کالم لکھنے کے ارادے سے ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ٹیلی ویژن سکرین پر ایک بریکنگ نیوز پر نظر اَٹک کر رہ گئی۔ یوں لگا جیسے دِل اچھل کر حلق سے ابھی باہر آ جائے گا۔ کراچی سے جب بھی خبر آئی‘ بُری خبر آئی۔ کراچی سے آنے والی خبروں کی اگر درجہ بندی کی جائے تو کچھ اس طرح کی جا سکتی ہے: کم بُری خبر... بُری خبر... زیادہ بُری خبر... بہت زیادہ بُری خبر... وغیرہ وغیرہ۔ ابھی ٹی وی پر چلنے والی خبر بھی بہت بُری اور کچھ اس طرح ہے کہ پندرہ سالہ کم سن لڑکے پر چوری کے الزام میں پکڑ کر ہنٹر‘ آہنی سلاخوں اور ڈنڈوں سے اس قدر بے رحمانہ تشدد کیا گیا کہ وہ بے چارہ جان سے گیا۔ بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ کرنے والوں نے اس تشدد کی لمحہ بہ لمحہ ویڈیو اس طرح بنائی گویا بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے رہے ہوں۔
اس پندرہ سالہ لڑکے کے پیچھے سے ہاتھ باندھ کر دو گھنٹے طاقت اور مردانگی کے نام پر جو ظلم ڈھایا گیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ اُس پر عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے بنگلے میں چوری کی نیت سے آیا تھا جسے ہم نے پکڑ لیا اور خود ہی سزا دے ڈالی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مُراد علی شاہ نے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگل نہیں ہے قصور وار کو سزا ضرور ملے گی۔ کچھ عرصہ پہلے آصف علی زرداری صاحب نے جانے مانے پولیس اَفسر راؤ انوار کی سفاکی اور دہشت کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ''راؤ انوار بہادر بچہ ہے‘‘۔ جس معاشرے میں راؤ انوار جیسے ''پُلسیے‘‘ کو بہادر بچہ ثابت کرنے کے لیے آصف علی زرداری جیسے حکمران من گھڑت اور بے تُکے جواز گھڑیں وہاں عوام کی طرف سے سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کوئی اَچنبھے کی بات نہیں۔
مقدمہ درج ہو چکا ہے اور تشدد کرنے والے بھی زیر حراست ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ انہیں اپنے کیے کی سزا ملتی ہے یا وہ بہادر بچے بن کر آزادانہ پھرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ واقعہ کوئی نئی بات نہیں۔ چند سال قبل سیالکوٹ میں بھی مشتعل ہجوم نے سرِ عام ڈنڈے مار کر دو بھائیوں کو اسی طرح مار ڈالا تھا۔ کراچی سے خیبر تک جس نے مرنا ہو وہ بچ نہیں سکتا۔ کوئی بارشوں کے نتیجے میں کھڑے پانی میں کرنٹ لگنے سے مر رہا ہے‘ تو کوئی ہسپتالوںمیں آکسیجن اور ایئرکنڈیشنر بند ہونے کی وجہ سے لقمۂ اَجل بن رہا ہے۔ کوئی ریلوے حادثات میں جان سے گیا تو کوئی مینٹل ہسپتال میں تشدد کر کے مار دیا گیا۔ کوئی کینسر کی دوا کی بندش کے نتیجے میں جان ہار گیا تو کوئی فاقہ کشی سے تنگ آ کر اپنا خاتمہ خود ہی کر بیٹھا۔ وطن عزیز کے طول و عرض میں ایسے واقعات روزمرّہ کا معمول بن چکے ہیں۔ ایک سال میں ریکارڈ ریلوے حادثات اور ہلاکتوں کی باوجود وزیر ریلوے بولنے پہ آتے ہیں تو تھکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ سوائے ریلوے کے سارے جہاں کا درد اُنہی کے جگر میں ہے۔
قارئین! آج کا موضوع بھی کشمیریوں سے یکجہتی اور بھارت کی بربریت ہی تھا لیکن کراچی سے آنے والی اس خبر نے نفسیاتی طور پر اس قدر پریشان کر دیا کہ آدھا کالم اسی کی نذر ہوگیا اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ خیر اَب چلتے ہیں ایک ایسی خبر کی طرف جس میں بھارتی فوج کے کرنل وجے اَچاریہ نے کشمیریوں پر ظلم ڈھانے سے انکار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس نے اپنا پیغام جاری کیا ہے کہ میری یونٹ کے پچیس جوان مارے جا چکے ہیں لیکن بھارتی سرکار اور میڈیا نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اس نے مزید کہا کہ اب میں اپنے لوگوں کو مار سکتا ہوں اور نہ ہی اپنے جوانوں کو مروا سکتا ہوں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم اور بربریت پر بھارتی فوج کی طرف سے بھی مزاحمت کی ابتدا ہو چکی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارتی فوج کو جس جانی نقصان کا سامنا ہے بھارتی میڈیا کی جانب سے نہ تو اس کی کوئی خبر جاری کی جاتی ہے اور نہ ہی حکومت کسی قسم کی کوئی خبر گیری کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے بھارتی فوج کا مورال دن بدن گرتا چلا جا رہا ہے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس ہو چکا... نہ کوئی اعلامیہ جاری ہوا... نہ کوئی کمیشن قائم ہوا... اور نہ ہی انسانی حقوق کے علم برداروں نے خواتین سمیت وادیٔ کشمیر کے عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا کوئی نوٹس لیا۔ بس اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ جی ہاں! صرف زور دیا گیا۔ بات اب زوروں پر آ چکی ہے۔ ''سمجھنے والے سمجھ گئے... جو نہ سمجھیں وہ اَناڑی ہیں‘‘۔ برادر مسلم ممالک سمیت دیگر دوست ممالک کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ردِّ عمل تا حال ثانوی ہے۔ یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہمیں دوسرے ممالک سے وہ رسپانس نہیں مل سکا ہے جس کی ہم ان سے توقع لگائے بیٹھے تھے۔
مسلم ممالک کی مشترکہ افواج کا سربراہ سابق پاکستانی سپہ سالار ہے اور ہم یک جہتی کے طلب گار بنے بھاگے پھر رہے ہیں۔ خیر واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ''پردہ کب گرے گا... کب تماشا ختم ہو گا‘‘۔ اس حوالے سے کچھ زیادہ عرض نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے واپس چلتے ہیں وادیٔ کشمیر کی طرف۔ افتخار عارف کا یہ شعر کشمیریوں کی حالتِ زار کے عین حسبِ حال ہے:
جس روز ہمارا کوچ ہو گا
پھولوں کی دُکانیں بند ہوں گی
آج کل وادیٔ کشمیر کی صورتحال بھی کچھ اسی طرح ہی ہے کہ جنازوں پر پھول ڈالنا تو درکنار کفن دفن کا بندوبست کرنا بھی محال ہے۔ اگر بندوبست ہو بھی جائے تو جنازوں میں شرکت کی اجازت نہیں۔ پوری وادی ہیبت اور ویرانی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ پچاس سال بعد سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بات چیت کو سفارتی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ کشمیریوں کی حالتِ زار جوں کی توں ہے اور اس حوالے سے بھارت کی ڈھٹائی اور سفاکی بدستور جاری ہے۔ معروف بھارتی شاعر جاوید اختر کی ایک نظم کے چند اشعار پیش خدمت ہیں جسے وہ نیا حکم نامہ کا نام دیتے ہیں۔ اس موقع پر شیئر کرنا تو بنتا ہے: ؎
کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے
کدھر جا رہی ہیں
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہو گا
چلیں گی اب تو کیا رفتار ہو گی
کہ آندھی کی اِجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دُشمن
کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کر لیں اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا پھر بکھرنا اور بکھر کر پھر ابھرنا
غلط ہے اُن کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت ‘بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہو گی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہو گی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو اُن کو ہو گا اَب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے اس گلستاں میں
بس اَب اِک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ اَفسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقینا پھول یک رنگی تو ہوں گے
مگر یہ رنگ ہو کتنا گہرا کتنا ہلکا
یہ اَفسر طے کریں گے
اس نظم کا جوابِ آں غزل بھی انہوں نے خوب ہی کہا ہے جو آئندہ کسی کالم میں ضرور شیئر کروں گا۔