وزیر اعظم عمران خان جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ایک بار پھر امریکہ میں موجود ہیں۔ حالیہ امریکی دورے کو تاریخ ساز ثابت کرنے کے لیے پاکستانیوں سے خطاب اور جلسے کو لے کر انصاف سرکار کے چیمپئنز نے خوب ڈھول بجایا۔ ٹرمپ کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو بڑی خبر بنا کر چار دن خوب چورن بیچا گیا۔ جشن کا سماں تھا۔ تحریک انصاف کے متوالے تو پھولے نہ سماتے تھے۔ ٹرمپ عمران ملاقات پر ڈھول ڈھمکے سے لے کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ تک سبھی کچھ بڑے جوش و خروش سے کیا گیا۔ پاک امریکہ تعلقات کو مثالی ثابت کرنے کے لیے کیسے کیسے دلائل اور توجیحات سننے کو ملتی رہیں۔ ٹاک شوز میں وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کو تاریخی ثابت کرنے کے لیے سابق حکمرانوں کے دوروں سے موازنہ کر کے تمسخر بھی اُڑایا جاتا رہا۔ جوشِ خطابت اور شعلہ بیانی کا کیسا کیسا منظر دیکھنے کو نہیں ملا۔ قوم کو یہ اُمید دلائی گئی کہ اَب ہم امریکہ بہادر کے ساتھ با وقار تعلقات برابری کی سطح پر استوار کریں گے۔
چیمپئنز ابھی چورن بیچنے میں مصروف تھے کہ 'دریندر‘ مودی نے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت نہ صرف ختم کر دی بلکہ کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ بھی توڑ ڈالے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کون سا ایسا شرمناک منظر ہے جس کا سامنا نہتے اور معصوم کشمیریوں کو نہیں کرنا پڑا؟ گویا ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پیشگی اطلاع بن کر سامنے آئی۔ اطلاع بھی اس غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر انسانی اقدام کی جو مودی آئندہ چند دنوں میں کرنے والا تھا۔
ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کے سٹیڈیم میں بھارتی وزیر اعظم مودی کے جلسے میں انتہائی توجہ طلب اور باعث تشویش اَمر یہ ہے کہ مودی کی دعوت پر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سینیٹرز اور ایوانِ نمائندگان کے ارکان کے ہمراہ اس جلسے میں خصوصی طور پر شرکت کی۔ ٹرمپ کی موجودگی میں مودی نے نام لیے بغیر پاکستان کے خلاف کافی زہر اُگلا، نائن الیون اور ممبئی حملوں کا ذمہ دار اور دہشت گرد ٹھہراتے ہوئے بڑھک بھی لگائی کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آ گیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں مودی کو امریکہ کا وفادار دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بے گناہ ہندوستانیوں کو انتہا پسند اسلامی دہشتگردوں سے بچانا ہے اور ہم ان کے خلاف مل کر لڑیں گے۔
جلسہ گاہ کے باہر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد ان کے خلاف مظاہرے کے لیے جمع تھے۔ ان میں پاکستانی نژاد امریکیوں سمیت، کشمیریوں، سکھوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے بھی شامل تھے۔ جو پاکستان، آزاد کشمیر اور خالصتان کے پرچم تھامے مودی کو کشمیریوںکا قاتل‘ کشمیریوں کی نسل کشی بند کرو اور بھارت مردہ باد جیسے نعرے لگا رہے تھے جبکہ دوسری جانب جلسہ گاہ میں بھارتی نژاد امریکیوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی اور ٹرمپ ایک دوسرے پر واری واری جا رہے تھے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں واضح کر دیا ہے کہ وہ بھارت کا مقدمہ لڑنے ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ مل کر لڑنے مرنے کو بھی تیار ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ آج امریکہ کا رشتہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اَمن کے متمنی عالمی مبصرین نے ٹرمپ اور مودی کی تقریروں کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلہ پر ٹرمپ کی ثالثی تسلیم تو کر رہا ہے لیکن ٹرمپ صاحب اپنی پیشکش کے باوجود بھارت کے ساتھ فریق دِکھائی دیتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان سے ٹرمپ کی ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، بھارت کے جارحانہ اقدامات اور انسانی حقوق کی پامالی گفتگو کا موضوع تھی۔ کچھ باتیں افغانستان میں امن کا قیام اور اس سلسلے میں پاکستان کے کردار پر بھی ہوئیں۔ ٹرمپ سے مصافحے‘ عمران خان صاحب کے بیانیے اور ٹرمپ کے لارے لپوں کو بڑھا چڑھا کر پھر بڑی خبر بنایا گیا‘ اور ایک بار پھر وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ اور جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کو تاریخ ساز ثابت کرنے کے لیے عوام کو نئی ''پھکی‘‘ دی جا رہی ہے۔ دھواں دھار تقاریر ہوں گی‘ بھاشن دئیے جائیں گے اور قوم کو یہ بھی بتایا جائے گا کہ امریکہ سمیت بیشتر ممالک نے کشمیر میں بھارتی جارحیت اور انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت کی ہے۔ یہ بھی کہا جائے گا کہ مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کروانے کے لیے عالمی برادری نے اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے‘ کئی سربراہانِ مملکت نے مودی کی جارحیت کو غیر انسانی قرار دیا ہے وغیرہ وغیرہ‘ اور بس! اصل حقیقت وہی دھمکیاں ہیں جو مودی اور ٹرمپ نے جلسہ گاہ میں اپنی تقاریر میں لپیٹ کر پاکستان کو دی ہیں۔
ہمیں اب تصوراتی اور جذباتی بیانیے سے باہر نکل کر زمینی حقائق کے مطابق لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا۔ 'کشمیر پاکستان کی شہ رَگ‘ اور 'کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا چورن عوام کو بہت چَٹا دیا۔ کسی خوش فہمی کا شکار ہوئے بغیر عوام کے ساتھ اُن تلخ حقیقتوں کو شیئر کرنا پڑے گا تاکہ عوام آنے والے مشکل اور نازک وقت کے لیے سب تیار ہو سکیں۔ کشمیریوں سے یکجہتی اور ہمدردیاں سر آنکھوں پر... خواتین، بوڑھوں اور بچوں سمیت نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور بربریت کے مناظر کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان شرمناک مناظر کو دنیا دیکھ چکی ہے۔ اس کے باوجود بھارت ان کی آنکھ کا تارا اور راج دُلارا بنا ہوا ہے۔ یہ صورتحال بہت کچھ سنجیدگی سے سوچنے کے لیے کافی ہے۔
امریکہ اور دیگر ممالک تو ایک طرف ہمارے برادر مسلم ممالک‘ جنہیں ہم ''مسلم اُمّہ‘‘ کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتے ہیں‘ کے فرمانروا کے بھجن کی لے پر لہکنے‘ 'دریندر‘ مودی کو اعزازات سے نوازنے اور اس پر واری واری جانے کے مناظر چند روز ہی پرانے ہیں۔ کشمیر کمیٹیاں ہر سال 5 فروری کو یکجہتیٔ کشمیر کی ریلیاں، سیمینار اور فوٹو سیشن کروا کر 'کشمیر بنے گا پاکستان‘ سمیت ناجانے کون کون سا چورن بیچتی رہی ہیں جبکہ زمینی حقائق اس وقت بھی کچھ اور تھے اور آج بھی کچھ اور ہیں۔ کشمیر کاز پر ہماری وزارتِ خارجہ پر پہلے ہی کافی کچھ لکھا اور نوحہ گری کی جا چکی ہے۔ اس پر مزید لکھنا اور دہرانا الفاظ کی تکرار اور محض وقت کا ضیاع ہے۔ دنیا بھر میں ہمارے سفارت خانے نا جانے کیا کرتے رہے ہیں جبکہ بھارت مسلم ممالک سمیت دنیا بھر کو اپنی ثقافت، ٹیکنالوجی اور معاشی منڈی میں سمو چکا ہے‘ جس کی واضح جھلک مودی کے دورۂ متحدہ عرب امارات اور امریکہ میں صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان خود اعتراف کر چکے ہیں کہ اکثر ممالک بھارت کے ساتھ تجارتی اور معاشی مجبوریوں کے پیش نظر ہمارا ساتھ نہیں دے پا رہے۔
ہمیں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ ہم پہلے ہی وقت کے علاوہ اور بھی بہت کچھ گنوا چکے ہیں۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے اور ان سے یکجہتی کے لیے حکومت، پوری قوم اور ہماری افواج ایک پیج پر ضرور ہیں لیکن ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ تصوراتی باتوں سے نکل کر حالات اور معاملہ فہمی پر ''فوکس‘‘ کیا جائے۔ اُس وقت بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ ''خدا را ہوش کے ناخن لیں اور امریکی رومانس کا نشہ اپنے حواسوں پر سوار نہ کریں۔ وزیر اعظم صاحب کے دورۂ امریکہ پر شادیانے ضرور بجائیں لیکن پاک امریکہ تعلقات کا تاریخی پس منظر اور فلسطین پر امریکی ثالثی بھی یاد رکھیں‘‘۔
امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کوئی نیا نہیں ہے اور اب یہ عالم ہے کہ مودی، ٹرمپ اکٹھے ہو کر بے گناہ ہندوستانیوں کو اسلامی دہشت گردوں سے بچانے کی نہ صرف باتیں کرتے ہیں بلکہ کھلی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ ٹرمپ مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے وفادار دوست سے تعبیر کرتا ہے اور ہمارے حکمران ہیں کہ ابھی تک عوام کے لیے کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کا چورن، پھکیاں لیے پھر رہے ہیں۔ خطے میں غیر متوازن ترجیحات اور سفارتی قلابازیوں کی وجہ سے پہلے ہی کافی نقصان اور پسپائی کا سامنا کر چکے ہیں۔ مزید کی گنجائش نہیں ہے۔