"AAC" (space) message & send to 7575

اُلو کااحتجاج

پولیس تشدد سے ہلاکتوں پر سیاستدانوں اور حکمرانوں کی پوائنٹ سکورنگ جاری ہے۔متاثرہ خاندان کو گلے لگانے سے لے کر دلاسے دینے تک وزیراعلیٰ اور گورنر پیش پیش ہیں۔ وزیرقانون راجہ بشارت اپنی وزارت کی ایک سالہ کارکردگی پیش کرکے وزیراعلیٰ سے اس شاندار کارکردگی پر تعریف اور داد وصول کرچکے ہیں۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے تو آئی جی پنجاب کو ''منجی تھلے ڈانگ‘‘پھیرنے کا مشورہ دے ڈالا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پولیس کے کینسر کا علاج ڈسپرین سے نہیں ہوگا اس کے لیے بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔دوران حراست ہلاکتیں ہوں یا پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے ‘یہ سب ماورائے عدالت قتل کے زمرے میں آتے ہیں۔فردوس عاشق اعوان سے دو دہائیوں سے زیادہ پرانی شناسائی ہے‘ وہ ہمیشہ اسی طرح سیدھے انداز میں بات کرتی ہیں۔ بڑی سے بڑی بات انتہائی رسان اور سادگی سے کہہ ڈالتی ہیں۔کوئے سیاست میں انہیں اب تو کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ ممبر پارلیمنٹ سے لے کر وفاقی وزراتوں تک سارے تجربات اور اسرار ورموز سے بخوبی واقف ہیں۔وہ اس حقیقت کو بھی بخوبی جانتی ہوں گی کہ ہماری ''منجیاں‘‘ اتنی ہوچکی ہیں کہ اگر ''ڈانگ‘‘ پھیرنا شروع کریں تو یقینا ''ڈانگ‘‘ ہی کم پڑ جائے۔گویا ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے...انجام گلستان کیا ہوگا۔ ویسے بھی اس مرتبہ تو اُلو بھی سرپا احتجاج ہے کہ اس ساری صورتحال سے میرا کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی میرا نام بطور استعارہ استعمال کرکے مجھے بدنام کیا جائے۔معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا یہ کہنا بجا ہے کہ پولیس میں بڑے آپریشن کی ضرورت ہے‘ لیکن یہاں بھی چارہ گر چارہ گری سے گریزاں نظر آتا ہے۔فردوس عاشق اعوان وزیراعظم سے روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں رہتی ہیں۔انہیں چاہیے کہ وزیراعظم کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کریں کہ یہ آپریشن کسی نے باہر سے آکر نہیں کرنا ‘بلکہ وزیر اعلیٰ بزدار صاحب نے ہی کرنا ہے۔
تعجب ہے کہ وزیراعلیٰ کے ارد گرد پائے جانے والے گورننس کے چیمپئن انہیں کیوں نہیں بتاتے کہ پولیس حراست میںہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے اظہارِ افسوس اور یکجہتی کرنا ہی کافی نہیں‘بلکہ ان وجوہ اور ان قانونی پیچیدگیوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا‘ جن کی وجہ سے ایسے واقعات تواتر سے ہوتے چلے آرہے ہیں۔پولیس افسران کی معطلیوں اور تھانے داروں پر مقدمات درج کرنے اور گرفتاریوں سے یہ واقعات رکنے ہوتے تو کب کے رک چکے ہوتے۔متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ ہمدردی ‘افسوس اور گلے لگا کر دلاسے دینے اور فوٹو سیشن کے ساتھ بیانات ضرور دیں‘لیکن اصل وجوہ کا خاتمہ کیے بغیر یہ ساری کارروائیاںمحض ''کارروائیاں ‘‘ہی رہیں گی۔پولیس رولز میں ترامیم کا مسودہ 2012ء سے زیر التوا کیوں ہے؟ سٹریٹجک ڈیویلپمنٹ پلان چھ ماہ سے حکومت پنجاب کی منظوری کے لیے کیوں بھٹک رہا ہے؟ ان سوالوں کا جواب وزیراعلیٰ بزدار اورشاندار کارکردگی پران سے داد پانے والے وزیرقانون راجہ بشارت کو اب تک تلاش کرلینا چاہیے تھا۔
محکمہ پولیس نے سٹریٹجک ڈیویلپمنٹ پلان میں خود مطالبہ کیاہے کہ عوامی شکایات کے ازالے کے لیے ایک خود مختار اور آزاد اتھارٹی بنائی جائے‘ جو پولیس سے متعلق شکایات پر کارروائی کا اختیار رکھتی ہو۔ مقدمات کے اندراج سے لے کر اخراج تک اور جزاو سزا سے لے کر مفید اور قابل عمل تجاویز تک سبھی پر عمل درآمد کروانے کے لیے یہ اتھارٹی بااختیار ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس اتھارٹی میں پولیس کا کوئی افسر شامل نہ ہو۔پولیس کلچر میں تبدیلی اور مثالی رویوں کی طرف محکمہ پولیس کی اس سے بڑھ کر نیک نیتی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اس سٹریٹجک ڈیویلپمنٹ پلان میں کئی ایسی تجاویز دی گئی ہیں ‘جن کو اگر حقیقی معنوں میں نافذ کردیا جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں وہ پولیس فورس تیار ہوسکتی ہے ‘جس کے دعوے اور وعدے تحریک انصاف دھرنوں اور انتخابی مہمات میں کرتی رہی ہے۔
