"AAC" (space) message & send to 7575

ریڈ لیٹر

مملکتِ خداداد میں شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ، صبح شام روزانہ کی بنیاد پر سماجی و اخلاقی قدروں کی گراوٹ سے لے کر قانون اور متعلقہ اداروں کی بے وقعتی تک‘ مالی بد دیانتی سے لے کر انتظامی بد دیانتی تک‘ اقرباء پروری سے لے کر کنبہ پروری تک‘ لوٹ مار سے لے کر مار دھاڑ تک‘ ایوانوں سے لے کر بیابانوں تک‘ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے سارے مناظر ہر سو جا بجا نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو موضوع کا انتخاب بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ کس پر لکھیں اور کس پر نہ لکھیں۔ ویسے بھی انصاف سرکار نے کالم نگاروں اور اینکر پرسنز کی یہ مشکل تو کسی حد تک آسان کر دی ہے کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر ایک سے کہیں زیادہ موضوع از خود فراہم کر دیتی ہے کہ لکھنے اور بولنے کے لیے زیادہ دماغ کھپائی نہیں کرنا پڑتی۔ سارے موضوعات ہی ایسے ہیں جن پر قلم آرائی کے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ 
سب سے پہلے اس ریڈ لیٹر پر بات کریں گے جو وزیر اعظم آفس سے ستائیس وزارتوں کو ''تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے تحت جاری کیا گیا ہے۔ ان وزارتوں سے خالی آسامیوں کی تفصیلات کافی عرصہ سے مانگی جا رہی تھیں‘ نا جانے یہ فہرستیں فراہم کرنے میں انہیں کیا عار تھی؟ جبکہ ان وزارتوں میں حکومت کے نمائندہ وزیر بھی موجود ہیں اور ساری مراعات اور ''ٹور ٹپے‘‘ کے ساتھ ان کی آنیاں جانیاں بھی خوب چل رہی ہیں۔ جو وزراء وزیر اعظم ہاؤس کو رسپانس نہیں کروا سکے وہ وزارتیں کیا خاک چلاتے ہوں گے؟ جو وزارتیں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے احکامات کو کسی خاطر میں نہیں لاتیں وہ اپنے متعلقہ وزیروں کو کیا سمجھتی ہوں گی؟ اس کا اندازہ صرف اس ریڈ لیٹر سے ہی لگایا جا سکتا ہے جو وزیر اعظم آفس سے انہیں جاری ہوا ہے۔ 
ان وزارتوں کو تو غیر سنجیدگی اور عدم تعاون کی بناء پر وزیر اعظم صاحب نے ریڈ لیٹر جاری کر دیا ہے کوئی نیلا، پیلا، لال، کالا لیٹر اپنے وزیروں کو بھی جاری کر ڈالیں اور ان سے یہ بھی پوچھیں کہ وزیر اعظم آفس سے ان کی وزارتوں میں آنے والے احکامات کا یہ حشر نشر کیوں ہو رہا ہے؟ بحیثیت وزیر ان کی کیا کارکردگی ہے؟ اور وہ کن کاموں میں مگن ہیں؟ کارکردگی تو خیر کیا ہو گی؟ گورننس اور میرٹ کے جھنڈے تو ملک بھر میں لگ ہی چکے ہیں۔ انہیں ریڈ لیٹر جاری کریں یا کوئی نیلا، پیلا یا کالا‘ کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ اوّل تو انہیں اب تک وزارتوں کی الف ب ہی معلوم نہیں ہو سکی۔ دوسرے یہ کہ جسے تھوڑی بہت سمجھ آ بھی گئی‘ اس کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں اس لیے اس ریڈ لیٹر کے بعد بھی بہتری کی زیادہ توقع لگانا مناسب نہیں۔ کیونکہ: ؎
اَکھ دا چانن مَر جاوے تے 
نیلا، پیلا، لال برابر
شدید عوامی ردِّ عمل اور تنقید کے بعد گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں 208 ارب روپے کی معافی کا صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا گیا ہے۔ یہ کوئی پہلا فیصلہ نہیں جو کرنے کے بعد حکومت دستبردار ہوئی ہے۔ ''انصاف سرکار‘‘ روزِ اوّل سے ہی فیصلے کرتی اور شدید عوامی ردِّ عمل پر دستبردار ہوتی چلی آرہی ہے۔ ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا معاملہ ہو یا عرفان صدیقی کی گرفتاری اور رہائی کا معمہ‘ اسی طرح وزیر اعلیٰ اور پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات کا معاملہ ہو یا زرتاج گل کی ہمشیرہ کی نیکٹا میں تعیناتی کا معاملہ‘ صوبائی اینٹی کرپشن محکموں میں وفاقی سروس سے تعلق رکھنے والے افسران کو شجر ممنوعہ، مقدس گائے اور ناقابلِ احتساب قرار دینے کا فیصلے سمیت اسی نوعیت کے دیگر کئی فیصلوں سے حکومت دستبردار ہو کر کافی سبکی اُٹھا چکی ہے۔ ناجانے وہ کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں سے ایسے فیصلے کروائے چلا جا رہا ہے کہ پسپائی کے ساتھ ساتھ جگ ہنسائی بھی حکومت کا مقدر بن رہی ہے۔ 
پسپائی، رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بننے والے فیصلوں اور اقدامات کے پس پردہ کردار کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ ان حکمرانوں کے اردگرد اور آگے پیچھے پھرنے والے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں عرف عام میں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے چکر میں حکمرانوں کو بھی چکر دے جاتے ہیں‘ جس کا خمیازہ اور نتائج بہرحال حکمرانوں کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہ فیصلے سیاسی ہوں یا انتظامی ان کا ردِّ عمل حکمرانوں کی سیاست اور ساکھ دونوں کو ہی یکساں متاثر کرتا ہے۔
پولیس حراست میں ہلاکتوں پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نوٹس لے کر ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے چکے ہیں۔ انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس کیپٹن (ر) عارف نواز اس حوالے سے صوبے بھر کے افسران و اہلکاروں پر واضح کر چکے ہیں کہ دورانِ حراست اموات کو ماورائے عدالت قتل تصور کیا جائے گا۔ حال ہی میں ہونے والے واقعات پر ذمہ دار کو حراست میں لے کر مقدمات بھی درج کر دئیے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے ان واقعات کا نوٹس لینا بجا‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے واقعات پر ہر مرتبہ نوٹس لیا جاتا ہے‘ بیانات جاری ہوتے ہیں‘ گرفتاریاں ہوتی ہیں اور مقدمات بھی درج ہو ہی جاتے ہیں‘ لیکن اس قسم کے افسوسناک واقعات رکنے میں کیوں نہیں آرہے جبکہ حکمران پولیس کلچر کی تبدیلی کے دعوے بھی بدستور کیے چلے جا رہے ہیں؟ گویا پولیس کلچرل نہ ہو گیا آن/آف کا بٹن ہو گیا۔ ادھر انہوں نے بٹن دبایا کلچر تبدیل اور رویے مثالی ہو گئے۔ یہ سب زبانی جمع خرچ کئی دہائیوں سے دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔ ماضی کے سبھی حکمرانوں نے پولیس کو اپنے تحفظ اور ذاتی مقاصد کے لیے ہمیشہ استعمال کیا ہے اور اسے دہشت اور خوف کی علامت بنائے رکھا ہے۔ 
سیاسی مخالفین کو زیرِ عتاب رکھنا ہو یا کسی سر بلند کو سرنگوں کرنا ہو‘ ان تمام مقاصد کے لیے انہوں نے پولیس ہی کو اپنا ہتھیار اور آلہ کار بنایا۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ امان اﷲ انسپکٹر سے ایس پی کیسے بنا؟ ریٹائرڈ پولیس افسران کی مدت ملازمت میں توسیع اور کنٹریکٹ کو فروغ دینے والے حکمران بھی اس محکمے کی بربادی اور موجودہ صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ اقتدار کے تسلسل اور استحکام کے لیے پولیس کا ہر جائز‘ ناجائز استعمال اُن کا نصب العین رہا ہے۔ اسی طرح راؤ انوار جیسے پولیس افسران کو 'بہادر بچہ‘ کہنے والے حکمرانوں کو کون نہیں جانتا۔ یہ تو نمونے کے چند واقعات ہیں جو آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔ ملک کے طول و عرض میں ایسے کردار بھرے پڑے ہیں جس پر لکھنا شروع کریں تو ایسے درجنوں کالم بھی کم پڑ جائیں۔ 
رہا سوال پولیس کے رویے اور کلچر کی تبدیلی کا تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں‘ جب تک حکمران اس حوالے سے نیک نیتی سے خالص احکامات جاری نہیں کرتے۔ بناوٹ اور ملاوٹ میں لتھڑے ہوئے بیانات اور بھاشن پولیس کلچر اور رویے تبدیل نہیں کر سکتے۔ پولیس کا ایک تفتیشی صبح سویرے اٹھ کر پہلے ملزم پیش کرنے عدالت جاتا ہے۔ وہاں سارا دن خوار ہو کر ملزم کو جیل چھوڑنے جاتا ہے۔ اس کے بعد جب دن ڈھلے تھکا ہارا تھانے پہنچتا ہے تو کئی سائل انصاف کے حصول کے لیے اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ دن بھر خواری کاٹ کر آنے والا سائلین کو کیا سنے گا اور ملزموں سے کیا تفتیش کرے گا؟ اس کے بعد اسی تفتیشی کو کسی نہ کسی انتظامی ڈیوٹی پر بھی جانا پڑتا ہے جو اکثر رات گئے تک جاری رہتی ہے۔ اس طرح جس تفتیشی افسر کو سال میں 30 کیسوں کی تفتیش کرنا چاہیے وہ تقریباً 140 کیسوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔ ایسے حالات میں اس تفتیشی افسر سے انصاف اور مہذب اور شائستہ رویے کی توقع کرنا ہی غیر منطقی ہے۔ 
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب اگر واقعی پولیس کلچر کی تبدیلی کے لیے نیک نیت ہیں تو ان فائلوں کا پتا کریں جو محکمہ پولیس منظوری کے لیے جناب کو بھجوا چکا ہے۔ یہ فائلیں پولیس رولز میں ترمیمی مسودے اور سٹریٹیجک ڈویلپمنٹ پلان کا بوجھ اُٹھائے نہ جانے کب سے منظوری اور عملدرآمد کے لیے بھٹک رہی ہیں‘ لیکن ناجانے کون وزیراعلیٰ صاحب اور ان فائلوں کے درمیان مسلسل حائل چلا آرہا ہے۔ بخدا منظوری اور عملدرآمد کے منتظر ان مسودوں کو ان کی روح کے عین مطابق نیک نیتی سے نافذ کر دیا گیا تو یقینا نہ صرف پولیس کلچر تبدیل ہو جائے گا بلکہ دوران حراست ہلاکتوں سمیت تھانوں میں عوام کی ذلت، دھتکار اور پھٹکار کے واقعات بھی کنٹرول کیے جا سکیں گے۔ جناب وزیر اعلیٰ ان فائلوں کا سراغ لگائیں‘ بھلے اس کے لیے انہیں بھی ریڈ لیٹر ہی کیوں نہ جاری کرنا پڑے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں