"AAC" (space) message & send to 7575

اسلامی بھائی چارے کا چارا، کون چر گیا؟

ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ تصویر میں باڈی لینگوئج سمیت تمام پہلو نہ صرف واضح اور اجاگر ہوتے ہیں بلکہ صورتحال اور ماحول کے ان پہلوئوں کی بھرپور عکاسی بھی کرتے نظر آتے ہیں جنہیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ کالم لکھنے کے ارادے سے بیٹھا اور حسب معمول اخبارات کی فائل کھولی تو ایک ہی باکس میں دو تصاویر دیکھ کر ٹھٹکا ضرور لیکن حیرت ہرگز نہ ہوئی۔ یہ بولتی تصویریں نہیں بلکہ چیختی‘ چنگھاڑتی تصویریں ہیں۔ ایک تصویر میں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان جبکہ دوسری تصویر میں شاہ بحرین حمد بن عیسیٰ الخلیفہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایوارڈ دے کر پُر جوش مصافحہ کر رہے ہیں۔ گویا یہ ہیں ہمارے دوست ممالک ‘کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے‘ وہاں قتل و غارت کرنے، خون کی ندیاں بہانے اور خواتین کی بے حرمتی کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سر پر جنگ مسلط کرنے کی گھنائونی سازش کے باوجود جو اس ''دریندر مودی‘‘ کو ایوارڈ سے نواز رہے ہیں۔
''دریندر مودی‘‘ کا دورہ اور عرب حکمرانوں کی طرف سے غیر معمولی پروٹوکول کی ساری کہانی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ بھارت پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ثانوی اہمیت دینے سے بھی گریزاں کیوں ہے۔ وہ کیوں اتنا منہ زور اور بے خطر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ پاکستان جس امہ کا دم بھرتا ہے وہ اس کے ساتھ ہرگز نہیں... اور پاکستان کو معلوم ہی نہیں کہ جس بھائی چارے کا وہ ڈھول بجاتا پھرتا ہے‘ وہ بھائی چارہ تو گھاس چرنے بھیج دیا گیا ہے۔ خیر چیئرمین سینیٹ نے مودی اور عرب حکمرانوں کے بغل گیر اور آپس میں شیر و شکر ہونے کے مناظر کو کچھ زیادہ ہی دل سے لگا لیا‘ اور متحدہ عرب امارات کا دورہ احتجاجاً منسوخ کر ڈالا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دورہ کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے منسوخ کیا ہے‘ جس اسلامی ملک میں کشمیریوں سے یکجہتی اور پاکستان کے موقف کے تائید کے بجائے مودی کو پذیرائی اور پروٹوکول دیا جائے‘ میں وہاں کیسے جا سکتا ہوں؟ صادق سنجرانی صاحب نے اپنا یہ احتجاج متحدہ عرب امارات پر واضح بھی کر دیا ہے کہ وہ احتجاجاً اپنا یہ سرکاری دورہ منسوخ کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے ان کے اس دورے کی منسوخی اور احتجاج کو کس قدر سنجیدہ لیا‘ وہ اس کے غیر سنجیدہ رویے سے پہلے ہی ثابت ہو چکا ہے۔ 
یہ خبر اور تصاویر میرے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں‘ لیکن ہمارے ان حکمرانوں کا خمار اور بخار ضرور اتر جانا چاہیے جو مسلم امہ کے نام نہاد علم بردار بنے پھرتے ہیں۔ ایران عراق جنگ ہو یا افغان جہاد... کویت پر عراقی حملہ ہو یا سعودی یمن تنازع... فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی ہو یا بوسنیا اور سربیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم... ہر موقع پر پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ 'سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘۔ پوچھنا صرف یہ ہے کہ مسلم بھائی چارے کا چارہ کون چر گیا؟ امہ کا علم اٹھائے پھرنے والے حکمرانوں کو کم از کم اب تو ہوش میں آ جانا چاہیے۔ اب اس کے بعد کیا دیکھنا اور سننا باقی رہ گیا ہے۔ کشمیریوں پر قیامتِ صغریٰ گزر جانے کے باوجود مشرق وسطیٰ کی طرف سے مسلسل سرد مہری اور قابل ذکر رد عمل کا سامنے نہ آنا بھی ایک واضح اشارہ ہے‘ جسے ہمارے حکمران نہ جانے کیوں نہیں سمجھ پا رہے... اور ہاں یاد آیا‘ وہ مسلم ممالک کی مشترکہ فوج کس روز کام آئے گی؟ یہ سوال تاحال وضاحت طلب ہے۔
بھارتی اپوزیشن رہنمائوں کو سرینگر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انھیں ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر کے دوسرے طیارے سے واپس دہلی بھجوا دیا گیا۔ کانگریس رہنما بے اختیار کہہ اٹھے ہیں کہ کشمیر کے حالات ٹھیک نہیں‘ وہاں جو ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں انھیں سن کر پتھر بھی رو پڑے۔ بھارت کے اندر اپوزیشن پارٹیاں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تشویش کا شکار ہیں۔ فوج میں پہلے ہی مزاحمت اور بغاوت شروع ہو چکی ہے۔ کشمیر میں تعینات بھارتی کرنل اجے وچاریہ مودی سرکار پر واضح کر چکا ہے کہ میں پہلے ہی اپنے کافی جوان مروا چکا ہوں‘ اب میں نہ اپنے جوان مروا سکتا ہوں اور نہ ہی مزید کشمیریوں کو مار سکتا ہوں۔ ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ آسروں اور وعدوں سے نکل کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔ ایسی مسلم امہ پر انحصار نہ کیا جائے جو بھارت سے مفادات کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے۔ اسی کی وجہ سے ہم ایران جیسے ہمسایہ برادر اسلامی ملک کو مسلسل نظر انداز اور اپنے سے دور کرتے رہے ہیں۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی اور طرز سفارت پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ ویسے بھی کشمیر کی آزادی کے ٹھیکیداران اور کشمیر کمیٹی کے سارے سربراہان اپنی اپنی کافی کمیٹیاں نکلوا چکے ہیں۔ اب کچھ عملی کام بھی کر لینا چاہیے۔
کشمیر کا جو فیصلہ ہونا ہے وہ اپنے وقت پر ہو کر رہے گا۔ وہ فیصلہ نوشتۂ دیوار ہے۔ بھارت جتنے چاہے مظالم ڈھا لے، بربریت اور حیوانیت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اقوام عالم کشمیریوں سے یکجہتی کرے یا نہ کرے۔ مسلم اُمہ کشمیریوں اور پاکستان کے موقف پر بھارت کو جتنا مرضی فوقیت اور برتری دیتی چلی جائے‘ بھارت اپنے منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہے۔ کشمیریوں کی لا زوال قربانیاں اور ان کا بہتا ہوا خون آج نہیں تو کل ضرور رنگ لائے گا۔ پہلے بھی کسی کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ کشمیر کے قبرستانوں میں شہدا کی بڑھتی ہوئی آبادی بھارت کی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ یعنی جس دن کشمیر کے قبرستان قبروں سے بھر جائیں گے اور مزید قبروں کی گنجائش نہیں رہے گی‘ اسی دن کشمیر بھارت کے چنگل سے نہ صرف آزاد ہو جائے گا بلکہ بھارت خود جان چھڑواتا پھرے گا کیونکہ اس وقت تک بھارت میں کئی فتنے، فسادات اور علیحدگی کی تحریکیں اپنے زوروں پر پہنچ چکی ہوں گی۔ یہی وہ وقت ہو گا جب کشمیریوں کو کسی یکجہتی کی ضرورت باقی نہیں رہے گی‘ چاہے وہ مسلم امہ ہو یا دیگر ہمسایہ ممالک۔ وادیٔ کشمیر پر بھارتی جارحیت، بربریت اور انسانی حقوق کی ننگی پامالی پر اقوام عالم خصوصاً مسلم امہ کی طرف سے سرد مہری اور بھارتی اقدامات کی تائید پر صورتحال کی عکاسی کے لیے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
اپنی شادابیٔ غم کا مجھے اندازہ ہے
روح کا زخم پرانا ہے، مگر تازہ ہے
یہی آشفتہ سری دے گی اسیری سے نجات
سر سلامت سے تو دیوار بھی دروازہ ہے
موت ایک سلسلۂ وہم و گماں، آج کی رات
زندگی ولولۂ عزمِ جواں آج کی رات
کہکشاں پھر سے ہوئی جلوہ فشاں آج کی رات
عالم پیر بھی ہوتا ہے جواں آج کی رات
خونِ تازہ رگِ ہستی میں رواں آج کی رات
وقت کی دست جنوں میں ہے حنا، آج کی رات
مژدۂ دل کہ ہوئے خاک بسر اہلِ ہوس
عشق ہے با علم و طبل و نشاں آج کی رات
اپنی فطرت سے ہے مجبور ہنومان کی قوم
مرغزاروں سے بھی اٹھتا ہے دھواں آج کی رات
ارضِ کشمیر کے جانباز جوانوں کو سلام
رشکِ فردوس ہے وادی کا سماں آج کی رات
سرخرو ملتِ بیضا کو کیا ہے تم نے
محوِ حیرت ہوئیں اقوامِ جہاں آج کی رات
وقت نے دی ہے تمھیں چارہ گری کی مہلت
آج کی رات مسیحا نہ فساں آج کی رات
۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
پھر پیشِ نظر سنتِ سجادِ ولی ہے
غارت گریٔ اہلِ ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں