کالم کا ابتدائیہ ایک نوحہ ہے۔ شہر شہر، قریہ قریہ ملک بھر میں اتنے صدمات اور حادثات صبح شام دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ ہم روزانہ ایک دو نوحے تو شیئر کر ہی سکتے ہیں۔ آج جو نوحہ میں شیئر کرنے جا رہا ہوں وہ کچھ یوں ہے ''سرکاری ایمبولینس والے نے بیٹی کی لاش گھر پہنچانے کے لئے دو ہزار روپے مانگے‘ جو بے کس اور غریب باپ کے پاس نہیں تھے۔ بے چارہ کیا کرتا؟ بیٹی کی موت سے نڈھال باپ اپنی اس بے بسی پر نیم پاگل سا ہو گیا کہ بیٹی کی لاش سامنے پڑی ہے اور اسے گھر لے جانے کے لئے دو ہزار روپے بھی نہیں ہیں جبکہ بغیر پیسے لئے ایمبولینس والا لاش لے جانے سے انکاری ہے۔ مجبور اور لا چار باپ نے بیٹی کی لاش اُٹھائی اور اپنے بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہو کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ بیٹی کی موت کا غم اور ہاتھوں میں اس کی لاش‘ نا جانے کب موٹر سائیکل نے اپنا توازن کھویا اور ایک گاڑی سے جا ٹکرائی۔ پھر ایک کی جگہ چار لاشیں گھر پہنچیں۔ ایک لاش بیٹی کی، دوسری باپ کی، تیسری بھائی کی اور چوتھی لاش اس نظام کی... اس طرز حکمرانی کے بد ترین اور تعفن زدہ نمونے کی‘‘۔
میر پور خاص کے سرکاری ہسپتال کی انتظامیہ نے بے کس اور لاچار شخص کو بیٹی کی لاش گھر پہنچانے کے لئے ایمبولینس فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ بے چارہ ہسپتال انتظامیہ کے آگے گڑگڑایا اور ہاتھ جوڑ کر منتیں بھی کیں‘ لیکن کسی کا دل پسیجا‘ نہ ہی کسی کو رحم آیا۔ انتظامیہ نے بیٹی کی لاش گھر پہنچانے کا معاوضہ دو ہزار طلب کیا تھا جبکہ بد نصیب باپ کی جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی جو وہ ان سفاک مسیحائوں کو دے کر اپنی بیٹی کی لاش گھر لے جاتا۔ مجبوراً اسے اپنے بھائی اور اس کی موٹر سائیکل کا سہارا لینا پڑا اور بیٹی کی لاش ہاتھوں میں لئے بھائی سمیت خود بھی موت کا نوالہ بن گیا۔ جس باپ نے ہاتھوں میں بیٹی کی لاش اُٹھائی ہو اور سوار موٹر سائیکل پر ہو‘ اس کے دل و دماغ اور اعصاب کی کیا حالت ہو گی۔ الامان و الحفیظ۔
اپنے ایک حالیہ کالم میں ایک فرضی حکایت شیئرکی تھی جس میں مفلوک الحال شخص نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر بادشاہ کی آدھی سلطنت لینے سے انکار کر دیا تھا کہ میں ایک پالتو گدھے کا حساب نہیں دے سکتا۔ سلطنت کا حساب کیسے دے پائوں گا۔ اگر وہ گدھے کا مالک حساب نہیں دے پایا۔ گدھے کے ساتھ بے رحمی اور سختی برتنے پر اس کمر کی کھال کوڑے کھانے کے بعد اُدھڑ کر رہ گئی تھی تو یہ حکمران اور حکام اپنی گردنیں اور کھال کیونکر بچا پائیں گے؟ نعمتوں اور وسیع اختیارات کے مالک حکمران بے حساب عنایات کا حساب کیسے دیں گے؟ صحت عامہ سے لے کر تعلیم و تربیت تک‘ عدل و انصاف سے لے کر امن و امان تک‘ سماجی و اخلاقی قدروں سے لے کر بنیادی سہولیات تک‘ مفاد عامہ کے کس کس معیار پر یہ پورا اُتریں گے اور کیسے اُتریں گے؟ خدا کی بستی میں ان کی خدائی کے سارے مناظر شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ، صبح شام، جا بجا اور ہر سو نظر آتے ہیں۔
کالمی ماحول کافی سوگوار ہو چلا ہے۔ اب ذرا چلتے ہیں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف جو کوئے سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنے اصل کام کی طرف لوٹ گئے ہیں‘ جو انہیں آتا ہے۔ انصاف سرکار پر کئی سوالات اُٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ جو تبدیلی کی بات کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟ ماڈل ٹائون کے مظلوم وہیں کھڑے ہیں‘ جہاں پانچ سال پہلے کھڑے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات نے بہت بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آئین کہاں ہے؟ قانون کہاں ہے؟ ہم اکٹھے جدوجہد کرتے رہے ہیں لیکن حکومت اپنے وعدے پورے نہ کر سکی۔ طاہرالقادری صاحب کی طرف سے اُٹھائے گئے سوالات اُن کے ''کنٹینر فیلو‘‘ کے لئے کوئی نئے سوال نہیں ہیں۔ ان سوالات کا سامنا انہیں روز اول سے ہی ہے۔ نہ کبھی انہوں نے ان سوالات پر توجہ دی‘ نہ ہی یہ ان کی ترجیحات ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ آئین اور قانون ڈھونڈنے والے طاہرالقادری ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں جبکہ قانون اور آئین سمیت گورننس اور میرٹ کی خلاف ورزیوں پر ہی سابق حکومت کے خلاف انہوں نے دھرنوں اور احتجاج کا جھنڈا بلند کیا تھا۔ حالات وہی، معاملات وہی، طرز حکمرانی وہی لیکن طاہرالقادری موجودہ حکومت کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کے بجائے خود ہی سیاست سے دستبردار ہو گئے ہیں‘ تعجب ہے!
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم صاحب کو کراچی کا درد چین سے نہیں بیٹھنے دے رہا۔ وہ کراچی کے حالات کی وجہ سے انتہائی بے چین اور فکر مند دکھائی دیتے ہیں‘ اور کراچی کا انتظامی کنٹرول وفاق کے حوالے کرنے کی باتیں کر کے‘ خود ہی گڑبڑا بھی جاتے ہیں۔ انہیں کراچی میں آرٹیکل 149 کے نفاذ کا خیال اس وقت کیوں نہیں آیا جب کراچی سے بوری بند لاشیں، بھتہ خوری، قتل و غارت، دادا گیری سمیت ہر قسم کی لا قانونیت عام تھی۔ اُس وقت انہیں کراچی کے شہریوں کا درد محسوس کیوں نہ ہُوا جب اپنے قائد کو یہاں سے مال اکٹھا کر کے بھجوایا کرتے تھے؟ یہ مال کہاں سے آتا تھا، کیسے اکٹھا کیا جاتا تھا‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ انہیں آرٹیکل 149 اس وقت یاد کیوں نہیں آیا‘ جب کراچی کے معصوم عوام کا خون سڑکوں پر بے دردی سے بہایا جاتا تھا۔ کتنی مائوں کی گود اُجاڑی گئی، کتنے سہاگ دن دہاڑے خون میں نہلائے گئے؟ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے، کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا؟ کون سی دہشت گردی کراچی کی عوام نے نہیں بھگتی۔ قتل و غارت سے لے کر ڈاکہ زنی تک۔ بھتہ خوری سے لے کر چندہ گردی تک یہ سب ہی کام کراچی میں انتہائی ڈھٹائی، سفاکی اور دید ہ دلیری سے کرنے والے کون تھے؟ ان کی سرپرستی کون کرتا تھا؟ ان سبھی حقائق کو جاننے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب کا ماضی سبھی کے سامنے ہے۔ دورِ حکومت نواز شریف کا ہو یا بے نظیر کا، مشرف کا ہو یا آصف علی زرداری کا‘ ان سبھی نے اپنے اقتدار کے استحکام اور تسلسل کے لئے انہیں ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دیئے رکھا۔ ضیاء الحق کے ہاتھوں لگائے گئے اس جان لیوا اور زہریلے پودے کو بھر بھر مشکیں ڈال کر سبھی نے پروان چڑھایا۔ ایم کیو ایم کی آبیاری اور اسے پروان چڑھانے والے سبھی کردار اپنے اپنے انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور مکافات عمل کی چکی میں پس رہے ہیں اور اگر کہیں کمی ہے تو صرف عبرت پکڑنے والوں کی۔
بد قسمتی سے انصاف سرکار نے بھی اقتدار کے استحکام اور تسلسل کے لئے بھی ایم کیو ایم کو گلے سے لگا کر مصلحتوں اور مجبوریوں کے اس سفر کو جاری رکھا ہوا ہے۔ حکومتی حلیف ایم کیو ایم سو جواز، توجیحات اور بہانے گھڑ لے‘ اپنے قائد سے لا تعلقی کے جتنے چاہے اعلانات کر لے۔ شہر قائد کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور بربریت کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ سانحہ 12 مئی کے ذمہ داروں کو پہلو میں بیٹھا کر انصاف سرکار کیونکر انصاف کر سکے گی جبکہ سانحہ 12 مئی کے مظلوموں کو اور متاثرین کو انصاف دلوانے کا وعدہ جناب عمران خان دھرنوں اور انتخابی جلسوں میں بڑھ چڑھ کر کرتے رہے ہیں؟ شہر قائد کی بربادی اور لوٹ مار میں برابر کے شریک میئر کراچی بھی اپنے ''رنگے ہاتھ‘‘ لئے پھر رہے ہیں اور انہیں بھی انتہائی شدت سے کراچی کا درد اُٹھا ہے۔ دن دہاڑے اور تاریک راتوں میں ناحق مارے جانے والے معصوم شہریوں کے خون کو اقتدار کے تسلسل اور استحکام کی بھینٹ چڑھانے کی اس روایت کو فروغ دینا ایک اور سانحہ ہو گا!
نعمتوں اور وسیع اختیارات کے مالک حکمران بے حساب عنایات کا حساب کیسے دیں گے؟ صحت عامہ سے لے کر تعلیم و تربیت تک‘ عدل و انصاف سے لے کر امن و امان تک‘ سماجی و اخلاقی قدروں سے لے کر بنیادی سہولیات تک‘ مفاد عامہ کے کس کس معیار پر یہ پورا اُتریں گے اور کیسے اُتریں گے؟