بھارت کے یومِ آزادی پر وطنِ عزیز میں یوم سیاہ منایا گیا۔ ترنگا جلایا گیا۔ ریلیاں نکالی گئیں۔ مودی کے پتلے کی چھترول کے بعد اسے آگ لگا کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ مریضوں کے لیے ادویات کی دستیابی تو درکنار جنازوں میں شرکت کی بھی اجازت نہیں۔ شہر فوجی چھائونیوں کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ، موبائل اور اخبارات بند کر دئیے گئے ہیں۔ من مانی سے لے کر غیظ و غضب تک سبھی مظالم نہتے اور معصوم کشمیریوں پر ڈھائے جا رہے ہیں۔ کشمیر کی سڑکوں پر اینٹوں اور پتھروں کے انبار شہریوں کے غم و غصے کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔
کشمیر کے حوالے سے بھارت کے غیر آئینی اقدامات اور مظالم پر سلامتی کونسل نے پاکستان کی درخواست پر آج بروز جمعہ اجلاس طلب کر لیا ہے۔ بلا تاخیر سلامتی کونسل کا اجلاس یقینا پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔ وطن عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادتیں ایک ہی پیج پر ہیں۔ عمران خان اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کر رہے ہیں جبکہ پاک فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کشمیر پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا‘ پاک فوج مکمل تیار ہے۔ ادھر بھارت میں کانگریس کی جنرل سیکرٹری پریانیکا گاندھی نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ بین الاقوامی جریدے اکانومسٹ نے تو پیشگوئی بھی کر ڈالی ہے کہ مودی سرکار کو منہ کی کھانا پڑے گی اور نتائج بھارت کی امیدوں کے برعکس ہوں گے۔
پرچم سرنگوں‘ کالی پٹیاں‘ ریلیاں‘ مذمتی نعرے‘ کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے سبھی کچھ سرکاری طور پہ کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنا یومِ آزادی بھی منا لیا اور کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے بھارت کے یومِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منا کر بین الاقوامی سطح پر بھرپور احتجاج ریکارڈ کروا کر ثابت بھی کر دیا ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ یہ اَمر انتہائی باعثِ تشویش اور غور طلب ہے کہ اس زندہ قوم کو بھارت نے اتنا ہلکا کیوں لیا۔ زندہ قوم یومِ سیاہ تو منا چکی‘ اب اسے کسی روز یومِ خود احتسابی بھی منانا چاہیے۔ ہمیں ان عوامل پر غور کرنا ہو گا کہ آخر کون سی ایسی وجہ ہے کہ ایک ایٹمی طاقت کو بھارت کسی طور ثانوی اہمیت دینے پر بھی تیار نہیں۔ پاک فضائیہ کے جوابی وار کے نتیجے میں بھارتی طیارہ گرا کر پائلٹ کا زندہ پکڑے جانا اور زیر حراست ابھی نندن کو حسنِ سلوک کے ساتھ بھارت کے حوالے کر دینا کوئی زیادہ پرانی بات تو نہیں۔ بھارت اس پسپائی اور جگ ہنسائی کو کتنی جلدی بھلا کر لائن آف کنٹرول کی کھلی خلاف ورزی کیے چلا جا رہا ہے۔ نہتے کشمیریوں پر دن دیہاڑے گولیوں کی بوچھاڑ، خواتین کی بے حرمتی، سکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنانا یہ سبھی کچھ اس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے کیوں کیا جا رہا ہے؟
وطن عزیز کو معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے والوں میں برابر کے شریک شہباز شریف قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں '' ہم مودی کے ہاتھ توڑ دیں گے‘‘۔ کوئی ان سے پوچھے کہ مودی ان کے پاس خود پیش ہو گا یا وہ ہاتھ توڑنے کے لیے نئی دہلی جائیں گے؟ ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل کر ملکی و غیر ملکی اثاثے‘ جائیدادیں، فیکٹریاں اور لمبے چوڑے کاروبار چمکانے والے نواز شریف اور زرداری کس بے حسی سے کشمیر اور اپنی کرپشن کو آپس میں اُلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ یہ دو الگ الگ ایشوز ہیں۔ کشمیر پر سیاست ضرور کریں لیکن کشمیر کے نام پر ریلیف کی توقع ہرگز نہ رکھیں۔
وطن عزیز کی نازک ترین معاشی اور اقتصادی صورتحال بھارت کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے توسیع پسندانہ عزائم دن بہ دن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر وطنِ عزیز کی دولت کو بے دریغ نہ لوٹا گیا ہوتا‘ اس کے وسائل کو بے رحمانہ بھنبھوڑا نہ گیا ہوتا‘ ہماری اقتصادی صورتحال ابتر نہ ہوتی‘ ہم قرضوں کی دلدل میں نہ دھنسے ہوتے تو یقینا بھارت بھی یہ جرأت ہرگز نہ کرتا۔ بھارت کا مودی نواز میڈیا انتہائی زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ قرضوں کی دلدل میں دھنسا پاکستان کس طرح موجودہ چیلنجز اور سرحدی کشیدگی سے نبرد آزما ہوسکے گا۔
دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کشمیر پر ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کا ڈھول بجانے والے اور پوائنٹ سکورنگ کرنے والے کہاں جا سوئے ہیں۔ کیسی ثالثی... کہاں کا ثالث‘ ویسے بھی یہ عقدہ تو اب کھل ہی چکا ہے۔ دورۂ امریکہ کے دوران کشمیر کے حوالے سے ثالثی کی پیشکش نہیں بلکہ پیشگی اطلاع دی گئی تھی‘ جسے حکومتی چیمپئن بڑی خبر بنا کر چار دن اپنا چورن بیچتے رہے۔؎
کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت اور خطے میں شدید جنگی خطرات کے باوجود انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کی خاموشی اور ان کی جانب سے بھارت پر قابلِ ذکر دباؤ نہ ڈالنا ایک تشویشناک اَمر ہے۔ کہیں ہمیں الجھایا تو نہیں جا رہا؟ ہمیںماضی کے سبھی حالات و واقعات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ امریکہ نے ہمیشہ ہمیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے صرف Use ہی نہیں کیا بلکہ اکثر Misuse بھی کیا ہے۔ ہوشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ کشمیریوں کی اخلاقی مدد کے ساتھ ساتھ مؤثر سفارتکاری پر بھی زور دیا جائے۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانے کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت اور مظالم کی ویڈیوز وائرل کریں۔ ان ممالک کے کمیونٹی سینٹرز اور اہم مقامات پر بڑی سکرینیں لگا کر بھارتی فوج کی درندگی، خواتین کی بے حرمتی اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم دِکھانے کا اہتمام کیا جائے۔ اسی طرح ثانوی دلچسپی اور توجہ کا مظاہرہ کرنے والے ممالک شاید اپنے عوام کے دباؤ میں آکر بھارت کو غیر آئینی اقدامات سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔
اس حوالے سے وزارتِ خارجہ کو چاہیے کہ وزارتِ اطلاعات کے ساتھ مل کر مؤثر اور جامع حکمت عملی ترتیب دے۔ بین الاقوامی میڈیا سے رابطے اور لابنگ کے لیے پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات پریس قونصلرز کی مہارت اور تجربے کو استعمال کیا جائے اس کے علاوہ کشمیر کی صورتحال سوشل میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ دنیا بھر میں وائرل کی جائے۔ اس موقع پر بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراﷲ خان (مرحوم) کی کشمیر کے حوالے سے ایک نظم کے چند اشعار پیش خدمت ہیں: ؎
اِک برق بلا کوند گئی سارے چمن پر
تم خوش کہ میری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے
غارت گریٔ اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول‘ غنچہ نہ کلی ہے
کب اَشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دُعاؤں سے ٹلی ہے
دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے
چلتے چلتے ایک بار پھر عرض کرتا چلوں کہ کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی ضروری کیجئے‘ یوم سیاہ بھی ضرور منائیے‘ لیکن ملک و قوم کو غیر مستحکم کرنے اور اس کی دولت و وسائل کو باپ دادا کی جاگیر سمجھنے والوں کو یوم احتساب بھی ضرور منانا چاہیے۔ انہیں اس بات کی حیا دلانی چاہیے کہ ان کی طرزِ حکمرانی اور ہوسِ زَر نے ہمیں اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر ماضی کے حکمرانوں نے وطن عزیز کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا ہوتا تو آج کسی موذی مودی کی مجال نہ ہوتی کہ وہ سامنے آ کر ہمیں للکارتا۔ مکار و عیار چھپ کر وار کرنیوالا‘ پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے والا بھارت آج کھل کر سامنے آچکا ہے۔ وہ کھلے عام ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے اور لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے نہتے شہریوں کو بھون کر رکھ دیتا ہے۔ اس کی جارحیت اور بربریت کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک ایسی جنگ میں گھسیٹنا چاہتا ہے جو ہم نہیں لڑنا چاہتے۔ وہ ہماری اَمن پسندی کو مسلسل ہماری کمزوری تصور کیے چلے جارہا ہے لیکن اسے ہرگز معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے: ؎
کہاں لے آئے ہو رہبرو تم
یہاں تو کربلا ہی کربلا ہے