ایک خبر ہے کہ حکومت پنجاب دہشت گردی اوردیگر سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی متعارف کرواچکی ہے‘ جس کے تحت ڈی این اے بینک بنایا جائے گا ۔یہ بینک ڈیٹا بیس ہوگااور اس سسٹم کے تحت رشتہ داروں کے ڈی این اے سے مجرموں تک رسائی باآسانی ہوسکے گی‘ جبکہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کے پاس ڈی این اے کے سترہ ہزار نمونے پہلے سے ہی موجود ہیں۔کاش کوئی ایسی لیبارٹری بھی بنائی جاسکتی ‘جو حکمرانوں سے لے کر اعلیٰ حکام تک سبھی کے بارے میں بتا سکتی کہ یہ ملک وقوم کے لیے موافق ہیں یا غیر موافق؟ ان کا بھی ڈی این اے کیا سکتا‘ جو برسر اقتدار آکر کیا گل کھلائیں گے؟ اگر ایسا ہوجائے تو نسل در نسل دھوکہ کھائے عوام مزید جھانسوں اور دھوکوں سے بچ سکیں گے۔انہیں معلوم ہوگا کہ فلاں افسر کا ڈی این اے مفاد عامہ کے مطابق ہے یا متصادم؟ اسی طرح حکمران بھی الیکشن کے بجائے ڈی این اے کے ذریعے منتخب کیے جاسکے گے ان کا ڈی این اے نمونہ لیبارٹری کے پاس پہلے سے موجود ہو اور ماہرین پہلے سے تجزیہ کرکے بتائیں گے کہ یہ امیدوار ملک و قوم کے وقار او ر مفاد کے عین مطابق ہے یا نہیں۔
کوئی ایسی بھی رپورٹ ہو جو یہ بتا سکے کہ بلند بانگ دعوے کرنے والے یہ سماج سیوک نیتا برسر اقتدار آکر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کو نصب العین بنائیں گے یا اپنے ذاتی کاروبار کو ضربیں لگائیں گے۔سرکاری عہدوں اور اداروں کو ذاتی رفقا اور مصاحبین کی بھینٹ چڑھائیں گے یا عوام سے کیے وعدے پورے کرکے میرٹ اور گورننس کو یقینی بنائیں گے۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح موجودہ حکومت میں ایسے عناصر اپنے کل پرزے نکال چکے ہیں ‘جو وزیراعظم کے ویژن اور بیانیے سے متصادم ہیں۔سر کاری مشینری ان عناصر کے سامنے محض اس لیے بے بس اور کمزور پڑتی چلی جارہی ہے کہ وہ چیمپئنز وزیراعظم کے انتہائی قریبی ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی رفقا اور مصاحبین کا درجہ بھی رکھتے ہیں اور اکثر معاملات میں وزیراعظم کے آنکھ اور کان بن کر اندھیر نگری کا سماں بنا چکے ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ سرکاری اداروں کو ان معاونین و مصاحبین کی پہنچ سے دور رکھا جائے‘ جو ذاتی مفادات اور دوستیاں نبھانے کے لیے وزیراعظم کا نام استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔پاکستان ٹیلی ویژن ایک ادارہ نہیں‘ اس ملک و قوم کا ایک تاریخی اثاثہ ہے ۔ اس کو مزید تجربات کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ اس کی بقا اور تحفظ کے لیے پروفیشنلز اور ماہرین کو نظر انداز کرنا اس ادارے کی مزید تباہی اور بربادی کے مترادف ہے۔ماضی میں یہ ادارہ انہی ترجیحات اور پالیسیوں کی وجہ سے کافی بدنامی اور بربادی کا سامنا کرچکا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں کیا یہ ادارے انہی حکمرانوں کے پیاروں اور راج دلاروں کے تجربات اور شوق پورے کرنے کیلئے رہ گئے ہیں؟ یہ سوچنا ان حکمرانوں کا کام ہے‘ جنہوںنے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ماضی کے سبھی ادوار میں یہ سبھی کچھ انتہائی دیدہ دلیری اور سینہ زوری سے جاری رہا ہے ۔باعث تشویش امر یہ ہے کہ اس کار ِبد کا وائرس تحریک انصاف میں بھی سرایت کرچکا ۔ مفاد عامہ سے مشروط ذمہ داریاں بھی مفادات کے ماروں کو دے ڈالی ہیں۔
دہشت گردوں اور سنگین جرائم میں ملوث مجرموں تک رسائی کے لیے لیبارٹری تو بن چکی ہے‘ لیکن سرکاری اداروں اور وسائل کو ذاتی مفادات اور تجربات کی بھینٹ چڑ ھانے والے‘عوام دشمن اور غیر موافق پالیسیاں بنانے والے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر حکمرانی کے مزے لوٹنے والوں کے لیے بھی کاش کوئی ایسی لیبارٹری بنائی جاسکتی‘ جو اِن حکمرانوں کے اصل اور نسل کا پتا دے سکے ۔ماضی کے حکمرانوں کی روایات اور کارِبد کے وائرس کا خاتمہ کرکے ہی وزیراعظم کے ویژن اور عزم کے مطابق‘ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں اور تبھی جاکر کرپشن کا یہ وائرس مرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں