وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی انتہائی دھیمے اور پراسرار لہجے میں جب بات کرتے ہیں تو لگتا ہے کوئی اہم راز شیئر کر رہے ہیں... اور راز بھی وہ جس کے بارے میں سوائے اُن کے کوئی کچھ نہیں جانتا۔ گزشتہ روز بھی انہوں نے ایک ایسا خفیہ راز عوام سے شیئر کیا جو صرف وہی جانتے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ کی آنیاں جانیاں اور گل بات ہی نرالی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کشمیر پر ہمارے مؤقف کا حامی ہے‘ جلد ہی وہ اماراتی ہم منصب سے ملاقات کریں گے توقع ہے کہ وہ انہیں مایوس نہیں کریں گے۔ گویا ''جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے... باغ تو سارا جانے ہے‘‘۔
اُدھر متحدہ عرب امارات کی ولی عہد محمد بن زیدالنہیان بھارتی وزیر اعظم ''دریندر مودی‘‘ کے گلے میں میڈل ڈال کر کشمیر پر بھارتی مؤقف کی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ اُس پر واری واری جا رہے ہیں جبکہ ہمارے وزیر خارجہ فرماتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات ہمارے مؤقف کا حامی ہے اور ساتھ ہی یہ آس بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ امارات اُن کا مؤقف سن کا مایوس نہیں کرے گا۔ بھارت چال قیامت کی چل گیا اور وزیر موصوف ابھی مؤقف سننے سنانے میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ وزیر خارجہ نے عوام کے ساتھ انتہائی اہم راز شیئر کیا ہے‘ جس کے بارے میں شاید کوئی دوسرا پاکستانی کچھ نہیں جانتا۔ وہ اتنا بڑا راز اکیلے ہی اپنے سینے میں لیے پھر رہے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کا کہ جنہوں نے مودی کے ساتھ پُرجوش ملاقات کے دوران میڈل دینے کی تقریب کی تصاویر جاری کروا دیں۔ جس پر وزیر خارجہ کو اتنا اہم راز عوام سے شیئر کرنا پڑ گیا۔ ورنہ وہ اتنا خفیہ راز اور بوجھ آج بھی اپنے دِل پر ہی لیے ہوتے۔
آفرین ہے ان کی وزارت اور سفارت پر‘ سب سے بڑھ کر ان کی خفیہ جانکاری اور ویژن پر۔ اُستاد نے کلاس میں موجود بچوں سے سوال کیا کہ ایک شخص شمال سے جنوب کی جانب ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ بتاؤ میری عمر کیا ہے...؟ کوئی بچہ جواب نہ دے پایا... تو بالآخر انتہائی سوچ بچار کے بعد ایک بچہ کھڑا ہوا اور بولا! ماسٹر جی آپ کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ اُستاد بچے کا جواب سن کر خوش ہوا اور شاباش دیتے ہوئے پوچھا تمہیں کیسے پتا چلا کہ میری عمر پچاس سال ہے؟ بچے نے جواباً کہا کہ ہمارے محلے میں ایک نیم پاگل شخص رہتا ہے اس کی عمر تقریباً پچیس سال ہے۔ (بخدا اس لطیفے کا وزیر خارجہ کے خفیہ راز سے کوئی تعلق نہیں ہے)۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ کچھ مسلم ممالک بھارت کے ساتھ تجارتی مجبوریوں کی وجہ سے کشمیر ایشو پر ہمارا ساتھ نہیں دے پا رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن اقتصادی مجبوریوں کا فائدہ آج بھارت پوری دنیا سے اٹھا رہا ہے‘ ہم وہ مجبوریاں کیوں نہیں پیدا کر سکتے۔ دنیا بھر میں ہمارے سفارت خانے کون سی بھنگ گھوٹنے میں مصروف رہے ہیں۔ دوست اور برادر ملک ہمارے... مفادات اور مجبوریاں بھارت کے ساتھ... واہ! کیا خوب کارکردگی ہے ہماری وزارتِ خارجہ کی۔ ہمارے سفارت خانے اگر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہے ہوتے تو صورتحال یقینا یکسر مختلف ہوتی۔ دنیا بھر میں ہمارے سفارت خانوں میں تعینات کمرشل اتاشیوں سے لے کر کلچرل اتاشیوں تک... لیبر اتاشیوں سے لے کر پریس اتاشیوں تک... اور نا جانے اور کتنے اتاشی اور متلاشی صرف موجیں مار رہے ہیں۔ ان کی تعیناتی کا نہ تو کوئی معیار اور نہ ہی سفارتی محاذ پر ان کا کوئی کردار نظر آتا ہے۔
دنیا بھر میں بھارتی سفارت خانے اپنی مصنوعات سے لے کر کلچر کے فروغ تک جو کچھ کر رہے ہیں وہ آج ہم سب کے سامنے ہے۔ بھارت اکثر ملکوں کی معاشی مجبوری بن چکا ہے۔ یہ مجبوری وہ ایک دن میں نہیں بنا اور نہ ہی اس میں کوئی راکٹ سائنس ہے۔ کئی دہائیوں سے بھارتی سفارت خانے اپنے ملک کی نمائندگی کچھ اس طرح سے کر رہے ہیں کہ آج دنیا بھر میں ان کی مصنوعات اور کلچر نا قابل تردید حقیقت بنتا چلا جا رہا ہے جبکہ اکثر ممالک کے لیے بھارت بہت بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کی یہ سفارت کاری ہمارے اوپر کاری ضرب سے کم نہیں ہے۔ عرب ممالک سمیت امریکہ اور چائنہ جیسے ممالک بھارت کی اہمیت ہم پر واضح کر چکے ہیں اور ہم ابھی تک یہ کہے چلے جا رہے ہیں کہ ہمیں اُمید ہے کہ ہمارا مؤقف سنا اور تسلیم کیا جائے گا۔
بد قسمتی سے وزارت خارجہ کے تحت چلنے والے سفارت خانے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کا منظر نامہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ فارن پوسٹنگ کے لیے صرف اثر و رسوخ اور حکمرانوں تک بس رسائی درکار ہے... سفیروں سے لے کر اتاشیوں اور دیگر افسران تک تعیناتیوں کا ایک ہی فارمولا ہے کہ کس کی رسائی کہاں تک ہے۔ نا معلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کی بنیاد پر تقرریوں اور تعیناتیوں نے فارن سروس کا بیڑا غرق ہی کر ڈالا ہے۔ اندرونِ ملک میں تو سیاسی مصلحتوں، بڑی سفارشوں پر اور کچھ لے دے کر من چاہی تعیناتیاں عام ہیں لیکن بیرون ملک ہمارے سفارت خانوں میں بھی تقرریوں اور تعیناتیوں کا یہی معیار اور کلچر اپنے عروج پر ہے۔ جس طرح بھارت دنیا بھر کی اقتصادی مجبوری بن کر ہمارے سینے پر مونگ دَل رہا ہے وہ مجبوری ہم کیوں نہیں بن سکے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کے تصور کی نفی ہے۔ اس کے بعد نالائق، غیر سنجیدہ اور منظور نظر افسران کی تعیناتی کی ایک طویل داستان ہے۔
اس پہ ستم یہ کہ وزارتِ خارجہ جن سماج سیوک نیتاؤں کے ہتھے چڑھی رہی اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ وزرائے خارجہ سے لے کر سفیروں اور اتاشیوں تک سبھی کی کارکردگی کا پول کھل چکا ہے۔ کشمیر کے ایشو پر اگر ہمیں کہیں پسپائی کا سامنا ہے تو صرف سفارتی محاذ پر... اگر ہمارا سفارتی محاذ مضبوط اور مؤثر ہوتا تو اقوامِ عالم کا یہ ردِّ عمل ہرگز نہ ہوتا۔ ہماری نازک معاشی اور اقتصادی صورتحال اور سفارت خانوں کی نالائقی نے مل کر بھارت کو منہ زوری اور جارحیت پر اُکسایا ہے۔ مسلم اُمہّ اور دیگر دوست ممالک کی سرد مہری اور بے رخی پر واویلا کرنے کے بجائے ان وجوہات اور اسباب کا تعین کرنا چاہیے جن کی وجہ سے آج ہم عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
ہماری سفارتی کمزوریاں ہماری پسپائی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ سفارت خانوں میں تعیناتی کو سیر سپاٹے، موج مستی اور پی آر کے لیے استعمال کرنے والے سفارت کاروں نے جو چاند چڑھایا ہے اس نے وزارتِ خارجہ کی کارکردگی کو گہنا کے رکھ دیا ہے۔ اس موقع پر برادرمِ شعیب بن عزیز کا یہ شعر حسبِ حال ہے: ؎
عجب ہے روشنی کا قتل نامہ
دئیے کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا
اتنہائی افسوس اور تشویش کا مقام ہے کہ ہماری انتظامی اشرافیہ کی ملک و قوم کے ساتھ وابستگی اکثر مواقع پر ثانوی بھی نہیں ہوتی۔ جس ملک کے اعلیٰ سرکاری افسران یورپ، امریکہ اور کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے نا جانے کیا کچھ کر گزرتے ہیں... کر گزرنے سے یاد آیا مملکتِ خداداد کے ایک سو بیس سے زائد اعلیٰ سرکاری افسران کے جیون ساتھی غیر ملکی ہیں۔ ان اعلیٰ افسران کی بیگمات کا تعلق بھارت، چائنہ، امریکہ، روس، فلپائن، برطانیہ، نائیجیریا، اٹلی، کینیڈا، فن لینڈ، ڈنمارک، ترکی، چاپان، جرمنی، ایران، لبنان اور قازقستان سمیت دیگر ممالک سے ہے۔ گویا بات دوہری شہریت سے نکل کر دوہری زوجیت تک جا پہنچی ہے جس پر ریاست کا قانون تا حال خاموش بلکہ بعض مقامات پر گونگا، بہرہ اور اندھا نظر آتا ہے۔
سفارت خانوں میں تعیناتیوں اور مختلف کورسز اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے جانے والے سرکاری افسران کی پہلی ترجیح اس ملک کی شہریت اور اہلیہ ہی ہوتی ہے۔ بھلے اس کا تعلق کسی مسلک، کسی مذہب اور کسی بھی فرقے سے ہی کیوں نہ ہو۔ اس حوالے سے قومی سلامتی کے قوانین اور ضابطے غیر مؤثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ جب افسران کی ترجیحات شہریت اور اہلیہ ہی ہوں تو پھر کیسی سفارت کاری اور کہاں کی سفارت کاری؟ پھر تو وہی کچھ ہونا ہے... جو ہو رہا ہے۔ بھارت دنیا بھر کی اقتصادی مجبوری بنتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے سفارت کار اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے ہاتھوں مجبور دِکھائی دیتے ہیں۔ جب ترجیحات میں قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی کے بجائے ذاتی ترقی اور کنبہ پروری ہو تو پھر موجودہ صورتحال پر تعجب کیسا؟