"AAC" (space) message & send to 7575

یہ میری بیوہ ہے!

بوم بوم شاہد آفریدی نے بھی بالآخر وزیر اعظم کے وسیم اکرم پر سوال اُٹھا ہی دیا۔ قصور اور چونیاں میں معصوم بچوں کے اغوا اور درندگی کے واقعات کے بعد وہ بھی پھٹ پڑے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا ہے کہ پنجاب میں آپ کے پاس کوئی بہتر اور تجربہ کار بندہ نہیں؟ شاہد آفریدی کے اس سوال نے ایک بار پھر وزیر اعظم صاحب کے لیے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ جسے ایک سال سے وسیم اکرم ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش جاری تھی‘ وہ اول و آخر منصور اختر ہی ثابت ہوا... اور وہی رہے گا۔
گزشتہ ایک سال کے دوران بیڈ گورننس، بندہ پروری، اقرباء پروری، کنبہ پروری اور میرٹ کی دھجیاں اُڑانے کے نا جانے کتنے ریکارڈ توڑنے والی انصاف سرکار اپنی کسی بھی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں‘ جبکہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات آئی جی پنجاب کو یہ کہہ چکی ہیں کہ وہ اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیریں۔
اس وقت بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ ایک آئی جی کے پیچھے آپ کیوں پڑ گئی ہیں۔ انصاف سرکار میں تو منجیوں کے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ کس کس منجی کے نیچے ڈانگ پھیریں گے۔ یہاں تو ڈانگیں کم پڑ جائیں گی لیکن منجیاں جوں کی توں رہیں گی۔ انصاف سرکار کے اکثر چیمپئنز نے تو منجیاں ہی اُلٹا دی ہیں‘ اور اُلٹائی ہوئی منجیوں کے نیچے تو ڈانگ نہیں پھیری جا سکتی۔ حال مست‘ چال مست طرز حکمرانی کا اس سے بڑھ کر اور کیا نظارہ ہو گا کہ سال بھر ڈینگی لاروا پلنے دینے والی سرکار ڈینگی مچھر کے ہاتھوں چاروں شانے چِت ہونے کے بعد انسداد ڈینگی کے لئے صفر حفاظتی اقدامات اور نا معلوم کارکردگی پر کس زور شور سے انسداد ڈینگی سے متعلق سیمینار منعقد کر رہی ہے اور ڈینگی ویک منا رہی ہے جبکہ خیبر پختونخوا اور اسلام آباد سمیت پنجاب بھر میں ڈینگی مچھر کے ڈنگ کے مارے عوام سے ہسپتال بھرے پڑے ہیں۔
جس ملک میں کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا مریضوں کو ادویات کے حصول کے لئے مظاہرے اور احتجاج کرنا پڑیں‘ وہاں کیسی گورننس... کہاں کی حکمرانی؟ سفاکی، بے حسی اور ڈھٹائی کا اس سے بھیانک پہلو اور کیا ہو گا کہ ان مریضوں کو فراہم کی جانے والی ادویات کے اسی فیصد اخراجات ایک دوا ساز کمپنی برداشت کرتی تھی‘ اور حکومت صرف بیس فیصد برداشت کرکے کینسر کے ان رجسٹرڈ مریضوں کو مفت ادویات فراہم کیا کرتی تھی۔ کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی کے اس پروگرام کو سابق حکومت انتہائی کامیابی سے چلاتی رہی‘ لیکن انصاف سرکار نے برسر اقتدار آتے ہی ان مریضوں کی ادویات کی خریداری کے لئے مختص فنڈ گول کر ڈالا‘ اور اس کا جواز یہ دیا گیا کہ سابق حکومت ضرورت سے زیادہ ادویات کی خریداری کر چکی ہے‘ اس لئے مزید خریداری کی ضرورت نہیں۔ چند مہینے بعد ہی حکومتی موقف کی قلعی کُھل گئی اور مریض ادویات کے حصول کے لئے مارے مارے پھرنے لگے۔
یہ امر بھی انتہائی تشویش کا باعث اور توجہ طلب ہے کہ خیبر پختونخوا سمیت دیگر صوبوں میں کینسر کے مریضوں کو ادویات کی فراہمی کا یہ پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ اس تناظر میں اہم سوال یہ ہے کہ پنجاب کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں؟ بزدار سرکار کا یہ سلوک پنجاب سے تعلق رکھنے والے کینسر کے مریضوں کے ساتھ امتیازی اور ایک لحاظ سے غیر انسانی ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ کینسر کے مریض بد صورت موت کے مسافر ہوتے ہیں‘ جو اپنی درد ناک موت کی آہٹ لمحہ لمحہ محسوس ہی نہیں کرتے بلکہ موت کا جام قطرہ قطرہ پیتے بھی ہیں۔ ایسے مریضوں کے ساتھ بے حسی کا مظاہرہ نا قابل فہم ہے۔ موت کی بد صورتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ مریض کو معلوم ہو کہ مجھے بروقت دوا نہ ملی تو میںکسی بھی وقت موت کے منہ میں جا سکتا ہوں‘ اس کے باوجود اسے ادویات کیلئے بلکنا پڑے اور اپنے اس حق کے حصول کے لیے سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنا پڑے۔
ایسے میں سڑکوں پر‘ پنجاب اسمبلی کے باہر ادویات کے لئے التجائیں کرتے‘ واویلا کرتے مریضوں کے لیے کسی کا دل پسیجا اور نہ ہی کسی کو ان پر رحم آیا۔ وہ حکومت سے کیا مانگ رہے ہیں؟ وہ صرف جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔ وہ صرف جینا چاہتے ہیں۔ مریض مظاہرین میں شامل ایک شخص نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری بیوہ ہے اور جو بچے ہم گھر چھوڑ کر آئے ہیں وہ کسی بھی وقت یتیم ہو سکتے ہیں۔ ان کا کیا بنے گا؟ جو حکومت موذی ترین مرض میں مبتلا مریضوں کو دوائی نہیں دے سکتی‘ وہ ہمارے بچوں کی کفالت کیا کرے گی؟
تعجب ہے اپنی ہی متوقع اور ممکنہ موت کا ماتم کرنے والوں کی آہ و بکا پر نہ تو وزیر اعظم کے وسیم اکرم صاحب کے کانوں پر کوئی جوں رینگی اور نہ ہی وزیر صحت کے رویے میں کوئی فرق پڑا‘ اور محترم وزیر اعظم بات کرتے ہیں ریاست مدینہ کی۔ تعجب ہے! نجانے ہمارے حکمران کس منہ سے ریاست مدینہ کی باتیں کرتے ہیں۔ انصاف سرکار سال بھر کی کارکردگی میں کوئی ایک ایسا کارنامہ بتا دے جو ریاست مدینہ کے چربے کے بھی قریب ہو۔ زور ہے تو صرف سرکاری عمروں پر۔ وزیر اعلیٰ صاحب اپنے قریبی عزیز کے ہمراہ عمرے کے سعادت کے بعد رات گئے لوٹ آئے ہیں۔ اس عمر ے پر روانگی سے قبل وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ نے خانہ کعبہ کے اندر جانے کے لئے سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیر کو خط لکھا کہ وہ خود اور ان کے قریبی عزیز (جو حکومت پنجاب میں اعلیٰ سرکاری افسر بھی ہیں) اور ان کے پی ایس او عمرے کی ادائیگی کے دوران خانہ کعبہ کے اندر جا کر زیارتِ خاص کرنا چاہتے ہیں‘ اس کے لئے گورنر مکہ سے رابطہ کر کے اجازت اور زیارت کا بندوبست کیا جائے۔
سرکاری عمروں پر جا کر کعبے کے گرد چکر لگانے سے عوام کو دیے گئے چکر کیسے معاف ہوں گے؟ سڑکوں پر ادویات کے حصول اور زندگی کی بھیک مانگتے‘ ماتم اور سینہ کوبی کرتے‘ گڑگڑاتے اور التجائیں کرتے کینسر کے مریض اور ڈینگی کے ڈنگ کھا کر ہسپتال پہنچنے والے ہزاروں مریضوں اور ہسپتالوں میں ناگزیر سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ناحق مارے جانے والوں سے لے کر انصاف سرکار کی طرز حکمرانی کے نتیجے میں بد حالی کا شکار عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ کون کرے گا؟ یہ نمونے کے چند ایک حوالے ہیں جو صوبہ بھر میں بے چینی، بد انتظامی اور بد ترین طرز حکمرانی کے نتیجے میں عوام کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرکے چڑچڑے پن کا مریض بنا چکے ہیں۔ روٹی پوری کرتے ہیں تو یوٹیلٹی بلز کو دیکھ کر بلبلا اُٹھتے ہیں۔ بچوں کی فیسیں پوری کرتے ہوں تو خاندان اور برادری میں غمی خوشی میں آنے جانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ گویا 
شریک ذوقِ نظر ہو چلی ہے مایوسی 
بہار آئے نہ آئے خزاں بدل جائے
دوسری طرف سندھ میں 'بھٹو زندہ ہے‘ پروگرام کے تحت بھوک اور افلاس کی وجہ سے مارے جانے والوں اور قحط کا شکار عوام غیر انسانی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دو روز قبل ہی وڈیروں کے کتے نے ایک بچے کو کاٹ لیا اور سرکاری ہسپتال میں ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے اسے بروقت طبی امداد نہ مل سکی اور وہ معصوم ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر بھٹو کو پیارا ہو گیا۔
آج کل محکمہ پولیس شدید تنقیدکا شکار ہے۔ کہیں زیر حراست ہلاکتوں پر تو کہیں معصوم بچوں کے اغوا اور درندگی کے واقعات پر‘ جبکہ حکومت پولیس میں سیاسی مداخلت روکنے پر ہرگز تیار نہیں۔ تقرریاں حکمرانوں کے اشاروں اور ان کے حواریوں کے خواہشات کے عین مطابق ہوں اور توقع کی جائے کہ امن و امان اور گورننس مثالی ہو‘ تعجب ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں