"AAC" (space) message & send to 7575

ریفارمز سے ڈیفارمز تک

یہ نحوست ہے یا کسی آسیب کا سایہ ہے‘ یوں لگتا ہے ہماری زمین قہر زدہ ہو چکی ہے۔ زمین قحط زدہ ہو تو اُمید اور امکان بہرحال رہتا ہے‘ ہماری زمین کا کیس اور ہے‘ یہ کیس قحط کا نہیں قہر کا ہے۔ قحط زدہ زمین سے بہتری کا گمان کیا جا سکتا ہے لیکن قہر زدہ زمین سے امکان اور امید کی توقع ہرگز نہیں لگائی جا سکتی۔ ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسا نہیں جو حکمران ہو اور گردن اُٹھا کر چل سکتا ہو‘ اُنگلی اٹھا کر جس کی شہادت دی جا سکتی ہو کہ اس نے حقِِ حکمرانی ادا کرکے عوام کے مینڈیٹ کا مان رکھا ہے۔
عوام نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ کیسے کیسے حکمران ان کے نصیب میں لکھے گئے‘ جو اپنی اپنی باریاں لگا کر چلتے بنے۔ سرکاری وسائل اور ریاستی اداروں پر غول در غول حملہ آور ہوئے، انہیں ملیامیٹ کیا، وسائل کو بھنبھوڑا اور کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ کرکے کنبہ پروری کے ساتھ ساتھ اقربا پروری کو بھی خوب رواج دیا۔ اس مملکت میں سماجی عدل و انصاف کا وقت آیا تو سماج سے لے کر ریاست تک نہ انصاف ہو سکا، نہ گورننس پروان چڑھی اور نہ ہی میرٹ کا بول بالا ہوا۔ ان حکمرانوں کو بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح بد اعمال پالیسی ساز اور بوئے سلطانی کے مارے سہولت کار حکام میسر آ گئے۔
ہمارے ورثے میں کہیں عمر بن خطابؓ جیسا حکمران عوام کی عدالت میں اپنی صفائی پیش کر رہا ہے تو کہیں حضرت علیؓ کو بتایا جا رہا ہے تمہارے حق میں حضرت حسنؓ کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ آپؓ کے صاحبزادے ہیں اور نہ ہی غلام کی شہادت آقا کے حق میں معتبر ٹھہرائی جا سکتی ہے۔ خلیفہ وقت ہو کر کرتے کے کپڑے کا حساب دینے والے اور دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی ذمہ داری لینے والے خلفا کو ماڈل بنا کر دھرنوں اور انتخابی تحریکوں میں پیش کرنے والے حکمرانوں پر جب عمل اور تقلید کا وقت آیا سماجی انصاف سے لے کر معاشی اصلاحات تک‘ میرٹ اور گڈ گورننس سے لے کر قول و فعل میں مطابقت تک‘ سبھی معاملات میں یہ ناکام و نامراد ٹھہرے۔ 
ایسا ایسا واقعہ‘ ایسی ایسی خبریں صبح شام دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں جو ہوش اُڑانے سے لے کر راتوں کی نیندیں اُڑانے تک‘ اعصاب سے لے کر نفسیات تک سبھی پر ناجانے کون کون سے ڈرون حملوں کا باعث بنتی ہیں۔ گزشتہ دو دنوں میں سامنے آنے والی چند منحوس اور کربناک خبریں شیئر کرتا چلوں۔ گوجرانوالہ میں سکول کے نلکے میں کرنٹ آ گیا اور تیسری جماعت کا طالب علم جاں بحق ہو گیا۔ اسی شہر میں ایک اور دردناک واقعہ یہ ہوا کہ ساتویں جماعت کا طالب علم ٹیچر کی مار کے خوف سے نہر میں کود گیا۔ مرنے والا طالب علم فیس ادا نہ کر پایا تھا۔ کراچی میں حالیہ بارشیوں میں کرنٹ لگنے سے مزید چھ افراد اپنی جان گنوا بیٹھے جبکہ گزشتہ ماہ بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے مرنے والوں کو ملا کر ناحق مارے جانے والوں کی کل تعداد تین درجن سے زائد ہو چکی ہے۔ 
ڈینگی مچھر کے ڈنک اور حکومتی ڈینگوں میں کانٹے دار مقابلہ جاری ہے اور ڈینگی مچھر کے آگے حکومتی دعوے اور اقدامات چاروں خانے چت نظر آتے ہیں۔ شہر لاہور میں سٹریٹ لائٹس پر بائیس کروڑ خرچ ہونے کے باوجود آدھے سے زیادہ شہر تاریک ہے جبکہ روشنیوں کے شہر کراچی کی روشنیاں بحال کرنے کے دعویدار سال بھر گنوا کر بھی اس شہر کے لیے کچھ نہ کر پائے۔ ڈیرہ غازی خان میں وزیراعلیٰ کے گھر پر تعینات سکیورٹی اہلکار کی گولی سے شہری زخمی ہو گیا۔ پولیو کے مزید تین کیسز منظرِ عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں مریضوں کی تعداد 69 ہو چکی ہے۔ پولیو کے مریضوں کی تشویشناک حد تک بڑھتی ہوئی تعداد نہ صرف الارمنگ ہے بلکہ یوں لگتا ہے جیسے سسٹم ہی کہیں پولیو کا شکار ہو چکا ہے۔ 
کراچی میں صفائی کے لیے مسلسل ہاتھ پیر مارے جا رہے ہیں۔ گھر کا کچرا باہر پھینکنے پر پہلا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ شہر کی صفائی پر مامور حکمران جب ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنا لیں تو شہر کا منظرنامہ ایسا ہی ہونا تھا اور ایسا ہی رہے گا۔ جو مقدمہ کچرا پھینکنے والے پر درج کروایا گیا ہے اگر یہی مقدمہ سال بھر کچرا نہ اٹھانے والوں پر کرایا جاتا تو شاید گندگی اور غلاظت اس شہر کا مقدر نہ بنتی۔ کراچی کی سڑکوں پر دن دیہاڑے اور تاریک راتوں میں بے گناہ مارے جانے والوں سے لے کر سسٹم پر حاوی آسیب کا تازہ ترین شکار لاڑکانہ میں آصفہ ڈینٹل کالج کے ہاسٹل میں پراسرار طور پر مردہ پائی جانے والی ''نمرتا‘‘ اور ''نقیب اﷲ‘‘ سمیت ناجانے کتنوں کی بھٹکتی روحیں بھٹو کے زندہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ 
پاکپتن میں سابق شوہر نے خاتون کے تین بچے زندہ جلا دئیے۔ ممتاز نامی درندہ صفت نے طلاق کے بعد سابقہ بیوی کو دوسری شادی کی سزا دینے کے لیے اسے باندھ کر تین معصوم بچوں کو اس کے سامنے زندہ جلا دیا۔ مریدکے میں دوسری شادی کے لیے تین سالہ جڑواں بیٹیوں کو باپ نے زہر دے دیا۔ یہ خبریں نہیں‘ نوحے ہیں۔ کہیں ''زرداریت‘‘ پاؤں پسارے بیٹھی ہے تو کہیں ''بزداریت‘‘ بال کھولے سو رہی ہے۔ ریاستِ مدینہ کا خواب دِکھانے والوں کی نیت سے لے کر طرزِ حکمرانی تک‘ معیشت سے لے کر سماجی ناہمواریوں تک‘ گرانی سے لے کر بدحالی تک کس کس کا رونا روئیں‘ کس کس کا گریبان پکڑیں؟ ؎
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں 
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے 
حکمرانوں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انجلینا جولی سے اپنے بچوں کو ملوانے کے شوق میں انہیں جہاز بھجوا کر بلوایا۔ زلزلہ زدگان کی امدادی رقوم ہڑپ کرجانے والے خادمِ اعلیٰ نے ابھی تک برطانوی اخبار پر ہرجانے کا دعویٰ نہیں کیا‘ جس کا اظہار وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنی تقاریر میں کرتے تھے۔ 'مالِ مفت دلِ بے رحم‘ کے مصداق سرکاری وسائل اور مصیبت زدگان کے مال پر کنبہ پروری کرنے والوں کی اخلاق گراوٹ سے لے کر ہوسِ زرکی لت تک کئی مبینہ وارداتیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ 
جب حکمران زلزلہ زدگان تک کو معاف کرنے کو تیار نہ ہوں تو کھلے آسمان تلے زلزلہ زدگان کے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں لوٹ مار کرنے والوں پر تعجب کیسا؟ جیسی روح ویسے فرشتے، جیسے حکمران ویسے عوام۔ ناجانے کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں سے ایسے فیصلے کروا دیتا ہے‘ جو خود ان کے لیے سُبکی، پسپائی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ ماضی میں بیشتر ایسے فیصلے انصاف سرکار کے کریڈٹ پر ہیں‘ جو شدید عوامی ردِّ عمل اور سُبکی کے بعد واپس لینا پڑے۔ 
محکمہ ریونیو سے لے کر شہری سہولیات تک‘ جیلوں سے لے کر پرائس کنٹرول اور انسداد ملاوٹ تک‘ صحت عامہ سے لے کر مفادِ عامہ تک‘ فروغِ تعلیم سے لے کر علم و ہنر تک سبھی شعبوں میں بے مثال کارکردگی کا لوہا منوانے کے بعد بیوروکریسی کو بونس کے طور پر امن و امان کا قلمدان دینے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ بذریعہ آرڈیننس بوئے سلطانی سے مجبور سرکاری بابوؤں کو پولیس فورس کی کمان سونپی جا رہی ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق کرپشن اور بے ضابطگیوں کی دوڑ میں محکمہ ریونیو پہلے نمبر پر کھڑا ہے جبکہ لوکل گورنمنٹ دوسرے، کوآپریٹو تیسرے اور پولیس چوتھے نمبر پر ہے۔ محکمہ مال کے ذمہ داران جب مال بنانے کو شرطِ زندگی بنا لیں تو انہیں کون شکست دے سکتا ہے۔ کرپشن کی دوڑ میں پہلا نمبر حاصل کرنے والے محکمہ ریونیو کے سرخیل بابوؤں کو اس اعلیٰ کارکردگی پر محکمہ پولیس کی نگرانی سونپی جا رہی ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ان بابوؤں نے پولیس ریفارمز کے حوالے سے کوئی نسخہ کیمیا ایجاد کر لیا ہے اور اس کے نافذ ہوتے ہی پولیس مثالی فورس بن سکتی ہے تو اس مسودے کو خفیہ اور یکطرفہ کیوں رکھا گیا ہے؟ نہ تو سٹیک ہولڈر محکمے سے سفارشات طلب کی گئیں اور نہ اعتراضات مانگے گئے۔ یہ بابو اس مسودے کو آناً فاناً اور عجلت میں نافذ کرنے پر بضد کیوں ہیں؟ اس مثالی مسودے کو منظر عام پر لایا جائے۔ اس پہ کھلے عام بحث کروانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ قابل عمل اور مفید تجاویز بھی مانگ لینی چاہئیں۔ اگر مقصد نیک نیتی سے عوام کی بہتری ہے تو عجلت اور ہنگامی صورتحال پیدا کرنے کا کیا جواز ہے؟ کر کے پچھتانے سے بہتر ہے‘ کرنے سے پہلے غوروفکر کر لیا جائے اور یہ دھیان بھی رہے کہ ریفارمز کرتے کرتے ہم کہیں ڈیفارمز کی طرف تو نہیں جا رہے؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں