"AAC" (space) message & send to 7575

انصاف سرکار اور فیس بُک کا ردِّ عمل

سماجی رابطے اور آزادیٔ اظہار کی علامت فیس بُک کو میرے حالیہ کالم بعنوان ''اُلّو کا احتجاج‘‘ میں نا جانے کون سا پہلو نفرت انگیز اور اپنی پالیسی سے متصادم محسوس ہوا ہے... کہ میرا فیس بُک اکاؤنٹ عارضی طور پر بلاک کر ڈالا اور اس پر وضاحت یہ دی گئی کہ مذکورہ تحریری مواد ہماری پالیسیوں کے مطابق نہیں ہے اور فیس بُک اکاؤنٹ کھولتے ہی انتظامیہ کی طرف سے جو میسج بار بار سامنے آ کر منہ چڑانے لگتا وہ من و عن قارئین کے پیشِ خدمت ہے:
This feature is temporarily blocked You recently posted something that violates Facebook's policies, so you've been temporarily blocked from using this feature. For more information, visit the Help Centre. To avoid being blocked again, please make sure that you've read and understand Facebook's Community Standards. The block will be active for 3 Days.
اس اقدام اس حقیقت کے بوؤاوجود کیا گیا کہ ہمارے مذہب سے لے کر عدلیہ... اور عدلیہ سے لے کر حساس اور معتبر اداروں تک کے بارے میں ہرزہ سرائی کے لئے فیس بُک کا کردار ہمیشہ‘ ہمہ وقت تیار اور مددگار ہی دِکھائی دیا ہے۔ مفادِ عامہ اور قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم سرگرمیوں کی نشاندہی کرنا اگر میرا جرم ہے تو مجھے اس کا اعتراف ہے... اور یہ جرم میں تا مرگ کرتا رہوں گا... ملکی سالمیت، مفادِ عامہ اور قواعد و ضوابط کا پرچار کرنا اگر نفرت انگیزی کے زمرے میں آتا ہے تو اس نفرت کا اظہار بھی جاری رہے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیس بُک نے میرے کالم کو قابلِ اعتراض اور نفرت انگیز قرار کیوں دیا؟ اس کالم سے فیس بُک کو کیا خطرات لاحق ہیں؟ اور فیس بُک کا اصل ایجنڈا اور پالیسی کیا ہے؟ یعنی اسلام دُشمن‘ ملک دُشمن مواد پر مبنی ہرزہ سرائی تو فیس بُک پر زور و شور سے ہو سکتی ہے اور اس مواد کی تشہیر میں فیس بُک کا کردار جلتی پر تیل ڈالنے اور تماش بینی سے کم نہیں... لیکن قومی سلامتی اور مفادِ عامہ سے متصادم ''وارداتوں‘‘ کی نشاندہی کرنا‘ انہیں نفرت انگیز اور پالیسی کے خلاف قرار دینا یقینا تعجب انگیز ہے۔ 
کچھ عرصہ قبل بھی میرا ایک اور کالم فیس بُک کو انتہائی ناگوار گزرا تھا جو اعلیٰ سرکاری افسران کی غیر ملکی خواتین سے شادیوں سے متعلق تھا۔ اس پر بھی ''سٹیک ہولڈرز‘‘ نے شکایات اور احتجاج کے اَنبار لگا دئیے جس پر فیس بُک نے اس کالم کو نفرت آمیز قرار دے کر میری ٹائم لائن سے ہٹا دیا تھا۔ اس بار تو انہوں نے میرا اکاؤنٹ بلاک کر کے وارننگ ہی دے ڈالی ہے۔ آئیے قارئین! مذکورہ کالم کے چند مندرجات کی طرف چلتے ہیں جو انصاف سرکار کو بہت نا گوار اور نفرت آمیز محسوس ہوئے ہیں۔ ''ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے... انجامِ گلستاں کیا ہوگا۔ ویسے بھی اس مرتبہ تو اُلّو بھی سراپا احتجاج ہے کہ اس ساری صورتحال سے میرا کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی میرا نام بطور استعارہ استعمال کر کے مجھے بدنام کیا جائے... وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے اردگرد پائے جانے والے گورننس کے چیمپئن انہیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ دورانِ حراست ہلاک ہونے والوں کے اہلِ خانہ سے اظہارِ افسوس اور یکجہتی کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ان وجوہات اور قانونی پیچیدگیوں کا بھی جائزہ لیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات تواتر سے ہوتے چلے آ رہے ہیں... سیاستدان اَپوزیشن میں ہوں تو پولیس ریفارمز کا درد انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا اور جب برسرِ اقتدار آتے ہیں تو اسی پولیس کو آلہء کار بنانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ 7 سال سے زیر التواء ای اینڈ ڈی رولز میں ترامیم سے متعلق مسودہ انصاف سرکار میں بھی زیر التوا کیوں ہے... سٹریٹیجک ڈویلپمنٹ پلان 6 ماہ سے منظوری اور عمل درآمد کے لیے کیوں بھٹک رہا ہے۔ دہشت گردوں اور سنگین جرائم میں ملوث مجرموں تک رسائی کے لیے لیبارٹری تو بن چکی ہے... کاش! کوئی ایسی لیبارٹری بھی بنائی جا سکتی جو حکمرانوں کے اصل اور نسل کا پتہ دے سکے‘‘۔ 
ان دو کالموں نے ہی فیس بُک کے دوہرے معیار اور مذموم عزائم کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ سماجی رابطے کا ایک مؤثر اور انتہائی تیز رفتار ذریعہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنے مخصوص اہداف کے حصول میں کامیاب ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ افسران کی دوہری شہریت اور غیر ملکی خواتین سے شادیوں میں نفرت انگیزی کا پہلو کہاں سے نکل آیا؟ اور ویسے بھی فیس بُک کو اعلیٰ افسران سے کیا ہمدردی اور وابستگی ہو سکتی ہے؟ جبکہ اس کالم میں کسی افسر کا نام تو دور کی بات اشارتاً بھی کسی کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔ یہ فیس بُک انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کالم پر احتجاج یا شکایت کنندہ سے پوچھتے کہ جس کالم میں تمہارا نام اور حوالہ ہی نہیں ہے تو پھر یہ کالم تمہارے خلاف کیسے ہو سکتا ہے؟ اعلیٰ سرکاری افسران کے ایک مخصوص ''بینیفشری گروپ‘‘ کی ملی بھگت اور پروپیگنڈا کے نتیجے میں فیس بُک نے مذکورہ کالم کو نفرت انگیز اور قابلِ اعتراض قرار دیا ہے‘ جو یقینا جانبداری کا مظاہرہ ہے۔
اسی طرح ایک حالیہ کالم میں میرٹ، گورننس اور مفادِ عامہ سے متعلق حکومتی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے میں کون سی بات قابلِ اعتراض اور نفرت انگیزی کے زمرے میں آتی ہے۔ فیس بُک کی پھرتیاں تو اپنی جگہ لیکن انصاف سرکار پر بھی آفرین ہے جس نے کالم پوسٹ ہوتے ہی سوشل میڈیا پر اپنے سارے اکاؤنٹس اس کالم کی مذمت اور احتجاج پر لگا ڈالے‘ جس کے نتیجے میں فیس بُک نے نہ صرف مذکورہ کالم ٹائم لائن سے ہٹا دئیے بلکہ عارضی طو رپر اکاؤنٹ بھی بلاک کر دیا۔ 
آدھے سے زیادہ کالم فیس بُک اور انصاف سرکار کا ردِّ عمل کھا گیا ہے۔ اَب چلتے چلتے ایک خبر شیئرکرنا بھی ضروری ہے کہ ''پی ٹی آئی پنجاب میں کرپشن کے خلاف یوتھ فورس بنانے جا رہی ہے۔ اس حوالے سے نعیم الحق اور اعجاز چوہدری کی ملاقات ہو چکی ہے۔ یہ یوتھ فورس کرپشن کی نشاندہی اور متعلقہ اداروں کے سامنے احتجاج بھی کرے گی۔ دیکھتے ہیں کہ یوتھ فورس کب تشکیل پاتی ہے اور کب احتجاج شروع کرتی ہے۔ ویسے بھی نعیم الحق سمیت سارے واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف بھرپور احتجاج تو وزیر اعلیٰ شکایت سیل کے باہر ہی بنتا ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ شکایت سیل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کو عہدوں سے کیوں ہٹایا گیا ہے؟ ان کے خلاف کیا شکایات تھیں اور وہ کیا گل کھلا رہے تھے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ان کے خلاف کارروائی کرنے سے کیوں گریزاں تھے؟ چیئرمین شکایات سیل کی گفتگو کے آڈیو کلپ کہاں جا پہنچتے تھے... جس پر وزیر اعلیٰ کو بادِل نخواستہ اس چیئرمین کو گھر بھجوانا پڑا جسے وہ وزیر بنوانا چاہتے تھے۔ وزارت حاصل کرنے کے لیے مذکورہ چیئرمین نے کون کون سے پاپڑ نہیں بیلے... جبکہ وائس چیئرمین بھی کسی طور پیچھے نہیں رہے۔ وہ بھی عوام کی دادرسی کی آڑ میں اپنی دنیا خوب سنوارتے رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوامی شکایات کے ازالے کے لیے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں قائم کیا گیا شکایات سیل ہی جب کرپشن اور بے ضابطگیوں کی آماجگاہ بن جائے تو عوام کی شکایات کا ازالہ کون کرے گا...؟ 
وزیراعلیٰ شکایات سیل میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف تا حال انکوائری کیوں نہیں شروع کی گئی۔ معاملہ دبایا کیوں جارہا ہے۔ شرمناک حقائق پر کب تک پردہ ڈالا جاسکے گا۔ ماضی میں یہی شکایات سیل روزانہ سینکڑوں سائلین کی دادرسی کرتا تھا جو اَب نہ صرف اپنی ساکھ کھو چکا ہے بلکہ انصاف سرکار کیلئے سوالیہ نشان بھی بن چکا ہے؟ دیکھتے ہیں نعیم الحق اور اعجاز چوہدری کی سرپرستی میں کرپشن کیخلاف بننے والے یوتھ فورس پہلا دھرنا کہاں دیتی ہے۔ ویسے بھی موجودہ صورتحال میں یہ فورس کہاں کہاں دھرنے دے گی کیونکہ بات اِک گلی کی تھی... پَر گلی گلی گئی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں