیں ہو رہا۔ دشمن اپنا وار کر چکا ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پوائنٹ سکورنگ کو پرے رکھ کر اجتماعی حکمتِ عملی اختیار کرنا ہو گی۔ احتساب بھی ہوتا رہے گا۔ پوائنٹ سکورنگ بھی جاری رہے گی۔ کھلے پھرنے والے اَسیر ہوتے رہیں گے اور اَسیر اپنے وقت پر آزاد ہوتے رہیں گے لیکن یہ وقت واپس نہیں آئے گا۔ اس وقت کا گنوانا بہت کچھ گنوانے کے مترادف ہو گا۔ 
2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں نیا پاکستان بنا‘ یا نہیں بنا‘ یہ ایک نہ ختم ہونے والے بحث ہے۔ تحریک انصاف کو قدرت نے ایک انمول موقع فراہم کیا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی اور بھارت کو کھلا پیغام دینے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو سارے اختلافات، عناد اور بغض بالائے طاق رکھ کر سبز ہلالی پرچم تلے اجتماعی جلسہ کرنا چاہیے جس میں تمام جماعتوں کے رہنما سٹیج پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یک زبان ہو کر اﷲ اکبر کا ایسا فلک شگاف نعرہ لگائیں کہ نئی دہلی کے ایوان ہل کر رہ جائیں اور بھارت پر واضح کر دیا جائے کہ تم نے کس قوم کو للکارا ہے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ ماضی کی تمام غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ایک دوسرے کیلئے دلوں میں ذاتی رنجشیں‘ کینہ‘ بغض اور عناد ختم کرکے اور سیاسی وابستگیوں سے بے نیاز ہو کر کشمیر کی آزادی کیلئے فیصلہ کن آواز بن جائیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بھارتی اقدام کشمیریوں کی آزادی کا نہ صرف سنگِ میل ثابت ہو گا بلکہ اس سے بھارت کے اندر پلنے والی مزاحمت کی درجنوں تحریکوں میں بھی نئی جان پڑے گی اور یہی بڑی خبر ہو گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں