"AAC" (space) message & send to 7575

صیغہ راز اَب قومی راز بن چکا ہے!

چیئرمین ایف بی آر نے ایک سال قبل انصاف سرکار کے چیمپئنز کی طرف سے دلائی گئی اُمیدوں، آسوں، دلاسوں اور لاروں کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہ واضح طور پہ کہہ چکے ہیں کہ بیرونِ ممالک سے پیسہ واپس نہیں لایا جا سکتا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ بیس برسوں میں چھ اَرب ڈالر بیرون ممالک منتقل کیے جا چکے ہیں۔ یہ رقوم فارن کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے منتقل کی گئی ہیں‘ جنہیں فارن کرنسی ایکٹ 1992ء کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس تناظر میں یہ منی لانڈرنگ قطعی نہیں ہے۔ 80 فیصد رقوم فارن کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے باہر منتقل کی گئی ہیں جن میں ٹیکس چوری کا پیسہ بھی شامل ہے؛ تاہم 15 سے 20 فیصد کرپشن کا پیسہ پاکستان سے باہر منتقل کیا گیا ہے‘ جسے واپس لانا نہ صرف انتہائی کٹھن ہے بلکہ اس کے لیے ایک مشکل طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا۔ 
چیئرمین ایف بی آر کے اس انکشاف کے بعد انصاف سرکار کے ان چیمپئنز کو ٹھنڈ ضرور پڑ گئی ہوگی جو برسرِ اقتدار آنے کے بعد بھاشن کے شوق کے ہاتھوں مجبور درجنوں ٹی چینلز کے کیمروں کے سامنے صبح، دوپہر، شام اعداد و شمار کے ساتھ دل فریب دعووں، وعدوں پر مبنی الفاظ کا گورکھ دھندہ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے گزشتہ برس برسرِ اقتدار آتے ہی قوم کو یہ بتایا کہ ہزارہا جعلی اکاؤنٹس کا سراغ لگا لیا گیا ہے‘ جن کے ذریعے 5.3 اَرب ڈالر پاکستان سے بیرون ملک لے جائے جا چکے ہیں‘ جو تقریباً 7 سو اَرب پاکستانی روپیہ بنتا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب نے بھی دھواں دھار اور پُر ہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے عوام کو بتایا تھا کہ تمام بڑے مگرمچھوں کو نوٹس بھجوائے جا چکے ہیں اور کچھ ممالک میں اِن کی رقوم بھی منجمد کروا دی گئی ہیں۔ بھجوائے گئے نوٹسز کے جواب موصول ہوتے ہی باقاعدہ ریفرنس دائر کیے جائیں گے اور لوٹ کر باہر بھجوائی گئی ساری رقوم واپس آ جائیں گی۔ 
اس وقت یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ ایم کیو ایم بھی بڑے پیمانے پر اس کارِ بد میں شریک ہے۔ خیر ایم کیو ایم تو ردِّ بلا کے لیے شریک اقتدار ہو چکی ہے اور وہ اَب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ لگ بھگ ایک سال قبل افتخار درانی صاحب نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ پچھلے 10 برسوں میں پاکستانیوں نے دبئی میں 15 اَرب ڈالر کی جائیدادیں بنائی ہیں‘ جس کا انہیں حساب دینا ہو گا اور انہیں احتساب کا سامنا بھی بہرحال کرنا پڑے گا۔ اِن دنوں انصاف سرکار کے یہ سارے چیمپئنز روزانہ کی بنیاد پر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی خوشخبریاں اور حکومتی اقدامات کے بارے میں اطلاعات دیا کرتے تھے اور انتہائی جوش و جذبے سے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ہم لوٹی ہوئی دولت ضرور وطن واپس لائیں گے‘ اس کے لیے لائحہ عمل ترتیب دے لیا گیا ہے۔ ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ 
مزے کی بات یہ کہ انتہائی رازداری سے یہ بتایا جاتا تھا کہ ان سبھی ملزمان کے نام بوجوہ صیغہ راز میں رکھے گئے ہیں اور عنقریب ان سب کو بے نقاب کرکے لوٹی ہوئی دولت وصول کر لی جائے گی۔ ایک سال گزرنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ صیغہ راز اَب قومی راز بن چکا ہے اور اس کے اَفشا ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خیر چیئرمین ایف بی آر کے اس اعتراف کے بعد ان حکومتی چیمپئنز سے معلوم تو کرنا چاہیے کہ بھئی کہاں گئے تمہارے وہ نوٹسز اور کہاں رہ گئی وہ اَربوں روپے کی ریکوری جو تم نے وطن واپس لے کر آنا تھی۔ خیر ان کا کیا ہے۔ اِدھر بات کی... تو اُدھر پھر گئے اور بات سے پھرنے پھرانے میں ہچکچاہٹ کیا دکھانا۔ برسرِ اقتدار آتے ہی جن اہداف اور چیلنجز کے بارے میں ان سب نے بڑے بول بولے تھے وہ سارے ہی ان کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ 
وطن عزیز میں بعض حکام کی جانب سے کچھ حلقوں کے دوہرے رویوں پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اس حیرت پر مجھے خاصی حیرت کا سامنا ہے کہ انہیں آج تک اپنی قوم کا مجموعی رویے اور دوہرے معیار کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ یہ قوم اکثر اوقات ایسا جداگانہ کردار اور رویے کا مظاہرہ کرتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سامنے خوشامد اور پیٹھ پیچھے غیبت... یہ ہمارا قومی رویہ بنتا چلا جارہا ہے۔ اکثر معاملات میں اسی ٹائپ کے لوگوں کا ہاتھ سامنے والے کے گلے پر ہوتا ہے یا پھر پیروں پر... یعنی پہلے گلہ دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں یہ لوگ پیروں میں گرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ 
قارئین! اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک تحریر پر نظر اَٹک کر رہ گئی‘ جو بزدار سرکار کی ایک سالہ کارکردگی کے حوالے سے لکھی گئی تھی۔ تحریر پڑھ کر ایسا محسوس ہوا‘ گویا ہم کوئی دیو مالائی کہانی پڑھ رہے ہوں۔ تحریر سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ ہر طرف فیض کے چشمے جاری ہیں، انقلابی اقدامات کیے جا رہے ہیں، انفراسٹرکچر سے لے کر صحتِ عامہ کی سہولیات کی فراہمی تک سبھی کچھ بے مثال اور انصاف سرکار کے اُن دعووں اور وعدوں کے عین مطابق چل رہا ہے جو دھرنوں اور انتخابی تحریکوں کے دوران عوام سے کیے گئے تھے۔ تحریر میں مفادِ عامہ اور فیض کے جو چشمے بہائے گئے ہیں بخدا اگر ان کا چند فیصد بھی سچ ہو جاتا تو صورت حال اس قدر مایوس کن ہرگز نہ ہوتی اور سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو ذلت اور دھتکار کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ 
اصل صورتحال کچھ یوں ہے کہ انصاف سرکار کی کارکردگی کا گراف مسلسل نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کئی معاملات ایسے ہیں جن کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ملک بھر میں ڈینگی وباء کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اب تمام حکومتی اقدامات اس مچھر کے سامنے بے بس اور پسپا دِکھائی دیتے ہیں۔ ملک بھر میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ڈینگی کا شکار بد نصیب باپ میو ہسپتال میں زیر علاج تھا اور تیمار داری کی غرض سے 13 سالہ بیٹے کو بھی ساتھ لے آیا تھا۔ باپ تو ڈینگی سے بچ گیا لیکن 13 سالہ بیٹا میو ہسپتال کی لفٹ میں پھنس کر 'گڈ گورننس‘ کی بھینٹ چڑھ گیا۔ 
مذکورہ تحریر میں کینسر کے 5 ہزار مریض 5 الفاظ بھی نہ پا سکے‘ جن کی ادویات موجودہ سرکار نے بند کر کے انہیں ادویات کے حصول کے لیے سڑکوں پر رُلنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ جس ملک میں ادویات کے حصول اور زندہ رہنے کے لیے دھرنوں اور احتجاج کا سہارا لینا پڑے وہاں ایسی تحریریں عوام کو کتنا متاثر کرتی ہوں گی۔ پولیو کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جس معاشرے میں سسٹم اور گورننس پولیو کا شکار ہو وہاں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کو کون روک سکتا ہے۔
چلتے چلتے ایک تعلیم فروش سکول سسٹم کا ذکر بھی ہو جائے‘ جو بچوں کے والدین سے فیسوں کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے فی بچہ ایڈوانس وصول کرتا رہا اور بعد ازاں تینوں برانچیں بند کر کے والدین کو 15 کروڑ روپے کا چونا اور 1400 بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا گیا۔ اس قسم کی ساری وارداتیں صرف ہمارے ہاں ہی ہوتی ہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں ایسے فعل کا تصور بھی ناممکن ہے کیونکہ وہ گورننس کا ڈھول نہیں پیٹتے اور ان کی کارکردگی میدان عمل میں نظر آتی ہے۔ 
چیئرمین ایف بی آر کے اس انکشاف کے بعد انصاف سرکار کے ان چیمپئنز کو ٹھنڈ ضرور پڑ گئی ہوگی جو برسرِ اقتدار آنے کے بعد بھاشن کے شوق کے ہاتھوں مجبور درجنوں ٹی چینلز کے کیمروں کے سامنے صبح، دوپہر، شام اعداد و شمار کے ساتھ دل فریب دعووں، وعدوں پر مبنی الفاظ کا گورکھ دھندہ کیا کرتے تھے۔۰

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں